آئیے، ہم سب مل کر اپنی جہالت دور کرتے ہیں!


’جاننا‘ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ جاننے کے اس حق کی شروعات معلومات تک رسائی سے ہوتی ہے۔ ’انسانی حقوق کے عالمی اعلان‘ کے نعروں کی روح کے مطابق ’‘ معلومات کی فراہمی کا انکار ہی غیر منصفانہ حکومت کا اصل ہتھیار ہے“ ۔

جانکاری سے ہی تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں اور انسان سچ اور جھوٹ میں تمیز کر پاتا ہے۔ جاننے کے عمل کا آغاز کسی بھی شے بارے دستیاب ’انفارمیشن‘ کوایک جگہ اکٹھا کرنے سے ہوتا ہے۔ حقائق کے تجزیہ و تحلیل، ترتیب اور تنظیم سے ’علم‘ کی تخلیق ہوتی ہے۔ تنہا ’انفارمیشن‘ کا سیلاب ’علم‘ کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ گویا صرف ’انفارمیشن‘ جہالت کے پھیلاؤ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

شاید اسی لیے اسلام نے ’علم‘ حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیا ہے۔ تو گویا ’جاننے‘ کا یہ حق ایک مذہبی فریضہ بھی بن جاتا ہے۔ پہلی وحی بھی ’پڑھنے، جاننے اور علم‘ کا پیغام لے کر آتی ہے۔ آگاہی کا یہ عمل انفرادی معاملات بارے بھی ہو سکتا ہے اور اجتماعی امور بارے بھی۔

حکومتی معاملات بارے عوامی بازپرس کا یہ حق اتنا اہم ہے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر جب مدینہ میں جمعہ نماز کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ”اے لوگو، میری بات سنو“ تومجلس میں سے ایک جوان کھڑا ہو گیا اور بولا، ”ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے، جب تک آپ ہمیں ایک معاملے کی وضاحت نہیں دیں گے“ ۔ تو جب اس نوجوان کوقمیض کے کپڑوں بارے وضاحت ملی تو وہ بولا، ”ہم مطمئن ہیں۔ اب آپ خطبہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم اب آپ کی بات سنیں گے اور آپ کا حکم مانیں گے“ ۔ یہ عوام کی طرف سے حکمرانوں کا احتساب اور معلومات تک رسائی کے حق کی ایک سنہری مثال ہے۔

معلومات تک رسائی کے حق کاحصول اس اصول پر قائم ہے کہ چونکہ شہری حکومتی اخراجات کے لیے ٹیکس ادا کرتے ہیں اسی لیے عوامی/حکومتی محکموں کی کارکردگی بارے معلومات کے اصل مالک وہی ہیں۔ اس سے حکومتی، عدالتی، اور انتظامی شفافیت پیدا ہوتی ہے۔ جس سے کرپشن، اقرباپروری اور بدنیتی پر مبنی انتظامی فیصلوں میں کمی آتی ہے اور عوامی خدمات کی فراہمی میں بہتری آتی ہے۔

حکومتی اور اجتماعی معاملات بارے آگاہی کا یہ حق پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اب آئینی طور پر (آرٹیکل انیس۔ اے ) موجود ہے۔ عوامی اہمیت کے تمام معاملات بارے معلومات تک رسائی کا یہ حق ہر شہری کو حاصل ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر (Right to Information) سے متعلقہ الگ الگ قوانین موجود ہیں۔

ان قوانین کے مطابق تمام عوامی (سرکاری) محکمے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے فرائض، ملازموں اور افسر ز کی تفصیلات و اختیارات، تمام قوانین، نوٹیفیکیشنز، آرڈرز، رولز، پروسیجرز، پالیسیز وغیرہ، کوئی بھی محکمانہ فیصلہ کرنے کا مکمل عمل، بجٹ (آمدن اوراخراجات کی مکمل تفصیلات وغیرہ) ، سبسڈی کی رقم اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات، ہر قسم کی رعائتیں اور اجازت ناموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات، ہر قسم کی محکمانہ رپورٹس (کارکردگی، آڈٹ، تفتیش، انکوائری وغیرہ) ، عوامی مقامات کی کیمرہ فوٹیج، پبلک انفارمیشن افسر بارے تفصیلات، یا کوئی بھی اہم حکومتی معلومات (معاہدات، نقشہ جات، فوٹوز، آڈیو/ویڈیو فلم وغیرہ ) بارے عوام کو آگاہ کریں۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان تمام ڈاکومنٹس کی جانچ پڑتال، ذاتی نوٹس، مصدقہ نقل اور الیکٹرانک کاپی لے سکیں۔

اس بارے تحریری درخواست متعلقہ محکمے کے پبلک انفارمیشن افسر کو دی جائے گی۔ وہ معلومات دینے یا نہ دینے بارے فیصلہ کرے گا۔ متعلقہ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق (انفارمیشن کمیشن) بھی دستیاب ہے۔ اور اس کے بعد ہائی کورٹ بھی آیا جا سکتا ہے۔

شفافیت اور جواب دہی کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے اور ان قوانین کے تمام ریاستی اداروں پر باقاعدہ اطلاق کے لیے سیاسی عزم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ حکومتی کارکردگی کا عوامی جائزہ ہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ باخبر شہری ہی کسی ملک کا اصل اثاثہ ہوتے ہیں۔ آج کل حکومتی سطح پر شہریوں کی ’جہالت‘ کا ویسے بھی بڑا چرچا ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر اپنے اپنے علاقوں سے جڑے مسائل اور ان مسائل کے حل کے لیے کوشاں عوامی (سرکاری) محکموں کی کارکردگی بارے معلومات لے کر اپنی ’جہالت‘ کو دور کریں۔

سچ ہے کبھی ’عالم‘ اور ’جاہل‘ بھی برابر ہوئے ہیں۔ عوام اور حکمران میں عدم مساوات کا کارن شاید یہی ’جہالت‘ تھی۔ محترمہ وزیر صاحبہ کا شکریہ کہ انہوں نے ہمیں ہماری ’جہالت‘ سے روشناس کرا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments