کسی معذوری والی خواتین اور بچیوں کو حقوق کی فراہمی


عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس ملین سے زیادہ ایسے افراد موجود ہیں جنہیں کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا سامنا ہے ان میں بہت سی خواتین اور بچیاں بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کا کنونشن برائے حقوق ایسے افراد جنہیں کوئی معذوری ہے بھی حکومت پاکستان سے ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے کے حقوق کی فراہمی پر زور دیتا ہے۔ اس کنونشن کے مطابق ایسے افراد جنہیں کوئی معذوری ہے ان کی تعلیم، صحت، معاشرے میں ایک باعزت مقام اور روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ذمہ داری میں شامل ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سی خواتین اور بچیاں اپنے ان حقوق سے محروم ہیں۔

ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پاکستان نے ڈائریکٹوریٹ جنرل اسپیشل ایجوکیشن، پاکستان بیت المال اور سوشل ویلفیئر کے محکموں کو اس ضمن میں یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ ان خواتین اور بچیوں کو جنہیں کوئی معذوری ہے کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ ان خواتین اور بچیوں کو معاشرے میں صحت مندانہ زندگی گزارنے کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے ان کے حقوق متعین کیے گئے تاہم ان حقوق کے حصول میں بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے والدین آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ان خواتین اور بچیوں کو تعلیم کے حق سے محروم رکھتے ہیں انہیں اپنے لیے آزمائش سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی وراثت کے حق سے بھی محروم رکھتے ہیں۔ ایسے والدین خواتین اور بچیوں کی معذوری کا اندراج سوشل ویلفیئر اور پاکستان بیت المال میں نہیں کرواتے اور نہ ہی ان کا شناختی کارڈ بنواتے ہیں۔ اور شناختی کارڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ تمام خواتین اور بچیاں نہ ہی وراثت میں حق حاصل کر سکتی ہیں اور نہ ہی اپنا سیاسی حق استعمال کر سکتی ہیں۔

حکومت کی طرف سے ان کو مفت تعلیم کی فراہمی اور مفت صحت کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں لیکن والدین کو آگاہی نہ ہونے سے بہت سی خواتین اور بچیاں اپنا یہ حق حاصل نہیں کر پاتیں۔ اس ضمن میں بہت سے فلاحی ادارے اور سول سوسائٹی آرگنائزیشن معاشرے میں والدین کو آگاہی فراہم کر رہی ہیں لیکن انفرادی سطح پر ہم سب کا یہ اخلاقی فرض ہے کے ایسی خواتین اور بچیوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں اور اس سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔

حکومت اور ہم سب کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ایسی تمام خواتین اور بچیوں کو فنی مہارتیں سکھائیں اور ساتھ ہی روزگار کے مواقع بھی فراہم کریں تاکہ یہ خواتین اور بچیاں معاشی طور پر مستحکم ہو کر ایک باعزت زندگی گزار سکیں۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسی تمام خواتین اور بچیوں کے لیے مہارتوں پر مبنی تربیتی پروگرام کا آغاز کرے۔ حکومت نے بہت سے اداروں میں ملازمت کے کوٹے مقرر کر رکھے ہیں ان اداروں میں مختص کیے گئے کوٹہ جات پر مستحق خواتین اور بچیوں کی بھرتی کو یقینی بنایا جائے۔

پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر کسی ایسی خاتون جو کہ معذور ہو کو منتخب کریں تاکہ وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے والی ایسی بہت سی خواتین جنہیں کوئی معذوری ہے کی آواز بن سکیں اور ان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے قانون سازی میں بہتر نمائندگی کر سکیں۔ حکومت ان تمام ضرورت مند خواتین اور بچیوں کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کرے تاکہ وہ اپنی روز مرہ کی ضروریات زندگی کو پورا کر سکیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام پبلک مقامات جس میں تمام تعلیمی ادارے، لائبریریوں، مارکیٹس، ریستوران، شادی ہال، ٹرانسپورٹ، اسپتال، ریلوے اور ہوائی اڈوں کو معذور افراد کے لیے قابل رساں بنائیں تاکہ وہ خواتین اور بچیاں جو گھروں میں مقید ہو کر رہ جاتیں ہیں ان کے والدین انہیں اپنے ساتھ لے جائیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ ایسی بچیاں جن کو کوئی معذوری ہے اور وہ شادی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ والدین ان کی شادی کروائیں۔

حکومت ایسی خواتین اور بچیوں کے لیے تفریحی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کرے تا کہ ان کے اندر موجود احساس محرومی کا ازالہ کیا جا سکے۔ گھروں میں ہونے والی فیصلہ سازی میں ایسی خواتین جنہیں کوئی معذوری ہے کو شامل کر نا ان کا یہ بنیادی حق ہے۔ حکومت جدید علاج معالجہ کی مفت سہولیات فراہم کرے تاکہ معذور افراد جو قابل علاج ہیں وہ اپنا علاج کروا سکیں۔

آپ ذرا سوچیں! اور اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو ایسی بہت سی خواتین اور بچیاں نظر آئیں گی جو کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا سامنا کر رہی ہوں گی یہ خواتین اور بچیاں جب کسی کو کھیلتا دیکھتی ہوں گی تو خوابوں اور خیالوں میں خود کو کھیلتا پاتی ہوں گی، جب کسی کو سکول جاتا دیکھتی ہوں گی تو ان کا بھی سکول جانے کو دل کرتا ہو گا، جب کسی کو مارکیٹس میں جاتا دیکھتی ہوں گی اور وہ جب اپنی پسند کے کپڑے خرید کر لاتا /لاتی ہو گی تو حسرت ہوتی ہو گی کاش ہم بھی جا سکتیں، ان کے اندر بھی احساسات کا سمندر ہوتا ہے، ان کی بھی خوشی ہوتی ہے۔

ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے آپ ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ آپ ان کے والدین کو آگاہی فراہم کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ آپ ان کی صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق کی فراہمی کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں؟ آپ اپنے گلی، محلہ، گاؤں، قصبہ اور شہروں میں موجود ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے کی رہنمائی کرنے اور ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے میں حکومتی اداروں کا ساتھ کس طرح دے سکتے ہیں یا حکومتی اداروں سے کیسے ان کے حقوق طلب کر سکتے ہیں؟

حکومت اور ہم سب کا یہ اولین فریضہ ہے کہ ہم ان کے حقوق پورے کرنے میں ان کا بھرپور ساتھ دیں تاکہ ان کے اندر کسی بھی طرح کی احساس محرومی کو ختم کیا جا سکے اور ان کے چہروں پر خوشیاں بکھیریں جا سکیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خواتین کے متعین کردہ حقوق کی فراہمی اور ان کی معلومات تک کی رسائی کو یقینی بنائے۔ حکومت ان خواتین اور بچیوں کے ساتھ ہر قسم کے استحصال کی روک تھام میں بھر کردار ادا کرے۔ اگر آپ ایسی خواتین اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے کے ساتھ ظلم و زیادتی اور ناروا سلوک ہوتے دیکھتے ہیں تو متعلقہ حکومتی اداروں کو آگاہ کریں۔ یہ خواتین اور بچیاں آئین کے مطابق یکساں حقوق رکھتی ہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ یہ خواتین اور بچیاں ایک معاشرے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں بھر پور مواقع فراہم کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments