’قائد اعظم ثانی‘ کے مسائل


قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا۔ جیسا بھی بنایا آج تک قائم دائم ہے۔ بنگلہ دیش والا سانحہ ہو گیا لیکن ہم جیسے محبِ وطن یہ کہہ کر دل کو تسلی دے دیتے ہیں کہ دیکھیں اب مسلمانوں کے ایک نہیں دو ملک بن گئے ہیں۔

عمران خان ایک نیا پاکستان بنانے کے سفر میں ہیں۔ پہلے لگتا تھا کہ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر بازار میں ایک بٹ جیولرز کے نام سے دکان موجود ہے تو کوئی نیا آ کر نیو بٹ جیولرز کے نام سے دکان کھول لیتا ہے۔ لیکن عمران کا نیا پاکستان بنانے کا عزم جاری ہے اسی لیے ان کے چاہنے والے انھیں قائد اعظم ثانی کہتے ہیں۔

ویسے مماثلت بھی کافی ہے۔ دونوں کافی وجیہ ہیں۔ انگریزی ایسے بولتے ہیں کہ انگریز بھی ’واؤ، واؤ‘ کرنے لگتے ہیں۔ چھوٹی عمر میں ہی تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ قائداعظم قانون کی تعلیم حاصل کر کے لوٹے۔

عمران خان نے پتا نہیں انگلینڈ میں کیا پڑھا لیکن اب وہ اسلامی تاریخ، ترکی ڈراموں کے عروج و زوال اور کرپشن کے فلسفے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔

ٹیم بنانے کے تو اتنے ماہر ہیں کہ اپنے سیاسی مخالفین کو ہی جوڑ کر ٹیم بنائی اور اب بھی اس ٹیم کا بیٹنگ آرڈر آگے پیچھے کرتے ہیں اور اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ وسیم اکرم پلس کو نہ جانے کب کس کا فون آ جائے اور گیم کا پانسہ پلٹ جائے۔

بچپن میں معاشرتی علوم کے استاد قائداعظم کے قول سنایا کرتے تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ قائداعظم نے اپنے ساتھیوں کی نالائقی کے بارے میں کہا تھا کہ میرے جیب میں کھوٹے سکّے ہیں۔

اب یہ کھوٹے سکّے بڑھتے بڑھتے پوری قوم میں تبدیل ہو چکے ہیں اور قائداعظم ثانی کہتے تو نہیں لیکن ان کے لبوں پر اکثر عوام کا گلہ ہی رہتا ہے۔ کوئی سنتا ہی نہیں، کوئی ڈسپلن ہی نہیں۔ حاسدین یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ جس کی طاقت اے ٹی ام مشینوں سے آئے گی اسے تو عوام کھوٹے سکّے ہی لگیں گے۔

معاشرتی علوم کے استاد اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان مصیبتوں میں اس لیے گھرا ہے کیونکہ قائداعظم پاکستان بننے کے ایک سال بعد ہی انتقال فرما گئے تھے اور بھی کافی بزرگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ کاش اگر قائداعظم زندہ ہوتے تو۔۔۔

ویسے کبھی کبھی یہ بھی سوچنا چاہیے اگر پرانا پاکستان محمد علی جناح کی بجائے اگر قائداعظم ثانی عمران خان بنا رہے ہوتے تو کیسے سب کے چھکے چھڑا دیتے۔

فرماتے یہ ماؤنٹ بیٹن تو سارا ملک لوٹ کر کھا گیا۔ یہ نہرو، یہ پٹیل یہ سارے کرپشن مافیا کا حصہ ہیں۔ پہلے انھیں نیب کے حوالے کرو نہیں تو میں باؤنڈری کمیشن کی کوئی بات نہیں مانوں گا۔

یہ گاندھی کو ننگا گھومنے کی اجازت کس نے دی ہے۔ اپنے آپ کو مہاتما کہتا ہے اور واسکٹ اس کے پاس ایک نہیں ہے۔ اور کچھ نہیں تو میری طرح کسی سے مانگ کر ہی پہن لے۔

یہ ابوالکلام آزاد ہے یہ تو ہے ہی قوم کا غدار اور گاندھی کا یار۔ مسلمان ہو کر مجھے لیڈر نہیں مانتا۔ پتا کرو کہ ختم نبوت کو بھی مانتا ہے یا نہیں۔

ہندوستان کے بٹوارے کے مذاکرات شروع ہوتے تو خان صاحب کو یاد آ جاتا کہ انھوں نے ایک دھرنا دیا ہوا ہے، ادھر بھی جانا ہے۔ کانگریسی لیڈر اور علاقہ مانگتے تو خان صاحب شاید یہ کہہ دیتے کہ چلو یہ اوکاڑہ ان کو دے دو اس میں ہے ہی کیا سوائے ایک ستلج کاٹن مل کے۔

اور مانگے تو کہتے ہاں یہ ٹیکسلا لے لو یہ تو ہے ہی ہندوؤں کا مکہ مدینہ۔ کوئی کہتا کہ نہیں خان صاحب بدھوں کا، تو کہتے ان دونوں میں کیا فرق ہے مجھے تو دونوں نہیں مانتے۔

شاید خان صاحب کی مذاکراتی ٹیم میں سے کوئی نقشہ نکال کر دکھاتا اور کہتا کہ سر یہ تو سرحد سے کافی دور ہیں تو شاید خان صاحب فرماتے کہ بلاؤ اسد عمر کو وہ اینگرو کو چلاتا رہا ہے یہ ملک تو وہ لنچ بریک میں ہی بنا لے گا۔ ویسے بھی میرا ورک آؤٹ کا ٹائم ہو گیا ہے۔ بندے کو فٹ رہنا چاہیے۔

آخر نیا ملک بنانا ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔

اور پھر خان صاحب شاید یہ فرماتے کہ میں نے تو پاکستان کب کا بنا لینا تھا۔ یہ تو جو چیف منسٹر بیٹھے ہوئے ہیں مراد علی شاہ جیسے ڈکٹیٹر یہ مجھے بنانے ہی نہیں دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).