گوری کا دلدار کالا ہے


گوری بیاہ کے سسرال آئی تو وہاں محمود اور ایاز ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔ گوری تھوڑی الگ دکھائی دیتی، بجائے اس کے وہ لوگ گوری کو اپنے رنگ میں رنگتے انھوں نے گوری کا رنگ اپنانے کی کوشش شروع کر دی۔ گوری ان کو دیکھ دیکھ شکر ادا کرتی لیکن انھیں گوری کو دیکھ کر صبر نہیں آتا تھا۔ لہذا وہ لوگ گورے ہونے کے مختلف ٹوٹکے آزماتے تو کبھی مشہور ڈرماٹالوجسٹ کی خدمات لیتے، نتیجہ یہ کہ وہ محنت کر کر کے کامیابی کے قریب ہوگئے اور گوری ان کی لگن سے جل جل کر کالی ہو گئی۔ گوری کا دلدار کالا تھا اور اتفاق سے وہ گوری میں اپنی کھوئی ہوئی لیلی کو ڈھونڈتا، گوری کو بھی اپنے دلدار کی رنگت سے کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ وہ سوچتی آخر اوباما وی تے کالا اے، پریشانی کی بات تب ہوتی جب گوری کا دلدار سوہنی کا دیوانہ ہوتا تو پھر گوری کا مستقبل سیاہ فام لوگوں کی طرح تاریک ہی تھا، کہ گوری رنگ گورا کرنے کے جھنجھٹ میں تو ہر گز نہیں پڑ سکتی، اس کے خیال میں یہ انتہائی فضول اور احمقانہ کام ہے، خدا نے جو بنا دیا گوری اسی پہ راضی ہے، گوری کا ماننا ہے رنگ جیسا بھی ہو بس کرتوت کالے نہیں ہونے چاہیے۔ اکثر لوگ جانے کیوں خدا کے عطا کیے پر خوش نہیں ہوتے اور شکوؤں کے انبار لگائے رکھتے ہیں۔

اچھے خاصے پر کشش لوگ اپنی سانولی رنگت کے حوالے سے خاصے متفکر رہتے ہیں۔ دوسروں کو ہر بات میں صبر اور شکر کا مشورہ دینے والے اکثر لوگ خود صبر کرتے ہیں نہ شکر۔ بلکہ ہر ممکن طور پہ ناشکرے ہی رہتے ہیں۔ عام طور پہ جو مل جائے لوگ اس پہ راضی نہیں ہوتے، الٹا جو نہ ملے اس پہ کڑھتے رہتے ہیں اور جل جل کر سیاہ ہو جاتے ہیں۔ اکثریت لوگوں کی اپنی سانولی رنگت کے لحاظ سے خاصی پریشان رہتی ہے۔ اکثر لوگ کسی بھی معاملے میں قناعت نہیں کرتے لیکن گورے رنگ کی چاہ میں قناعت کو تو قتل ہی کر دیتے ہیں۔

اکثریت لوگوں کی کالی رنگت کو چٹا کرنے کے جتن کرتی رہتی ہے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں خواتین اپنی رنگت کو نکھارنے کے جتن نہ کرتی ہوں۔ گوری رنگت کی دیوانی خواتین کے گھروں سے شیر خوار بچوں کے دودھ کے ڈبے تو خالی مل سکتے ہیں لیکن رنگ گورا کرنے والی کریم کی شیشی کبھی خالی نہیں ملے گی کہ وہ ختم ہونے سے پہلے ہی لے کر رکھ لی جاتی ہے۔ خواتین نے رنگ گورا کرنے کی چاہ میں ’گدھوں‘ کی کھال تک اتارلی ہے۔

کبھی خاوند کے خون پسینے کی کمائی فارمولہ کریموں میں مکس کر کے چہرے پر تھوپتی ہیں تو کبھی باہر سے آئی امپورٹڈ کریم کے نام پر پیسوں کو اجاڑتی ہیں۔ رنگ گورا کرنے کے لیے کبھی مہنگے انجکشن لگواتی ہیں تو کبھی میدے میں ہلدی ڈال کر تھوڑے پیسوں میں زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی بے مصرف کوشش کرتی ہیں۔ پہلے یہ روگ صرف خواتین کو لاحق تھا لیکن اب اس عارضے میں مرد بھی مبتلا ہوچکے ہیں۔

ایک بار شہر کے معروف بیوٹی پارلر میں سٹیکنگ کروانے کے لیے گئی تو بہت سی خواتین اپنے چہروں کی ”ڈینٹنگ پینٹنگ“ کے لیے وہاں موجود تھیں۔ سٹیکنگ خاصا لمبا کام ہے سو مجھے خاصا وقت پارلرمیں رہنا تھا۔ اس دوران ایسے ایسے چہروں کو پیسے کا ضیاع کرتے دیکھا کہ خواتین کی حالت پہ رشک اور ان کے شوہروں سے ہمدردی کے جذبات ایک ساتھ دل میں آئے۔ رشک اس لیے کہ ان کے شوہروں کی ان سے محبت ہے جو نتیجے کی پرواہ کے بغیر ان پہ پیسہ انویسٹ کر رہے تھے اور ہمدردی اس لیے کہ پتر تیری رقم ڈب جانی اے۔

رشک اور ہمدردی کے جذبات اپنی جگہ لیکن یہ پارلر اپنے کام کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتا تھا اسی لیے جذبات کی دنیا سے باہر آکر حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے خود کو ذہنی طور پہ تیار کیا، میں فیشل کے آفٹر ایفیکٹس دیکھنے کو بیتاب تھی دل کہتا تھا کہ اب یہ شدید گوری ہوجائیں گی کہ یورپ کی سفید چمڑی بھی ان کے سامنے شرما جائے گی لیکن دماغ کہتا تھا کوئی عقل کی بات بھی سوچو یہ ممکن نہیں۔ دل و دماغ میں جاری جنگ کے دوران میں اس خاتون کو بہت اشتیاق سے دیکھتی رہی کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی دنیا بدلنے والی تھی ڈیڑھ گھنٹے کی کٹھن محنت کے بعد جو چہرہ سامنے آیا تو میں حیران رہ گئی، آپ شاید یقین نہ کریں لیکن یہ بالکل ویسا چہرہ تھا جیسا ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پارلر میں داخل ہوا تھا، حرام ہے جو رتی برابر بھی تبدیلی آئی ہو۔

اب کی بار میری آنکھوں میں خاتون کے لیے ترحم تھا کہ اس کے پاس ضائع کرنے کو وقت اور پیسہ دونوں کی فراونی ہے۔ ایسا ہی ایک اور چہرہ بھی دیکھا جس نے غالباً فارمولہ کریمیں لگا لگا کر اچھے بھلے خوبصورت نقوش والے منہ کو در فٹے منہ بنا رکھا تھا۔ اس کا گورا چہرہ کالی گردن اور سیاہ ہاتھ پیروں سے ذرا میچ نہیں کر رہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے جیا علی کی باڈی پر نیلم منیر کا چہرہ لگا ہوا ہے وہ خاتون انتہائی اعتماد سے شیسے کے سامنے یوں بیٹھی تھیں جیسے سچ میں نیلم منیر ہی ہو، آہ جسے شیشہ دیکھ کر بھی احساس نہ ہو تو پھر اسے شیشہ پلا دینا چاہیے۔

میری ایک دوست کا رنگ خاصا کالا ہے اتنا کالا کہ ڈیرن سیمی بھی شرما جائے۔ ان کی شادی ہوئی تو اتفاق سے میاں انتہائی گورا ملا۔ میاں نے ان کو ان کی رنگت سمیت قبول کر لیا لیکن محترمہ یہ نہ کر سکیں اور ان پہ خاوند کی برابری کا جنون سوار ہوگیا، بہت سمجھایا کہ اگر رنگت کی برابری ہی کرنی ہے تو میاں کو ہر روز دو گھنٹے دھوپ میں کھڑا کر دیا کرو لیکن خود گورا ہونے کا خواب چھوڑ دو، خدا کے لیے رنگ گورا کرنے والی کریمیں نہ آزماؤ، یہ جلد کے کینسر کا سبب بنتی ہیں لیکن وہ محترمہ نہیں مانی۔

دوسو روپے کی فارمولہ کریم سے شروع ہونے والا جنون ہزاروں روپے کی بربادی پربھی نہیں رکا۔ اب وہ ہر ماہ باقاعدگی سے سکن سپیشلسٹ کو دس ہزار دے کے آتی ہے جو فارمولہ کریم سے پڑنے والی جھائیوں کو ختم کرنے اور پتلی ہوئی سکن کو ریپیئر کرنے کی ناکام کوشش میں مزید کریمیں استعمال کے لیے دیتا ہے جو مزید بگاڑ پیدا کر رہی ہیں، طرح طرح کی کریموں کے استعمال سے وہ کچھ کچھ پرنس ولیئم اور زیادہ پرنس ہیری جیسی لگتی ہے۔

گوری رنگت کی چاہ میں ایسے ایسے لوگوں کی مت ماری دیکھی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ میں سوچتی ہوں اگر ان فارمولہ کریموں اور رنگ گورا کرنے والے انجکشنوں سے فرق پڑنے لگتا تو پھر بھلا اوباما مشعل کو چٹا ہونے پہ مجبور نہ کرتا۔ کبھی سوچا ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کو رنگ گورا کرنے جتنا جنون ہے اس کا دسواں حصہ بھی یہ جنون اگر افریقہ میں رہنے والوں کو ہو جائے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لیکن نہ جی صاحب وہ عقلمند لوگ جانتے ہیں ان فارمولا کریموں مہنگے انجکشنوں، امپورٹڈ کریموں کے ساتھ رنگ گورا نہیں ہو سکتا، اگر ایسا ممکن ہوتا تو سیاہ فام ان سستے ٹوٹکوں، مہنگی کریموں کو لگا لگا کر سفید فام لوگوں کا غرور خاک میں ملا دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments