کیا عورت واقعی بیچاری ہے؟


ڈاکٹر صاحبہ! آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے یہاں عورت چاہے بھی تو کچھ نہیں کر سکتی۔ ۔ ۔ ۔ آپ تو جانتی ہیں عورت کتنی مجبور اور بے بس ہے، بس اسی لیے میں کچھ نہیں کر پائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ، وغیرہ۔

یہ اور اس طرح کے جملے مجھے روز سننے کو ملتے ہیں جب میں اپنے معاشرے کی لڑکیوں اور خواتین سے ملتی ہوں۔ یقیناً جب آپ یہ کہتے اور سوچتے ہیں کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ تو پھر آپ یقیناً کچھ نہیں کر سکتے۔

مجھے نفسیات کی فیلڈ میں تقریباً دس سال ہو گئے، ہر شعبہ زندگی کے لوگوں سے ملنا ہوتا ہے جن میں ہر طبقے کی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں ان سے مل کر ان کے مسائل، حالات اور خیالات جاننے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ گو کہ باقی ممالک کی نسبت ابھی ہمارے ہاں خواتین ماہر نفسیات کے پاس کم جاتی ہیں حالانکہ ذہنی اور نفسیاتی مسائل کافی زیادہ ہیں۔

جب بھی کسی مریض سے پہلا سیشن ہوتا ہے تو اس ایک گھنٹے کے سیشن میں تقریباً 45 منٹ اسے ہی دیے جاتے ہیں کہ وہ تفصیل سے اپنی بات سنائے۔ ۔ ۔ جس میں اس کی شخصیت، اس کے مسئلے، اور مسئلے کے حل کی طرف کیا لائحہ عمل دینا ہے کافی باتیں سامنے آ جاتی ہیں۔

خواتین جب بھی اپنی بات سناتی ہیں ان کا لہجہ، باڈی لینگویج، چہرے کے تاثرات اور آواز کا اتار چڑھاؤ سب ایک بے چارگی کے رنگ میں ڈھلا ہوا ہوتا ہے جبکہ اصل مسئلہ جس کی وجہ سے وہ آئی ہوتی ہیں، اتنا مشکل نہیں ہوتا۔ انسان جب بات کرتا ہے تو اس کی شخصیت کے بہت سے پہلو اس کی بات چیت سے سامنے آتے ہیں۔

جب بھی ہم کچھ سوچتے یا بولتے ہیں تو اس میں ہمارے موجودہ حالات کے علاوہ پچھلی گزاری گئی زندگیوں کا تجربہ اور اثر بھی شامل ہوتا ہے، ہم جب کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو ہمارے لاشعور میں موجود گزشتہ تجربات کا اس میں بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر میں اپنے معاشرے کی خواتین کے حوالے سے بات کروں تو حقیقت یہ ہے کہ احساس کمتری شروع سے ہی اس کے ذہن میں ڈالا جاتا ہے، نا مقول نظریات، نامناسب ماحول اور رول ماڈل کی کمی کی وجہ سے لڑکی کی شخصیت میں بے چارگی اور بے بسی کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ۔ ۔ اور پدر شاہی معاشرے کی بقا عورت کے بے چارے پن میں ہی ہے، جب ذہن میں پہلے دن سے کمزوری اور بے بسی کو جگہ دی جائے گی تو تمام عمر وہی بے چارگی ہی شخصیت پر حاوی رہے گی۔

جن علاقوں میں خواتین کو برابری کے حقوق حاصل نہیں، وہاں حالات یقیناً بدترین ہیں، ان ممالک میں انڈیا پاکستان سرفہرست ہیں۔ مگر مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہماری 30 %خواتین تو واقعی ایسے، حالات سے گزر رہی ہیں جو بیچارگی اور مظلومیت کی حد کو چھو رہے ہیں، مگر باقی خواتین کی اکثریت بیچارگی کے خول میں بند زندگی گزارنے کی عادی ہو چکی ہے۔

انسان جیسا اپنے بارے میں سوچتا ہے، ویسی ہی اس کی شخصیت بنتی ہے اور پھر جیسی شخصیت، عادات اور خصائل ہوں وہی چھاپ اس کی سوچ اور نظریات میں نظر آتے ہیں یعنی شخصیت اور سوچ ایک دوسرے کو بناتے ہیں

ایک امیج دنیا کا ہمارے بارے میں ہوتا ہے، اور ایک امیج ہمارا، اپنے بارے میں ہوتا ہے، گو کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی اور کس نظر سے دیکھتی ہے، یہ بھی کسی حد تک اثر انداز ہوتا ہے، مگر اس سے کہیں زیادہ اثر ہماری اس سوچ کا ہوتا ہے جو ہم اپنے بارے میں رکھتے ہیں یعنی سیلف امیج۔

عورت کی شخصیت کے تعین میں ہر دور میں لوگوں نے اپنی ذہنی سوچ اور مفادات کی خاطر اپنی مرضی کے روپ دینے کی کوشش کی ہے۔ کہیں مذہب کی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ کیونکہ جب صحیح چیز غلط ہاتھوں میں چلی جائے تو اس کا استعمال بھی غلط ہی ہوتا ہے، کہیں معاشرتی گھٹن اور فرسودہ نظریات سے عورت کے وقار اور سوچ کو پامال کیا ہے، کبھی دیوی کا روپ دیا گیا اور کبھی آزادی نسواں کے نعروں سے فریب دیا گیا۔

جو خواتین اس بیچارے پن کے خول کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں وہ مشکل حالات میں بھی اچھے طریقے سے بچ جاتی ہیں بلکہ مردوں سے کہیں بہتر طریقے سے زندگی کو بدل دیتی ہیں۔ برین میٹا بولزم بھی عورت کو ذہنی طور پر مضبوط ثابت کر تا ہے۔ پھر کمزوری اور بیچارہ پن، ایک متھ ہے، عورت کے مقابلے میں مرد جذباتی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔

نئی سائنسی تحقیقات کے مطابق عورتیں ذہنی اور جسمانی طور پر زیادہ مدافعت اور مزاحمت کی قوت رکھتی ہیں جو عورت نئے وجود کو جنم دینے کی اذیت سے گزر سکتی ہے، وہ کمزور کیسے ہو گئی!

امتحانات کے نتائج بھی یہی ثابت کر رہے ہیں کہ لڑکیاں ذہنی طور پر کسی طرح کم نہیں بلکہ بہتر نتائج دے رہی ہیں۔

آج کی عورت بہشتی زیور کے حصار سے باہر آ چکی ہے مگر ہونٹوں پر ابھی بھی مظلومیت اور بے بسی کی فریاد رہتی ہے، کیوں کہ مردانہ سماجی ساخت میں عورت کو شروع سے ہی ثانوی اور کمزور حیثیت دے کر اس کی شخصیت میں بیچارے پن کا احساس نمایاں کیا گیا ہے۔ یاد رکھیں صرف تصورات یا نظریات سے تقدیر یا اپنے ارد گرد کی تصویر نہیں بدلی جا سکتی، اپنے کو بیچارہ سمجھ کر کمزور اور بے بس ہو بیٹھنا اپنی شخصیت کو خود ہی مسخ کر دینا ہے جب کہ آج کے چیلنج کو غالبانہ اور منطقی انداز میں لبیک کہنے والی آوازوں کی ضرورت ہے۔

زندگی ایک محاذ ہے اور کوئی بھی محاذ بیچارے پن اور بے بسی کے احساس کے ساتھ نہیں جیتا جاسکتا۔ عورت کا کامیاب زندگی کے لیے کا پر اعتماد ہونا اور محض ایک شے کا تاثر ہونے کے خول کو توڑنا ضروری ہے۔ اور اس کے لیے عورت کی شخصیت میں اعتماد اور ایک مکمل انسان ہونے کا تاثر اجاگر ہونا ضروری ہے تاکہ وہ گھر اور گھر سے باہر کے مسائل سے نمٹ سکیں نہ کہ بے چارے پن کا رونا روتی رہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments