فرد اور روایت


روایت کو بنیاد و قائم افراد کرتے ہیں، آگے بڑھنے سے پہلے، روایت کیا ہے؟ کی وضاحت کر دی جائے، روایت میں اتھارٹی و تسلسل ہوتا ہے اور یہ افراد کے ہی ہاتھوں ممکن ہوتی ہے، اس کی ہر دور میں تشکیل و توسیع بھی ضرورت کے تحت سرانجام پاتی رہتی ہے، یہ تسلسل کے ساتھ سفر کرتی رہتی ہے۔ جدیدیت، فرد کی بات کرتی ہے اور اسی کو مرکز میں لا کھڑا کرتی ہے، رد و بدل کے ساتھ وجودیت کا بھی یہی میدان ہے، روایت، فرد کی انفرادیت سے انکار کرتی ہے، اس سے وہ اپنا وجود خطرے میں سمجھتی ہے کیونکہ فرد کی انفرادیت سے روایت کے مسلسل سفر کی اتھارٹی کو جھٹکا لگتا ہے، اب جب فرد کی انفرادیت کی بات آ گئی تو یہاں اتھارٹی ”فرد“ کی قائم ہوتی نظر آتی ہے۔ فرد کی اتھارٹی کو تسلسل حاصل نہیں کیونکہ اتھارٹی کا تسلسل صرف روایت کی پہچان ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس روایت کو فرد قائم کرتا ہے وہی روایت اپنے لئے فرد سے خائف کیوں ہے؟

جس کا مختصر جواب، سوال قائم کرنے سے پہلے ہی درج بالا سطور میں دیا جا چکا ہے۔

فرد اور روایت: فرد کی انفرادیت ایک خاص شکل میں اپنا فکری دائرہ قائم کرتے ہوئے، مخصوص اصول و ضوابط کے تحت اسی دائرے میں پنپتی رہتی ہے جس کا مرکز ”فرد“ ہے جبکہ روایت کو کسی فرد نے قائم کیا اور پھر دوسرے افراد کے حوالے کر دیا جو اپنے معاصر ناگزیر تقاضوں کے تحت متشکل و وسعت دیتے رہتے اور تسلسل کے ساتھ اپنے ساتھ لیے چلتے رہتے ہیں۔ اس کا بالکل سادہ سا جواب یہ بھی بنتا ہے کہ فرد کی انفرادیت میں تسلسل نہیں جبکہ روایت نام ہی اسی کا ہے، یہاں فرد خود مرکز میں رہتا ہے جبکہ روایت میں فرد کی قائم کردہ چیز تسلسل کے ساتھ مرکز میں رہتی ہے۔

میرے مطابق فرد اور روایت کا امتزاج ہونا چاہیے۔ یہ امتزاج کیسے قائم ہو سکتا ہے اس کا بھی جواب جزوی طور پر مندرجہ بالا سطور میں دیا جا چکا ہے۔ جب فرد، روایت کو معاصر تقاضوں کے تحت نئے سرے سے متشکل اور وسعت دیتا ہے تو وہ افراد کی انفرادی ناگزیر خواہشیں و ضرورتیں ہوتی ہیں جسے وہ روایت کا حصہ بنا دیتا ہے ایک طرح سے وہ خود کو اس میں ضم کر دیتا ہے لیکن یہاں معاملہ اجتماعی سطح پر ضم ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی بالکل نہیں کہ فرد اور روایت ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے بلکہ فرد و روایت اپنی الگ الگ سطح پر قائم رہتے نظر آتے ہیں۔

میرے خیال میں امتزاج کا کام روایت کے ذمہ کر دینا چاہیے اس کو اتنا اختیار و وسعت لازم دیا جائے کہ وہ اپنے معاصر فرد کی مرکزیت کو اپنی اتھارٹی پر مقدم جانے اور فرد سے رد و قبول والا معاملہ برقرار رکھے اور ایسا رد و قبول جس کی وہ معاصر و مستقبل دونوں ادوار میں ضرورت و قبولیت کو مسلم جانے۔ یہاں اس کا مطلب قطعی طور پر ایسا نہیں کہ روایت اپنی اتھارٹی و تسلسل کو فرد پر قربان کر دے یا فرد اپنی انفرادیت کو روایت کے تسلسل میں بہا دے اور اپنی پہچان ہی کھو بیٹھے۔ درج بالا وضاحت کے تحت ہی روایت کے تسلسل کی اتھارٹی اور فرد کی اتھارٹی دونوں کو باہم چلایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments