مرزا اطہر بیگ کے ناول “غلام باغ” کا مختصر جائزہ


اردو ناول کی سو سوا سو سال پرانی تاریخ میں ہمیں اکا دکا علامتی اور تجریدی ناول تو مل جائیں گے، شاید ایک آدھ اینٹی ناول بھی مل جائے، مگر ایسا ناول شاید ہی ملے جو اپنے اندر بہ یک وقت کئی رجحانات سموئے ہوئے ہو۔ یعنی وہ بہ یک وقت حقیقی بھی ہو، علامتی اور تجریدی بھی ہواور اینٹی ناول بھی ہو۔ اسے ہماری یا اردو زبان کی خوش نصیبی کہیے کہ اب ہمارے پاس غلام باغ کی صورت میں ایک ایسا ناول آ گیا ہے جو نہ صرف حقیقت، علامت، تجرید اور ان سے بہت آگے کی سرحدوں میں بھی آزادی سے گھومتا ہے بلکہ وہ ان سرحدوں کو پھلانگ کر بسا اوقات ایسے مقامات پر بھی جا نکلتا ہے، جن مقامات پر پہنچنے کی حسرت تمام زبانوں کے ناول کرتے رہے ہیں۔

غلام باغ Amorphous ہوتے ہوئے بھی Amorphous نہیں ہے۔ یعنی بے ہیئت، بے شکل، کسی بھی متعین فارم کے بغیر۔ جو یہ ناول ہے بھی اور نہیں بھی۔ کیوں کہ اس میں ایک انتہائی دل چسپ پلاٹ بھی موجودہے۔ جیتے جاگتے ذی شعور کردار بھی ہیں، جن کی زندگی میں نت نئے انوکھے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ہر کردار کے ذاتی ماجرے میں ایک ارتقا اور تغیر بھی صاف دکھائی دیتا ہے اور وہ سب کے سب ایک انجام سے بھی دوچار ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے توغلام باغ ناول کی عمومی روایت سے بغاوت کرکے بالکل الگ اور نئی ڈگر پر چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی روایت سے یہ بغاوت صرف اسلوب اور فارم کی سطح پر ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہمیں موضوع اور مواد سے جڑے عمیق اور گہرے خیالات اور تصورات کے حوالے سے بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔

ابتدا میں جب ناول کا مرکزی کردار کبیر مہدی یہ کہتا ہے؛ وقت کا کوئی وجود ہی نہیں، یہ محض ایک واہمہ ہے۔ تو ہم ناول میں آگے چل پیش آنے والے واہمے جیسے واقعات سے گزرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جو پے درپے رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ناول کے تقریباً سبھی کردار اپنی ذات میں اپنی طرح کے دانشور ہیں، جو اپنے گردوپیش کی سبھی چیزوں کی گہرائی میں جاکر غوروفکر کرتے ہیں۔ وہ سب کے سب بہت زیادہ خود آگاہ ہوتے بھی اپنی زندگی میں پیش آنے والے ناگہاں واقعات کا دھارا رتبدیل کرنے کی صلاحیت سے یکسر محروم رہتے ہیں۔ واقعات کا یہی بے رحم دھارا ان کی تقدیر کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ ان کی قسمت انہیں بھیانک انجام سے دوچار کرتی ہے۔ وہ سب کے سب میرے خیالل میں ایسے سنگین اور بھیانک انجام کے مستحق نہیں تھے۔

یہ ناول دو اہم اصطلاحوں، جو دو مختلف مکاتبِ فکر کی نمائندگی کرتی ہیں، کے محور پر گھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پہلی اصطلاح ’’ ارزل نسلیں‘‘ ہے۔ گرچہ ناول نگار نے ان کی تاریخ سے بہ درجہ اتم آگاہ کیا اور مانگُر جاتی کے پُگلوں اور کاچھروں سے تعلقات کی تاریخ تفصیل سے بیان کی ہے۔ مانگُر جاتی چونکہ پچھڑی اور دُھتکاری ہوئی ہے اور سماجی سطح پر اپنی ایکِ حیثیت بنانے کی خواہش ناکام سے کئی صدیوں سے لبریز ہے مگر رزالت اور بے توقیری اس جاتی کے لوگوں کا ازلی و ابدی مقدر رہا ہے۔ کئی نسلوں کی تذلیل اور بے توقیری کے بعد اس نسل سے تعلق رکھنے والا ایک شخص خادم حسین، جو ڈاکیہ ہے۔ وہ عمر بھر سائیکل پر ڈاک تقسیم کرتا رہا۔ وہ اپنی موت سے پہلے ’ گنیجینہِ نشاط ‘‘ نامی مسودہ اپنے بیٹے یاور حسین کو سونپ کر جاتا ہے۔ یاور حسین، مانگر جاتی کا نمائندہ ہے۔ سماجی سطح پر ابھرنے کی صدیوں پرانی خواہش کی تکمیل وہ اس گنجینہ نشاط نامی مسودے سے عملی استفادہ اٹھا کر کرتا ہے۔ وہ بڑے شہر کے اہم ترین رئوسا، جو اعلی طبقے کے بلند ترین مقامات پر براجمان ہیں، کو آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئیAphrodisiacs (جنسی ادویات)کاعادی بنا کر ایک منفرد سماجی مقام حاصل کرتا ہے۔ مانگر جاتی سے تعلق رکھنے والے اس آدمی کی بلند ترین سماجی چھلانگ کی پہنچ صرف اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خصیوں تک ہی ہو سکی۔ جنہیں ہمہ وقت تقویت پہنچانے کی وجہ سے یاور حسین کو عزت، دولت، شہرت سب کچھ مل جاتا ہے۔

ناول میں یاور حسین کے علاوہ کچھ اور کردار بھی ایسے ہیں مجھے جن کے مانگر جاتی سے متعلق ہونے پر شائبہ سا گزرتا ہے۔ ان میں کبیر مہدی، ڈاکٹر ناصر اور ہاف مین جیسے کردار ہیں۔ یہ تینوں پڑھے لکھے، عالم فاضل، ذہین و فطین لوگ ہیں۔ لیکن ذرا ان کی مصروفیات پر نظر ڈالیے تو یہ تینوں بھی اپنے مختلف شعبوں میں مختلف مقامات پر خصیہ برداری کا کام ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر فرق صرف اتنا ہے کہ انہیں اپنی حقیقت معلوم ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں۔ جب کہ یاور حسین اس حقیقت سے یکسربے بہرہ تھا۔ وہ خود فریبی میں مبتلا تھا کہ اس نے زندگی کا بلند ترین مقصد حاصل کرلیا ہے، مگر جب اس پر اپنی حقیقت منکشف ہوتی ہے، اسی لمحے اسے موت آلیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں دونوں طرح کے خصیہ لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ساری اذیتیں، ساری تکلیفیں، ساری کُلفتین، ساری کوفتیں انہی بے چاروں کی قسمت میں لکھی گئی ہیں۔

ناول میں استعمال ہونے والی دوسری اصطلاح ’’خصی کلب‘‘، بھی اپنی ماہئیت میں خاصی وسعت کی حامل ہے۔ اس میں ہمارے تمام سماجی، سیاسی، غیر سیاسی، روحانی، مذہبی ادارے اورریاست کے تمام اہم ستون بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ یاور حسین کو جو مسودہ ملا تھا وہ بادشاہوں کی نشاط و عشرت کے لیے آزمودہ نسخوں پر مبنی تھا مگر وہ ان کاا ستعمال اسلامی جمہوریہ کے مقتدر طبقات کو جنسی قوت مہیا کرنے کے لیے کرتا ہے۔ یہ خصی کلب بھی محض پُگلوں اور کاچھروں پر مشتمل نہیں ہے۔ اس میں نواب ثریا جاہ نادر جنگ، امبر جان اور دیگر پردہ نشین بھی آتے ہیں۔ اس کلب کے میمبران کی اکثریت تخلیے میں رہنا پسند کرتی ہے۔ خلوت میں جنسِ مخالف سے ہر ممکن لذت کشید کرنے کے یہ جویا، درحقیقت ارزل نسلوں کے جدی پشتی حکم ران ہیں۔ جنہوں نے نسلوںکی نسلوں کو اپنی اسی کام پر مامور کر رکھا ہے۔ اس کلب کے ارکان ہمیشہ محفوظ و مامون رہتے ہیں۔ جب کہ موت صرف اور صرف ارزل نسلوں کے نمائندوں کامقدر ہے۔

کوئی بھی ناول آخر کار لفظوں کا ایک گورکھ دھندا ہی ہوتا ہے۔ غلام باغ میں استعمال ہونے والی زبان اردو فکشن کے دل داد گان کے لیے انتہائی غیر متوقع ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اردو فکشن میں چند جید قسم کے ادیبوں کے علاوہ، اکثریت کے ہاں زبان کا استعمال بہت حد تک روایتی، گھسا پٹااور یکساینت کا مارا ہوا ہے۔ مرزا اطہر بیگ صاحب نے اس ناول کے میں جو زبان برتی ہے، وہ نہ صرف بھرپور طور پر ناول کے مناظر، کرداروں کی کیفیات، ان کی ذہنی حالت، ان کے خیالات و تصورات کا پوری طرح ابلاغ کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بہت کچھ ان کہی بھی چھوڑتی چلی جاتی ہے، یہ ان کہی قاری کے ذہن ہیجان برپا کرتی رہتی ہے۔ اس ناول نے اردو فکشن میں برتی جانے والی تخلیقی زبان کو نئے امکانات سے روشناس کروایا ہے۔ ناول میں بہت سے مقامات پر چیزوں اور لوگوں کے انوکھے نام اور انتہائی منفرد اصطلاحات گھڑی گئی ہیں۔ مثلاً لا لکھائی اور اس کے مصنف کا نا م گیگلا اور اس سے بہت پہلے ننگا افلاطون، وغیرہ وغیرہ۔ اس ناول کی تخلیقی زبان کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ایک فرہنگ کا پورا دفتر درکار ہوگا۔ ان کی زبان کو ندرت ان کے منفرد تخئیل کے ساتھ، ان کے کرداروں کے مختلف نقطہ ہائے نظر نے بھی دی ہے۔ ان کے کردار اپنے جسمانی مینر ازم سے زیادہ اپنے خیالات اور تصورات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ سب مکالمے کے ساتھ خودکلامی بھی کرتے ہیں۔ کبیر مہدی کی ساری لا لکھائی ایک خود کلامی ہی تو ہے۔ کبیر مہدی کے لب لہجے میں سنجیدگی اور متانت کے ساتھ طنز، استہزا، مزاح اور کامیڈی کا ملا جلا تاثر پایا جاتا ہے۔ اور یہی عنصر ناول میں بہت سے مقامات پر Bleak صورت بھی اختیار کر لیتاہے۔ مگر یہ گھمبیرتا ناول کی قرات کے دوران گراں نہیں گزرتی۔

عام طور پر زیادہ تر ناول بیانیہ میں ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ناول نگار مکالمے، خودکلامی، تقریر، منظر نگاری، تفصیل نگاری وغیرہ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ جب ہم غلام باغ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیںاس کے زیادہ تر حصے طویل مکالموں اور خودکلامیوں سے پٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اکثر کردار خودکلامی کے انداز میںاپنی روداد کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ ناول میں تمام خودکلامیاں اور طویل مکالمے ازحد دلچسپ ہیں۔ یہ طریقہ عالمی فکشن میں دوستوفسکی سے یادگار رہا ہے۔ اس کے تقریباً سبھی ناولوں میں سبھی کردار طویل مکالمے اور خودکلامیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مرزا اطہر بیگ صاحب نے اردو میں ان طریقوں کو درجہ کمال تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ غلام باغ کے تمام ابواب اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

کبیر کے نیلے رجسٹر میں زہرہ اس کا پہلاجملہ پڑھتی ہے۔ ’’ فکشن کے خالق کو خدا بننے کا اختیار کس نے دیا ہے؟‘‘خدا اس دنیائے رنگ و بو کا خالق ہے، جب کہ فکشن رائٹر اپنے فکشن کی دنیا کا خالق ہوتا ہے۔ یہ اختیار دونوں کے عمل میں چھپا ہوا ہے اور ان دونوں کے عمل سے ہی ظاہر بھی ہوتا ہے۔ غلام باغ کا غالب راوی یوں تو کبیر مہدی ہے لیکن اس کا ہم زاد بن کر اسی کے لب و لہجے میں یہ سرگوشیاں کون کرتا ہے۔ ناول میں سانس لیتے انسانوں کی زندگی اور موت پر حکم کون لگاتا ہے۔ ان کی موت کے طریقے، اس کے دن اور وقت کا تعین کون کرتا ہے؟یہ خدا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کون ہے۔ کوئی فکشن زاد ہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments