حکومت سے اتحاد بلوچستان نیشنل پارٹی کے لئے گھاٹے کاسودا


گزشتہ ہفتے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے دو سال سے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم حکومت کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ سرداراخترمینگل نے کہا کہ ہمارے معاہدوں میں کوئی غیر آئینی مطالبہ بھی شامل نہیں تھا اس کے باوجود حکومت نے ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد چار ہے جبکہ سینیٹ میں ایک رکن ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔

ماضی میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے متعدد بار حکومت سے الگ ہونے کی دھمکیاں دی تھیں لیکن حکومتی اتحاد سے علیحدہ نہیں ہوئی، بی این پی نے پہلی بار عام انتخابات 2018 کے صرف دو ماہ بعد حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی اس وقت دی جب وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب کے دوران پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔ سینیٹ کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے بی این پی کے امیدوار کی بجائے بلوچستان کی حکومتی جماعت کے امیدوار کوووٹ دیا تو بی این پی نے ایک بار پھر حکومت سے علیحدگی کا عندیہ دیا لیکن حکومتی اتحاد نہیں چھوڑا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے وزیراعظم، صدر، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سمیت ہر موقع پر کھل کر تعاون کیالیکن حکومت کی جانب سے بی این پی سے ہونے والے کسی معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا

تحریک انصاف کے اتحاد سے بی این پی کو فائدہ توکچھ نہیں ملا البتہ ان کی جماعت کو ہروقت الزامات کاسامنا کرناپڑا۔ ان پر تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت پراربوں روپے لینے کا الزام بھی لگا، یہ الزام لگانے والوں میں دیگرجماعتوں کے ساتھ حکومتی جماعت کی رکن قومی اسمبلی منورہ منیر بھی شامل ہیں۔ باربار کی دھمکیوں اور چھ نکات پرعملدرآمدنہ ہونے کی وجہ سے بی این پی کی صوبے میں مقبولیت میں تیزی سے کمی آنے لگی۔ وفاقی کابینہ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بی این پی رہنماؤں کو طعنے ملنے لگے۔ بی این پی کے اپنے کارکن اپنی جماعت سے نالاں نظرآنے لگے ان کو سوشل میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر پارٹی کے دفاع میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔

یہ صرف بلوچستان نیشنل پارٹی بلکہ ہر قوم پرست جماعت کا المیہ ہے کہ وہ اپنے عوام اور اپنے صوبوں کے مفاد میں حکومت کا ساتھ دیتے ہیں بدلے میں انہیں فائدہ ملنے کی بجائے نقصانات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔

2013 کے انتخابات میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کو کامیابی ملی تو انہوں نے وفاق میں مسلم لیگ نواز کی غیرمشروط حمایت کی۔ چار ارکان اسمبلی اور تین سینیٹرز (بعد میں تعداد پانچ ہو گئی ) کے ہونے کے باوجود پارٹی کا کوئی رکن وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنا۔ سی پیک میں بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا تو پشتونخواملی عوامی پارٹی کو صوبے میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور حکومتی وزراءایک طرف وعدے کرتے رہے کہ ہم بلوچستان کونظرانداز نہیں کریں گے لیکن دوسری طرف بلوچستان کوہرشعبے میں نظرانداز کیا اس کا براہ راست نقصان پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کو اٹھانا پڑا، ان دونوں جماعتوں کو اگلے انتخابات میں کامیابی نہیں ملی

قوم پرست جماعتیں حکومت میں شامل نہیں ہوتیں او ر اگر ہوجاتی ہیں تو ایک منصوبہ بندی کے تحت ان پر الزامات لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ قومی میڈیا پر قائدین کی تضحیک کی جاتی ہے ان پر ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں کہ سننے والا حیران ہوجاتا ہے۔ 2014 کے دھرنے کے دوران نواز شریف کی مکمل حمایت پر محمودخان اچکزئی پر الزامات لگنا شروع ہوگئے، الیکٹرانک میڈیا میں ان کی کردارکشی ہونے لگی۔ کبھی افغان ایجنٹ تو کبھی بھارت نوازسیاستدان ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔

ایک ٹی وی ٹاک شو میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کرکے ان سے محمودخان اچکزئی کے خلاف بیان دلوایا جاتا تھا۔ ایک قومی اخبار نے خبر شائع کی کہ پشتونخوا میپ کے تمام صوبائی وزراءاورارکان اسمبلی محمودخان اچکزئی کے رشتہ دار ہیں۔ کسی بھی اہم سرکاری یا غیرسرکاری عہدے پر اچکزئی قبیلے کا کوئی بند ہ ہوتا تو ان کو محمودخان اچکزئی کا رشتہ دار ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی۔ یہی صورتحال اب بی این پی کو درپیش ہے جب ان کے قائدین اپنا حق مانگناشروع کرتے ہیں تو ان کی کردارکشی شروع ہوجاتی ہے۔

گزشتہ سال ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا گیا کہ کہ سرداراخترمینگل کیسے بلوچوں کا ہمدرد ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے والد کے پاس قیمتی گاڑی ہے۔ بی این پی کو دو قسم کی مشکلات درپیش ہیں ایک طرف ان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پرعملدرآمد نہیں ہورہا تو دوسری طرف معاہدے پرعملدرآمدنہ ہونے اور کام نہ ہونے کے باعث ان کے اپنے لوگ ناراض ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں بڑی اپوزیشن جماعت ہونے کے باوجود ان کے منتخب ارکان اسمبلی کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے کی بجائے غیرمنتخب ارکان کونوازا جا رہا ہے جبکہ منتخب ارکان اسمبلی بیٹھے صرف تماشا دیکھ رہے ہیں

بلوچستان نیشنل پارٹی آج اسی صورتحال سے گزررہی ہے جس صورتحال سے عام انتخابات سے ایک دوسال قبل پشتونخواملی عوامی پارٹی گزر رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments