بھارت کی لداخ میں پیش قدمی کی وجوہات کیا ہیں؟


چین اور بھارت کے تعلقات ایک عرصے سے اس نوعیت کے چل رہی ہے کہ جن میں کسی وقت بھی کشیدگی کا پہلو سامنے آ موجود ہوتا ہے اور جب سے بھارت کو یہ زعم ہو گیا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی طاقت ہے تو وہ اس وقت سے گمان کرنے لگا ہے کہ ہر معاملے میں اس کی اجارہ داری بھی ہونی چاہیے۔ جنوبی ایشیا کی حد تک بھی بھارت کا یہ زعم حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ پاکستان بھارت کے حوالے سے کبھی بھی یہ قبول نہیں کرتا کہ جنوبی ایشیا میں صرف بھارت طاقت ہے اور ضرورت کے مطابق پاکستان بھارت کو یہ احساس بھی دلاتا ہے اور اس کا ایک ثبوت ابھی نندن کو چائے پینے پر مجبور کر دینا بھی تھا۔

مگر جب سے نواز شریف حکومت کے دور میں سی پیک کا منصوبہ چین سے طے ہوا تو اس وقت سے تو بھارت کا پاگل پن آسمان کو چھونے لگا کیونکہ بھارت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ سی پیک کی کامیابی کی صورت میں پاکستان معاشی طور پر بہت توانا ہو جائے گا۔ اور معاشی توانائی ہی مضبوط دفاع اور خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتی ہے اس لئے بھارت نے سی پیک کے آغاز کے وقت ہی چین سے اس کے روکنے کے حوالے سے بات کی مگر چین بھارتی خواہشات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دے رہا تھا۔

اس صورتحال کے بعد بھارت نے یہ حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کی کہ وہ سی پیک کے راستے کو خطرے کے زون میں لے کر آ جائے۔ چین اور بھارت کی تازہ کشیدگی کی بنیاد میں درحقیقت یہی بھارتی حکمت عملی کار فرما ہے۔ بھارت اپنی فوجی موجودگی کو سی پیک کے راستے تک پہنچانا چاہتا ہے بھارت چین کو پریشان کرنے کی غرض سے شروع سے ہی تبت میں بھی سرکشی کو ہوا دیتا رہا ہے اور اس وقت بھی ہوا دے رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں چین زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود تحمل کی حکمت عملی پر گامزن ہے چین نے اس کی بھی کوشش کی کہ بھارت سے تعلقات دونوں ملکوں کے درمیان عمومی تعلقات کی مانند قائم ہو جائے۔

مگر بھارتی قیادت تبت سے لے کر لداخ تک اپنے رویے میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کے لئے تیار نظر نہیں آتی ہے اور جب بھارت تبت میں مداخلت اور لداخ میں فوجی مداخلت کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے تو اس کی مانند چین نے بھی ایک سرخ لکیر طے کر رکھی ہے کہ اگر بھارت نے یہ لائن عبور کی تو ایسی صورت میں بھرپور جواب دیا جائے گا۔ وادی گلوان میں بھارتی فوج کی نقل و حرکت نے چین کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کر دیا کہ بھارت اس سرخ لکیر تک پہنچ چکا ہے اور اب وہ صرف لکیر کو کسی وقت بھی عبور کر سکتا ہے۔

ایسی صورت میں چین نے بھارت کو انتباہ کرنا شروع کر دیا کہ اس لکیر کے بعد تحمل کی پالیسی اختیار نہیں کی جائے گی کیونکہ کسی بھی زندہ قوم کی مانند چین اپنے مفادات کے تحفظ کا عزم رکھتا ہے اور اس میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ وہ اپنے مفادات کا کھل کر تحفظ کر سکے۔ اس لیے جب بھارت کی فوج نے اس علاقے میں دراندازی کی تو چین نے تحمل کی پالیسیاں بناتے ہوئے بھارت کو باقاعدہ انتباہ کیا مگر بھارتی باز نہ آئے اور انہوں نے تھوڑی دیر بعد ہی دوبارہ چین کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی دوبارہ بھی انتباہ جاری کیا گیا مگر بھارت ایک حکمت عملی کے ذریعے وہاں پر حالات خراب کر رہا تھا۔

اس لیے بھارتی باز نہ آئے اور نتیجے کے طور پر اپنے کرنل سمیت کم از کم 20 فوجی ہلاک کروا بیٹھے۔ خیال رہے کہ کسی بھی تصادم سے بچنے کی غرض سے چین اور بھارت کی افواج اس علاقے تک اپنے فوجیوں کو غیر مسلح رکھتی ہے اس لیے یہ تصادم آہنی ڈنڈوں اور پتھروں سے ہوا اور گھنٹوں جاری رہا۔ اس واقعے کے بعد چین نے دوبارہ تحمل کی بات کی ہے کہ یہ معاملہ کسی بڑے فوجی تصادم کی طرف نہ چلا جائے چینی میڈیا بھی خبر کو ایسے بیان کر رہا ہے کہ جس کی وجہ سے چینی عوام میں اشتعال نہ پھیلے۔

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے انتہائی ذمہ دارانہ انداز میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے اور اس پر تبصرہ کیا ہے مگر دوسری جانب بھارتی میڈیا اس طرح چلا رہا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی جوش میں ہوش کھونے کے مشورہ دے رہا ہے۔ مگر اس واقعے کے بعد یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ بھارتی قیادت کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گی اور مزید کسی اشتعال انگیز کارروائی کے بغیر صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گی اور کسی مزید کارروائی سے اجتناب کریں گے۔

کیونکہ اگر کسی بھی نوعیت کی اشتعال انگیز کارروائی کو چین کے ساتھ رواں رکھنے کی کوشش کی گئی تو ایسی صورت میں یہ طے شدہ امر ہے کہ چین بھرپور جوابی کارروائی کرے گا اور اب یہ جوابی کارروائی صرف آہنی ڈنڈوں اور پتھروں سے نہیں ہوگی اور جب اس زمانہ قدیم کے ہتھیاروں سے اتنا نقصان پہنچا دیا گیا ہے تو ایسی صورت میں کہ جب جدید ترین ہتھیار استعمال ہوں گے تو انڈیا کو کتنا نقصان پہنچایا جا سکتا ہے بھارتی اب ضرور سمجھنے لگے ہوں گے کیونکہ اگر بھارت نے کسی قسم کی اشتعال انگیزی کی تو یہ لازمی امر ہے کہ چین کے پاس بھی اس کے بہت سارے ابھی نندن چائے پینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

ان حالات سے ظاہر ہے کہ پاکستان لاتعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ اول تو پاکستان بھارت کی کسی بھی علاقے میں فوجی عزائم سے چشم پوشی سرے سے ہی نہیں کر سکتا اور یہ معاملہ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ سی پیک کے نزدیک ہے تو اس میں وطن عزیز کی دلچسپی اور مفادات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت صاحبان حکومت سے شہباز شریف کو گرفتار کرنے کی کوششوں یا ان کی بیماری کا مذاق اڑانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہو رہا حالانکہ اس وقت بھارت نہ صرف کے پاکستان اور چین سے تصادم کی حالت میں ہے بلکہ دیگر ہمسائیوں سے بھی اس کے تعلقات خراب ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کے ہمسائے تمام ممالک کی ایک کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جائے تاکہ بھارتی فوجی عزائم کی بیوقوفیوں سے خطے کو محفوظ رکھا جاسکے مگر یہاں تو بس ایک خاندان کو گرانا مقصود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments