عورت کو رشتوں کے حوالے کی بجائے ایک آزاد انسان کے طورپر تسلیم کیا جائے۔۔۔


عورت کے بغیر انسانی ارتقا ممکن نہیں ہے اس سماج میں گھر سے لے کر سیاست و معاشرت تک فیصلہ کن اختیار مرد کے پاس رہا ہے، آج پاکستان میں نصف سے زائد آبادی عورتوں پر مشتمل ہونے کے باوجود نوے فیصد سماجی وسائل پر مرد کا اجارہ ہے، عورت کی شناخت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی صورت میں ہی موجود ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں مگر بطور ایک آزاد انسان عورت کا کردار اس سماج کو فی الوقت منظور نہیں، کاروبار زندگی سے سیاست تک عورت ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینا چاہیے کہ عورت کے متعلق ہمارے رویوں میں کہیں نا کہیں نا انصافی موجود ہے۔ قدرت نے مرد اور عورت کے درمیان ایک جنسی فرق ضرور رکھا ہے۔ مگر

صنفی تقسیم فطری یاقدرتی تقسیم نہیں ہے

” صنف نازک“ کا کردار ہم نے اپنی تھانیداری قائم کرنے کے لیے عورت کے لیے متعین کیا ہے۔ عورت اگر اس کردار کو چیلنج کر رہی ہے تو مزاحمت کرنے، طعنہ زنی کرنے یا بغاوت کا نام دینے کے بجائے ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئیے۔ عزت، غیرت اور شرم تلے دبی عورت اس گھٹن میں کتنی دیر تک سانس لے پائے گی؟ ہم نے عورت کے لیے ”صنف نازک“ کی آڑ میں جو کریکٹر متعین کیا ہے کوئی جاندار اس کریکٹر میں کتنے عرصے تک پکچرائز ہو سکتا ہے؟

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں کیا یہاں عورت کو اپنی جنس پر کوئی اختیار ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ عورت کی ذاتی زندگی اور مستقبل کے بارے میں سب فیصلے اس کے مرد رشتہ داروں نے کرنے ہوتے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جب کسی کے ہاں بچی کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے خاندان میں محض ایک فرد کا اضافہ نہیں بلکہ ایک ”مسلے“ کی آمد ہوتی ہے؟ کیا ہم بیٹی کو ایک فرد اور انسان سمجھنے کے بجائے ایک غیر محفوظ قسم کی ”چیز“ نہیں سمجھتے؟ جس کی ہر دم ”حفاظت“ ضروری سمجھتے ہیں۔ کیا ہم ”عزت“ کو عورت کے جنسی کردار سے نہیں جوڑتے؟ اقدار کوئی جامد چیز نہیں ہوتیں کہ ان کے لیے قدرت کے ارتقائی نظام سے ہی انکار کر کے مزاحم ہوا جائے بلکہ جدید زمانے کے تقاضوں پر نئی اور وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی اقدار ہی پورا اتر سکتی ہیں۔ یاد رکھئیے آج کے سائنسی، صنعتی، جمہوری اور سیکولر دور کے لیے صرف نئیے اصول، نئے ضابطے اور نیا انداز فکر ہی کام آ سکتا ہے۔ از منۂ وسطی کے قاعدے اب ہمارا کچھ نہیں سنوار سکتے، اگر ہم بدلتے حالات کے منفی اثرات سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں عقلی اور سائنسی بنیادوں پر درپیش مسائل کا تجزیہ کرنا چاہیے، ہمیں نئی تہذیب کو اپنا کر اس کے تضادات کے حل کی کوشش کرنی ہو گی۔

اس سے دامن چھڑا کر ہمارا معاشرہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہری پور کے گاؤں تربیلا سے تعلق رکھنے والے محمد رفیق اعوان کی پانچ بیٹیوں نے اپنی اہلیت و قابلیت کی بنا پر ہمارے معاشرے میں عورتوں کے بارے میں پھیلے تاثر کو زائل کرکے کی یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک لڑکی ہر شعبہ زندگی میں اپنا آپ منوا سکتی ہے اگر اسے بھی لڑکوں کی طرح آگے بڑھنے کے مساوی مواقع ملیں۔ ہزارہ سے تعلق رکھنے والی سی ایس ایس میں کامیاب ہونے والی پانچ سگی بہنیں خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے تربیلا گاؤں سے تعلق رکھنے والے واپڈا ملازم رفیق اعوان کی بیٹیاں ہیں۔

رواں برس کے امتحان میں کامیاب ہونے والی راولپنڈی کی ضحیٰ ملک شیر کی چار بڑی بہنیں پہلے ہی سی ایس ایس پاس کرکے مختلف سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔

ضحیٰ ملک شیر سی ایس ایس کے فائنل امتحان میں پاس ہونے والے 372 امیدواروں میں شامل ہیں۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) امتحان برائے 2019 کے نتائج کا اعلان گزشتہ سال جون میں ہوا، جن میں پاس ہونے والی راولپنڈی کی ضحیٰ ملک شیر سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والی ایک ہی خاندان کی پانچویں خاتون بن گئی ہیں۔

سی ایس ایس امتحان کے لیے کل 23 ہزار 234 امیدواروں نے اپلائی کیا تھا جبکہ 14 ہزار 521 امیدواروں نے امتحان میں حصہ لیا، جن میں سے فائنل امتحان میں صرف 372 ہی پاس ہوئے۔

کامیاب ہونے والے امیدواروں میں ضحیٰ ملک شیر بھی شامل ہیں، جن کی چار بڑی بہنیں پہلے ہی سی ایس ایس پاس کرکے مختلف سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔

پانچ بہنوں میں سب سے بڑی بہن لیلیٰ ملک شیر نے 2008 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور وہ اس وقت کراچی میں بورڈ آف ریونیو میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہیں۔ دوسری بہن شیریں ملک شیر نے 2010 میں سی ایس ایس پاس کیا اور اس وقت وہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی اسلام آباد میں ڈائریکٹر ہیں۔

اسی طرح 2017 میں سسی ملک شیر اور ماروی ملک شیر نے سی ایس ایس کے امتحان میں حصہ لیا اور دونوں پاس ہوگئیں۔ سسی سی ای او لاہور کنٹونمنٹ میں تعینات ہیں، جبکہ ماروی اسسٹنٹ کمشنر ایبٹ آباد ہیں۔

گزشتہ سال ان کی سب سے چھوٹی بہن ضحیٰ نے بھی یہ امتحان پاس کرکے ممکنہ طور پر پاکستان میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔

میڈیا سے کفتگو میں ضحیٰ نے بتایا: ’میرا خواب ہے کہ میں کسی انتظامی عہدے پر فائز ہو کر پاکستان کی خدمت کروں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میری بہن کے کلاس فیلو اور سوشل میڈیا کارکن نے جب میرے سی ایس ایس کے امتحان پاس کرنے کے خبر پر ایک ٹویٹ کی، تب سے نہ جانے کتنے لوگوں نے فون کرکے مبارک باد دی ہے جس سے مجھے اتنی خوشی ملی کہ میں بتا نہیں سکتی۔‘

ضحیٰ کے والد محمد رفیق اعوان واپڈا میں ملازمت کرتے ہیں اور ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کے ضلع ہری پور کے تربیلا شہر سے ہے۔ وہ کئی سال پہلے ملازمت کے سلسلے میں راولپنڈی منتقل ہوگئے تھے۔

ضحیٰ نے بتایا: ’میرے والد نے اپنی بیٹیوں کے نام پاکستان کی لوک داستانوں کے کرداروں کی مناسبت سے رکھے ہیں جیسے سسی، ماروی، شیرین اور لیلیٰ۔‘

سسی، سندھ اور بلوچستان کی مشہور لوک داستان سسی پنوں کا ایک کردار ہے، جس کے محبوب کو حریفوں نے اس سے جدا کر دیا تھا اور وہ اس کی تلاش میں کئی مشکلات سے گزرتی ہے۔

ماروی، سندھ کے صحرائے تھر کی لوک داستان عمر ماروی کا کردار ہے جو اپنے وطن سے محبت اور پاک دامنی کے باعث شہرت رکھتی ہے، جبکہ شیریں بلوچستان کے ضلع آواران سے جڑی شیریں فرہاد کی لوک داستان کا کردار ہے اور لیلیٰ مشہور لوک داستان لیلیٰ مجنوں کا ایک کردار ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ضحیٰ نے بتایا: ’جب میں پیدا ہوئی اور میرے والد ہسپتال آئے تو سب لوگ رو رہے تھے اور روتے ہوئے میرے والد کو بتایا کہ آپ کی پانچویں بیٹی ہوئی ہے، تو میرے والد نے مسکرا کر میرا نام ضحیٰ رکھا۔ یہ نام قرآن شریف کے تیسویں پارے کی سورۃ ضحیٰ سے منسوب ہے، جو ایک مدت تک پیغمبر اسلام حضرت محمد پر وحی کا سلسلہ رکنے اور کفار کی طرف سے آپ کو طعنے دینے کے بعد ان کے غمگین ہونے پر نازل ہوئی۔‘

انہوں نے بتایا کہ جب ان کے والد نے ہسپتال میں لوگوں کو غمگین دیکھا تو ان کا نام ضحیٰ رکھا جس کا مطلب ہے روشنی۔ ’لوگ میرے والد کی پانچ بیٹیاں ہونے پر غمگین تھے مگر میرے والد خوش تھے اور انہوں نے کبھی بھی اس بات پر افسوس نہیں کیا۔‘

پانچوں بہنوں نے پریزنٹیشن کنوینٹ ہائی سکول راولپنڈی سے پرائمری کی تعلیم حاصل کی، جہاں سے سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی تعلیم حاصل کی۔

ضحیٰ نے کہا: ’میں نے اپنے والد سے سیکھا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنی کمزوری کو ہی اپنی طاقت بنائے تو کچھ مشکل نہیں ہوتی۔ لوگوں نے میرے والد سے پانچ بیٹیوں کی پیدائش پر افسوس کا اظہار کیا مگر آج ثابت ہوگیا کہ وہ لوگ غلط تھے۔ آج میرے والد کے پاس طاقت ہے کیونکہ ان کی بیٹیاں با اختیار اور بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ آج ہم بہنیں پورے پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments