طالب جوہری: جو اس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا۔۔۔۔۔


نہیں معلوم کہ کسی بازار میں کھڑے ہو کر سقراط کی تقریر سننا، لیونارڈو ڈیونچی کو تصویر بناتے دیکھنا، فیثا غورث کو حساب لگاتے دیکھنا، شہنشاہ اکبر کو تخت نشیں دیکھنا، تان سین کو سات سُر ایجاد کرتے دیکھنا، حافظِ شیرازی پر آمد ہوتے دیکھنا، غالب کو گرہ لگاتے دیکھنا، شیکسپیئر کو کردار تراشتے دیکھنا یا ہرکولیس کو لڑتے دیکھنا کیسے تجربات ہیں؟ لیکن یہ یقینی طور پر کسی شخص کی زندگی کا کُل سرمایہ ہو سکتے ہیں، میری زندگی میں ایسا اگر کوئی تجربہ ہو سکتا ہے تو وہ علامہ طالب جوہری کو سننا، خطاب کرتے دیکھنا اور ان سے شرف ملاقات ہے جو مجھے کئی بار نصیب ہوا۔۔۔

میرے تایا سید شوکت علی نقوی ویسے تو تجارت سے منسلک تھے لیکن علم دوست تھے، انہوں نے دورانِ ایام عزا ملتان میں مجالسِ امام حسین علیہ السلام کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کا نام “علم و عرفان کی بارش” رکھا گیا۔۔ ان دو روزہ مجالس کا اہتمام وہ سارا سال کیا کرتے، سارا سال وہ یہ سوچتے رہتے کہ اس بار کون سے علما کو ملتان بلایا جائے کہ جن کو سننے کے لیے پبلک بے تاب رہتی ہے، اسی شوق اور جدوجہد نے ملتان کے علم دوست لوگوں کو ایسا ایسا عالِم سنوایا کہ جس کا ایک عالَم مداح تھا تو کیا وہ علامہ اظہر حسن زیدی ہوں، علامہ بشیر نجفی ہوں، علامہ عقیل ترابی ہوں، علامہ آغا ضمیر الحسن نجفی ہوں، علامہ رضی جعفر ہوں، علامہ آغا نسیم عباس رضوی ہوں، علامہ عرفان حیدر عابدی ہوں سب نے ان مجالس سے کئی سال خطاب فرمایا یہ مجالس گلگشت کالونی ملتان میں واقع مسجد حیدریہ کے ساتھ چوک میں بپا ہوتیں تو عوام کا ایک جمِ غفیر ان کو سننے امڈ آتا تھا۔ نوے کی دہائی کے آخر تک یہ مجالس اپنی روایتی شان و شوکت سے چوک پر ہوتی رہیں پھر کچھ یوں ہوا کہ ملتان کی انتظامیہ نے علماء کی سیکورٹی کے پیش نظر ان مجالس کو مسجدِ حیدریہ منتقل کر دیا۔

آخری برسوں میں ان مجالس کی سب سے بڑی شناخت علامہ طالب جوہری کا خطاب تھا جس کو سننے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پورا ملتان نکل آیا ہے کیا ہی کسی سیاسی جماعت کے جلسے میں رش کا عالم ہوتا ہوگا جو رش علامہ کو سننے ہم نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں آتے دیکھا۔۔۔ اس میں کسی مسلک کی تخصیص نہیں تھی۔ کیا اہل تشیع، کیا اہلسنت سب لوگ علامہ کو سننے آتے تھے ہمارے اہلسنت دوست تاکید کیا کرتے کہ جب بھی جوہری صاحب آئیں انہیں ضرور بتایا جائے۔ یہ دو روزہ مجالس ہوا کرتی تھیں علامہ صاحب ایک رات پہلے ملتان تشریف لایا کرتے اور ہمارے تایا کے گھر پر ہی ان کا قیام ہوتا اور مداحین کا ایک سلسلہ تھا جو ان سے ملنے ان سے بات کرنے اور اپنی علمی پیاس بجھانے کو بیتاب نظر آتا تھا۔ کھانا چاہے دوپہر کا ہو یا رات کا رش کا عالم ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔

علامہ صاحب دل کے عارضے کے پرانے مریض تھے اس لیے وہ جہاز کی بجائے ٹرین کے سفر کو ترجیح دیا کرتے تھے، ایک بار میں اپنے تایا اور کزن کے ساتھ ان کو ریلوے سٹیشن چھوڑنے گیا تو وہاں بھی پبلک کی ان کے لیے وارفتگی دیدنی تھی علامہ جب بھی ملتان آتے تو پہلی مجلس کے بعد رات کی چائے وہ ہمارے گھر آ کر پیتے اور ایک بار یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ انہوں نے ہمارے ہی گھر میں قیام فرمایا۔ میرے نانا مرحوم آغا ضمیر الحسن نجفی اپنے زمانے کے ایک جید عالم تھے اور علامہ طالب جوہری کا ان سے عقیدت کا رشتہ تھا۔ اسی طرح میرے ماموں آغا نسیم عباس رضوی ایک معروف عالم دین اور علامہ طالب جوہری کے ہم عصر تھے اور ان سے انکی بہت بے تکلفی اور احترام کا رشتہ تھا۔ اسی قربت کے سبب میرے بڑے بھائی اختر علی سید صاحب کی علامہ سے بے پناہ عقیدت اور نیاز مندی رہی۔ آخری بار علامہ میرے تایا کی برسی کی مجلس سے خطاب فرمانے ہی ملتان آئے۔ اس کے بعد بھی کئی لوگوں نے ان سے ملتان کے لیے خواست گاری کی لیکن انکی صحت نے انہیں یہاں آنے کی اجازت نہ دی۔۔۔

علامہ کی وجہ شہرت اور شناخت دس محرم کی رات پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی مجلسِ شام غریباں تھی کہ جس سے انہوں نے کم و بیش بیس سے بائیس مرتبہ خطاب فرمایا، پاکستان ٹیلی ویژن پر مجلسِ شام غریباں کی روایت اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود پی ٹی وی پہلی بار مجلسِ شام غریباں پی ٹی وی سے 1966 میں نشر ہوئی جس سے علامہ رشید ترابی نے خطاب فرمایا آپ نے چھ بار پی ٹی وی کی مجلسِ شام غریباں سے خطاب کیا وہ تقاریر ایسی معرکتہ آرا تقاریر ہیں کہ آج پچاس سال گزر جانے کے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہیں خصوصاً تین تقاریر کہ جو سجدہ، رزق اور یقین کے موضوعات پر کی گئیں شاید ایسی تقاریر ہیں کہ جو کبھی پرانی ہو ہی نہیں سکتیں۔ آج بھی ہر سال پی ٹی وی سجدہ کے موضوع پر کی گئی تقریر کو عصرِ عاشور ری ٹیلی کاسٹ کرتا ہے اور ہر بار اس کو سننے پر آپ پر علم و آگہی کے نئے در وا ہوتے ہیں۔ علامہ رشید ترابی نہ صرف ایک مذہبی سکالر تھے بلکہ انکے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت علامہ اقبال کے بھی قریب رہے، مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ انکی فلسفے، تاریخ، منطق، عربی اور فارسی پر بے پناہ گرفت تھی اور ایک دنیا انکے علم کی قدر دان تھی۔

آپ کی وفات کے بعد پی ٹی وی سے علامہ نصیر الاجتہادی جیسی عالم شخصیت نے متواتر کئی سال خطاب کیا۔ یہ ایک ایسا سلسلہ علم تھا کہ جس کو سنبھالنے کے کے لیے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی کہ جو علمیت کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کی علامت بھی ہو جس کے خطاب سے کسی قسم کی نفرت اور فرقہ واریت کی بو نہ آتی ہو اور جو امت میں فساد کی وجہ نہ بنے اور اس سب کے ساتھ وہ ایک انتہائی مضبوط علمی شخصیت بھی ہو کہ جو اس ورثے کو برقرار رکھ سکے کہ جو علامہ رشید ترابی اور نصیر الاجتہادی چھوڑ کر گئے۔ اس سب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بارِ علم اٹھانے کے لیے علامہ طالب جوہری کا انتخاب کیا گیا اور آپ نے پہلی بار 1988 کی مجلسِ شام غریباں سے خطاب فرمایا اور اس معیار کو مزید بلند کر دیا کہ جہاں اسکو سابقہ علما نے پہنچایا تھا۔۔ ہمیں یاد ہے کہ علامہ کی تقریر پاکستان کے ہر گھر میں سنی جاتی یہ تو ممکن نہ تھا کہ کوئی بزرگ اس کو نہ سنے بلکہ میرے ہم عمر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مدتوں علامہ کو سنتی رہی اور مجال ہے کہ کبھی کوئی ایسی بات اس منبر سے کی گئی ہو جو ایک معمولی فساد کا باعث بھی بنی ہو۔

اس سب میں جہاں علامہ کی علوم پر ایک کامل دسترس کا بڑا عمل دخل تھا وہیں دوسری طرف ان کا طریقہ استدلال بھی تھا کہ جس طرح سے وہ اپنے دلائل کی ترتیب دیا کرتے تھے، یہ مجلس کی دنیا میں نسبتاً ایک نیا تجربہ تھا، علامہ صاحب کا اپنے سینیر علما سے ایک واضح فرق جو مجھے محسوس ہوا وہ یہ تھا کہ علامہ جہاں رشید ترابی کی طرح فلسفے پر مضبوط گرفت رکھتے تھے وہیں دوسری طرف وہ عراق کے شہر نجف کے حوزہ علمی سے فارغ التحصیل بھی تھے یعنی علم الحدیث، علم رجال، فقہ انہوں نے اپنے زمانے کے جید ترین علما سے بطور شاگرد پڑھے تھے، اس سب کے اوپر ایک بڑا فرق ان کا مفسر قرآن ہونا بھی ہے آپ نے “احسن الحدیث” کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھی۔۔

آئیے ذرا علامہ کے فنِ تقریر کی بنت کو دیکھتے ہیں، مجلس کے عموماً دو حصے ہوتے ہیں ایک فضائل کہلاتا ہیں اور دوسرا مصائب۔ فضائل سے مراد ہے کہ جس میں قرآن کی کسی ایک آیت سے گفتگو شروع ہوتی ہے اور حدیثوں اور دلائل کی مدد سے گفتگو آگے بڑھائی جاتی ہے، اور مصائب زیادہ تر بیانِ واقعہ کربلا پر مشتمل ہوتے ہیں کہ جس میں واقعہ کربلا کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں جو کسی حد تک متعین و مخصوص ہیں، علامہ طالب جوہری کی تقریر بھی ہوتی تو انہی دو حصوں پر مشتمل تھی موضوع بھی متعین ہوتا تھا لیکن کبھی ہم نے کوئی ایسی تقریر نہیں سنی کہ جس میں یک رخی بات کی جاتی رہی ہو، ایک تقریر نہ جانے کہاں کہاں کی آپ کو سیر کراتی تھی اور یہ تو ناممکن ہے کہ آپ وہاں سے ایک ساعت کو بھی اپنا دھیان ہٹا سکیں۔ شعلہ بیانی کی وہ انتہا کہ کیا ہی اس روانی سے بارش برستی ہو گی، لیکن ہر استدلال قرآن کی آیت سے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی علامہ نے کوئی آیت پڑھی ہو اور اسکی صورۃ کا نام اور آیت کا نشان نہ بتایا ہو،

(میں نے جب پہلی بار فوٹو گرافک میموری کا لفظ سمجھا تھا تو سب سے پہلے میرے دماغ میں علامہ طالب جوہری ہی آئے تھے)

یہ سب کچھ ایک ساتھ مجلس میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اگر آپ علامہ رشید ترابی کی مجالس سنیں تو آپ کو کئی شعراء کا اردو فارسی کلام بکثرت سننے کو ملے گا، نصیر الاجتہادی تو خیر مجلس پڑھتے ہی کسی حد تک قافیے میں تھے خود بھی شاعر اور ادیب تھے لیکن علامہ طالب جوہری کی مجلس میں شعر بہت ہی کم سننے کو ملیں گے حالانکہ وہ ایک شاندار شاعر تھے اور انکے اردو شاعری کے تین مجموعے بھی موجود ہیں آپ آٹھ برس کی عمر سے شاعری کر رہے تھے، لیکن مجلس میں شعر بلکل نہیں پڑھتے تھے ایک روایت جو کہ علامہ طالب جوہری سے پہلے کے علما میں عموماً دیکھنے کو ملتی تھی تو مصائب کا لمبا دورانیہ تھا آدھا آدھا گھنٹہ علما مصائب بیان کرتے تھے لیکن یہ بھی ایک تبدیلی علامہ صاحب کے یہاں ہی دیکھنے کو ملی کہ آپ نے پانچ نہیں تو سات یا آٹھ منٹ سے اوپر مصائب کم ہی پڑھے۔۔۔

نو وارد ذاکرین اکثر علما کی تقاریر سے مواد لے کر اپنی تقریریں بناتے ہیں میں نے ایک ذاکر سے ایک بار یہ سنا کہ میں نے طالب جوہری کی ایک تقریر سے دس تقاریر بنائیں یعنی کہ پورا عشرہ، یہ بات بظاہر معمولی لگتی ہے اس میں ان ذاکر صاحب کی ذہانت اور محنت تو شامل ہے ہی لیکن اس سے ایک اور بات بھی ظاہر ہوتی ہے اور وہ یہ کہ علامہ صاحب ایک تقریر میں اتنے موضوعات کا احاطہ کر لیتے تھے کہ ایک تقریر اگر سمٹے تو ایک رہتی ہے اور اگر کوئی بات کو کھولنے کا فن جانتا ہو، کوئی علم کے سمندر کا تیراک ہو، تو وہ کوزے میں بند سمندر کی تہہ سے دسیوں موتی نکال سکتا ہے،

میرے ایک دوست نے طالب جوہری کے ایک جملے سے پوری پانچ تقریریں بنائیں اور وہ جملہ یہ تھا:

اہلِ بیت کی قدر کرنا یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جو لمحوں میں تقدیریں بدل دیتی ہیں اگر یقین نہ آئے تو حُر کو دیکھ لو جو کچھ لمحوں پہلے تک لعنتی تھا حسین کی ایک نظر نے اس کو علیہ السلام بنا دیا۔

اب اس ایک جملے کی تشریح آپ کرتے جائیں کرتے جائیں اور جہاں تک چاہے بات کو پھیلا لیں لیکن اگر سمیٹ دیں تو یہ ایک جملہ بن جاتا ہے، اسی طرح اگر وقت اور جگہ ہو تو میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے خطابات کے حوالے دے سکتا ہوں کہ جو ایک ایک لفظ کی تشریح پر علامہ نے کئے مثال کے طور پر آپ نے ایک تقریر میں یہ واضح کیا کہ اللہ قرآن میں جب کہتا ہے کہ

 “فلاں کام ہم نے کیا” تو اس کا کیا مطلب ہے اور جب کہتا ہے کہ “میں نے کیا” تو اس سے کیا مراد کیا ہے اسی طرح لفظ “الا” کی تشریح جس سہل اور علمی انداز سے علامہ طالب جوہری نے کی شاید ہی کسی نے کی ہو کہ لفظِ “الا” جس کا ترجمہ “سوائے” بنتا ہے کا قرآن مجید کہاں کہاں استعمال کرتا ہے، اسی طرح کی سینکڑوں مجلسیں آپ یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔۔۔

ان کی شخصیت کا ایک پہلو تو وہ ہے جو منبر پر نظر آتا تھا ایک اور طالب جوہری کو ہم نے پی ٹی وی کے ایک معروف پروگرام “فہم القرآن” میں دیکھا یہ پروگرام شام کے وقت نشر ہوتا تھا کہ جس سے ہر ہفتے ایک دن “علامہ طاہر القادری” ایک دن “ڈاکٹر علامہ اسرار احمد” اور ایک دن “علامہ طالب جوہری” تفسیر قرآن بیان فرمایا کرتے تھے اس پروگرام میں آنے والے طالب جوہری وہ تھے ہی نہیں جو وہ منبر پر ہوا کرتے تھے جتنے شعلہ بیان وہ منبر پر نظر آتے تھے اتنے ہی دھیمے اور پرُ سکون وہ اس پروگرام میں دکھائی دیتے کہ وہ لوگ کہ جنہوں نے انہیں منبر پر دیکھا تھا وہ مغالطے کا شکار ہو جاتے کہ یہ وہی طالب جوہری ہیں؟ یہ خطابت کا شہکار تھا جو ہم نے کئی برسوں تک ان کی شخصیت میں دیکھا یہاں شاید وہ مدرسی ان کے کام آئی جو انہوں نے کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں کی، گو کہ انکا انداز مروجہ خطابت کے انداز سے میل نہ کھاتا تھا لیکن چونکہ وہ اتنا جینوئن تھا کہ لوگوں نے اس کو بھی کاپی کرنا شروع کردیا لیکن وہ سٹائل سوائے علامہ کے کسی پر نہ جچ سکا۔۔۔

علامہ کی تفسیرِ قرآن کے علاوہ نو کتابیں ہیں، تفسیر قرآن (احسن الحدیث)، حدیثِ کربلا، ذکرِ معصوم، نظامِ ہدایتِ انسانی، خلفائے اثنا عشر، علاماتِ ظہورِ مہدی۔ فلسفے پر ان کی کتاب کا نام عقلیاتِ معاصر ہے۔ اس کے علاوہ تین اردو شاعری کی کتابیں، حرفِ نمو، شاخِ سادہ اور پسِ افق کے نام سے ہیں۔۔

علامہ طالب جوہری علماء دین کی اس نسل کے شاید آخری آدمی تھے کہ جس نے دین کی صحیح معنوں میں خدمت سر انجام دی اور کبھی اپنے ذاتی یا مسلکی مفاد کی خاطر فساد نہیں کرایا کبھی کسی سیاستدان کے دروازے پر نہیں گئے۔ کون سا سیاست دان ہے کہ جس نے ان کی تکریم نہیں کی لیکن آپ نہ تو کبھی سیاسی طور پر متحرک نظر آئے نہ ہی کبھی کسی تحریک کا حصہ بنے، مجال ہے کہ آج تک کسی نے انہیں کسی بھی ٹی وی شو میں کسی دوسرے مسلک کے مولویوں سے لڑتے بھڑتے دیکھا ہو۔ آپ ایک نہایت خوشگوار شخصیت تھے۔ میں ایک بار کراچی میں تھا اور انچولی (جہاں وہ رہتے تھے) کے کرکٹ گراؤنڈ میں ماتمی انجمنوں کا آپس میں کرکٹ ٹورنامنٹ ہو رہا تھا رات کو اس کا افتتاح علامہ صاحب نے ایک بال کھیل کر کیا جو انہیں مشہور نوحہ خواں ندیم سرور نے کرائی میرے لیے علامہ کا یہ روپ بہت ہی نیا اور دلچسپی سے بھرپور تھا۔

اسی میچ کے دوران جب علامہ سٹیج پر بیٹھے میچ دیکھ رہے تھے تو وہاں ٹی وی اینکر عامر لیاقت آ دھمکے اور اپنے روایتی انداز میں علامہ کے گھٹنوں میں بیٹھ گئے اور التجایا انداز میں کہنے لگے کہ صرف ایک بار آپ عالم آن لائن میں آ جائیے تو علامہ نے ان سے کہا کہ ہم تم سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے تم آدمی ہی فضول ہو، اور وقت نے ان کی زندگی میں ہی ان کی بات کی حرف بہ حرف تصدیق کر دی، حالانکہ علامہ اپنی رات کی بیٹھک اور مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں کہ آپ کا مہمان خانہ ہر خاص و عام کے لیے پوری رات کھلا رہتا تھا اور نہ جانے کیسا کیسا عالم فاضل شخص وہاں موجود ہوتا تھا کوئی کتابوں کے حوالے مانگنے آتا تھا تو کوئی خشک علمی مباحث کرنے، آپ نے ساری عمر دنیا کو یہ بتایا کہ زمین پر صرف دو گروہ ہیں ایک حسین کا اور دوسرا یزید کا۔ دنیا کی تقسیم صرف حق اور باطل ہے اور حق کا راستہ اہل بیت کا راستہ ہے۔ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کا اور انکی آل کا راستہ ہے۔ ان کا مشہور زمانہ جملہ ہے کہ “اللہ نے خیر کا تعارف کرایا، شر کا نہیں کیونکہ ہر وہ چیز شر ہے جو حق سے ٹکرا جائے۔”

اب طالب جوہری ہم میں نہیں رہے ایک عالِم کی موت ایک عالم کی موت ہے، یہ بات آج سمجھ آئی لیکن وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں ہماری یادوں میں زندہ رہیں گے اور اللہ سے دعا ہے کہ وہ علامہ جیسے لوگ پیدا کرتا رہے تاکہ اس اندھیرے میں ہم جیسے لوگ ٹھوکر کھا کر کہیں منہ کے بل نہ گر پڑیں جو روشنی حسین ابن علی کے خون سے پھوٹی وہ ہم تک طالب جوہری جیسے علما کے دم سے پہنچی ان کے ایک شعر پر میں بات ختم۔ کر رہا ہوں

یہ کہہ کے ڈوب گیا آفتابِ عاشورہ

رہے حسین کی تا حشر روشنی باقی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments