روزی کی یاد میں


ماضی کے دریچوں سے ایک بھرپور منظر ایک گروپ فوٹو کی صورت میرے سامنے ہے۔ جس میں روزی بھی موجود ہے۔ وہ روزی جس کے ساتھ میری زندگی کے بہترین ماہ و سال گزرے۔ اس یاد گار تصویر میں زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور مسکراتے اور گہماگہمی سے منور دمکتے چہروں میں مجھ سمیت سولہ مردوں اور چودہ خواتین میں روزی بھی موجود ہے۔

1999 ء کا یہ منظر جناح پبلک سکول و کالج گجرات کا ہے۔ اور سکول کے سٹاف کا یہ گروپ فوٹو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر گجرات ملک خیر محمد ٹوانہ اور پرنسپل سکول ظفر علی خاں کے ہمراہ لیا گیا تھا۔ گزشتہ اکیس سال کے دوران اس تصویر میں سے چار خواتین ٹیچرز سمیت نو لوگ اس دینا سے داغ مفارقت دے چکے ہیں۔ اور رواں ماہ کے دوسرے ہفتے ہارٹ اٹیک کے باعث روزی بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔

اس گروپ فوٹو میں سے کئی ایک دلکش خدوخال سے منعکس اور خوش نما چہرے یکے بعد دیگرے زیست کے اس پار اتر گئے۔ جہاں سے اب کسی کی بھی واپسی ناممکن ہے۔ تصویر میں موجود باقی لوگ تیزی کے ساتھ بڑھاپے کی طرف مائل ہیں۔ چہکتے مہکتے اور خوش نما خدوخال کے گلاب اب مرجھانے لگے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے۔ آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے۔ یہی زندگی کی ریت اور قدرت کا اٹل اصول ہے۔

اس تصویر میں شامل پرنسپل ظفر علی خاں، مسز شمیم ہارون، میڈم منزہ جبیں، میڈم ناہید، مسز کوثر انور، سر گلزار احمد، رضوان الحق روزی، سول انجنئیر میر الطاف، ہیڈ کلرک اشرف یہ سب حصار جسم و جاں سے نکل کر اب عدم کے سفر پر روانہ ہو گئے ہیں۔

”لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے“ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔

میرا دوست رضوان الحق عرف روزی جناح پبلک سکول میں سپرنٹنڈنٹ تعینات تھا۔ وہ گزشتہ تئیس سال سے سکول کے اکاؤنٹس کے معاملات سمیت کئی دیگر ذمے داریاں سرانجام دیتا چلا آ رہا تھا۔ ڈی۔ پی۔ ایس سکولز کی طرز پر بنا یہ سکول گجرات شہر سے باہر پچیس ایکٹر رقبہ پر مشتمل ہے۔ جو ضلع کے ڈپٹی کمشنر جو بلحاظ عہدہ سکول کے بورڈز آف گورنر کا چیئر مین ہوتا ہے کے زیر انتظام کام کرتا ہے۔

گجرات میں اس سکول کا قیام 1997 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ سکول کے پہلے پرنسپل میجر (ر) ماجد، سینئر ٹیچر ندیم شریف اور پی اے ٹو پرنسپل مشرف ندیم کے بعد چوتھا شخص اکاؤنٹنٹ رضوان الحق عرف روزی تھا، جو سکول کے ابتدائی دنوں میں بھرتی ہونے والے سٹاف میں شامل تھا یہاں آنے سے پہلے وہ ڈویژنل پبلک سکول گوجرانوالہ میں جاب کرتا تھا۔ پھر یہیں روزی سے میری یادگار ملاقاتیں رہیں۔ جن کا کچھ احوال آگے آئے گا۔

مارچ، 1997 میں جب ملک خیر محمد ٹوانہ گجرات میں ڈپٹی کمشنر آ کر لگے تو انہیں پرانے طرز تعمیر پر بنے ڈپٹی کمشنر آفس کی تزئین و آرائش کی سوجھی۔ ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ساتھ ان دنوں ان کے پاس چئیرمین ضلع کونسل گجرات کا اضافی چارج بھی تھا۔ انہوں نے کام کا تخمینہ لگوا کر پانچ لاکھ روپے ضلع کونسل سے اور چار لاکھ روپے پنجاب بلڈنگز ڈیپارٹمنٹ کے سالانہ اور سپیشل مرمت فنڈز سے منظور کروائے کے بعد کام شروع کروا دیا۔

ایک حوالے سے کام کروانے کا یہ فریضہ میرے ذمے لگا۔ ڈپٹی کمشنر آفس گجرات کی عمارت چونکہ بہت پرانی تھی۔ بلکہ انگریز کے وقت کی بنی ہوئی تھی۔ جب پرانی عمارت کو چھیڑا گیا اور اسے اندر باہر سے نیا کرنے کا کام شروع ہوا تو کام بڑھتے بڑھتے تخمینے سے کئی لاکھ اوپر چلا گیا۔ وہ ایک الگ دلچسپ سٹوری ہے کہ وہ پیسے مجھے کیسے ریکور ہوئے۔ جس کا احوال پھر کبھی سہی۔ سر دست روزی کی طرف چلتے ہیں۔

ڈی سی خیر محمد ٹوانہ صاحب سرگودھا کی ایک رئیس ٹوانہ فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ اور باغات سمیت کئی سو مربعے اراضی کے مالک تھے۔ وہ جب گجرات میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے تو انہوں نے انکشاف کیا تھا بلکہ وہ اس چیز پر بڑا فخر بھی کرتے تھے کہ ان کے نانا نواب خدا بخش ٹوانہ بھی انگریز کے دور میں مختلف اوقات میں چار دفعہ گجرات میں ڈپٹی کمشنر تعینات رہ چکے ہیں۔ پاکستان میں شامل گجرات میں ان کے سال تعیناتی 1909، 1910، 1912 اور 1915 تھے۔

تو بات ہو رہی ہے تھی پرانی عمارت کی تعمیر و مرمت کی۔ ڈپٹی کمشنر کے مین آفس، عدالت، کانفرنس روم سمیت دیگر کمروں کی تزئین وآرائش جاری تھی۔ میسن ورک، چپس کے علاوہ زیادہ تر کام لکڑی کی وال پینلنگ، فالس سیلنگ اور ایلومینیم کی کھڑکیوں کی تبدیلی کا کام جاری تھا۔ موقع پر جاری کام کی کوالٹی کی وجہ سے خیر محمد ٹوانہ صاحب میری بڑی اچھی انڈرسٹنڈنگ اور اعتماد ایک کا رشتہ بن چکا تھا۔

اسی دوران ایک دن انہوں نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور کہنے لگے کہ گجرات میں ان کی زیر نگرانی جناح پبلک سکول کے نام سے ایک سکول کا اجراء عمل میں لایا گیا ہے۔ وہاں گجرات کی ساری ایلیٹ کے بچے پڑھتے ہیں۔ سکول شہر سے تقریباً دس کلومیٹر دور ہونے کے باعث بچوں اور سٹاف کے کھانے پینے کے لیے کیفے ٹیریا یا کنٹین کا ابھی کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے۔ تم مجھے ایک فیور دو۔ یہاں ہونے والے تعمیر و مرمت کے کام کے ساتھ ساتھ سکول میں کنٹین کا تسلی بخش انتظام شروع کراؤ۔ اچھی فیملیوں کے بچے وہاں پڑھتے ہیں فوڈ کی کوالٹی پر کوئی کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے ”۔ انہوں نے مجھے ایک چٹ دیتے ہوئے کہا کہ سکول جا کر میں پرنسپل کرنل (ر) اسحاق سے مل لوں۔

اگلے روز میں سکول جا کر پرنسپل کرنل (ر) محمد اسحاق سے ملا۔ آرمی کی ایجوکیشن کور سے رئٹایئرمننٹ کے بعد سکول انتظامیہ نے انہیں پرنسپل مقرر کیا تھا۔ کرنل صاحب سے ملاقات میں رسمی خیر مقدمی جملوں کے بعد میں نے انہیں اپنی آمد کا مقصد بیان کیا اور ساتھ ہی ڈی سی صاحب کی جانب سے دیا گیا رقعہ پیش کیا۔

انگریزی میں رقم رقعے میں یہی لکھا تھا کہ ”حامل ہذا رقعہ میرا خاص آدمی ہے۔ سکول میں ان سے کنٹین کے انصرام میں ہر ممکن تعاون کیا جائے“ ۔ کرنل صاحب نے رقعہ پڑھنے کے بعد مجھے سر لے کر پاؤں تک گھورا اور بجائے اس کے کہ میرے آنے کے مقصد پر گفتگو کرتے۔ وہ فوجی انداز سے اس بات کا کھوج لگانے لگے کہ ڈپٹی کمشنر سے میرے ”خاص بندے“ والے تعلقات کیسے بنے ہیں۔ اپنی تسلی کے بعد انہوں نے بیل بجائی اور آنے والے ملازم سے کہا کہ

”رضوان کو بلا کر لاؤ“ ۔

تھوڑی دیر بعد ایک مستعد اور سمارٹ سا نوجوان کمرے میں داخل ہوا۔ اور ”جی سر“ کہتا ہوا ٹیبل کے ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا۔ کرنل صاحب نے آئے نوجوان سے میرا تعارف کرایا کہ ”یہ ہمارے سکول کے اکاؤنٹنٹ رضوان الحق ہیں۔ آپ ان سے مل کر کنٹین چلانے کے سارے معاملات طے کر لیں۔

میں پرنسپل صاحب سے اجازت لے کر رضوان کے ساتھ اس کے کمرے میں آ گیا۔ یوں میری پرنسپل (ر) کرنل محمد اسحاق اور رضوان الحق صاحب سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعدازاں گہری دوستی میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔

بعدازاں کرنل اسحاق صاحب سے بہت قریبی تعلق استوار ہو گیا۔ بہت بذلہ سنج اور کھلی ڈھلی طبیعت کے بہت خوشگوار مزاج کے آدمی تھے۔ جب تک سکول میں رہے۔ میری ان سے خوب نبہی۔ بلکہ سکول سے ان کے چلے جانے کے بعد بھی رابطہ رہا۔ (افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج دونوں، کرنل (ر) اسحاق اور رضوان عرف روزی اس دینا میں نہیں ہیں۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے )

اگلے چار سال یعنی 1997 سے 2000 ء تک میری زیر نگرانی سکول میں احسن طریقے سے کنٹین کا سلسلہ چلتا رہا۔ ٹوانہ صاحب جب بھی سکول آتے کنٹین ضرور تشریف لاتے۔ اور کھانے پینے کی چیزوں کی کوالٹی چیک کرتے۔ اکثر کنٹین پہ چاچا مہدی، عرفان اور ایک ٹی بوائے موجود ہوتا۔ سکول میں کنٹین کی کامیابی کے ایک سال بعد مذکورہ سکول کی بک شاپ کا کنٹریکٹ بھی مجھے دے دیا گیا۔ جس کی وجہ سے میری مصروفیات بھی بڑھ گئیں۔

سکول کے ان سارے معاملات کو رضوان ہی ڈیل کرتا تھا۔ سفارش ہونے کے باوجود بھی سارے معاملات کو انتہائی پروفشنل انداز، ایمانداری اور سارے سرکاری لوازمات یعنی اخبارات میں ٹینڈرز وغیرہ دینے کے بعد ہی سرانجام دیتا تھا۔ جہاں پر بھی سکول کے مفاد کو زک پہنچنے کی بات آتی یاری دوستی کو ایک جانب رکھ کر آنکھیں فوراً ماتھے پر رکھ لیتا۔

سکول ٹائم کے بعد بھی اکثر میرا ایک مشترکہ دوست ندیم شریف کے ہمراہ رضوان کے گھر بھی جانا ہوتا تھا۔ کبھی وہ ہماری طرف آ جاتا۔ اچھی خاطر تواضع کرتا۔ جونہی ہم سکول کے اندرونی یا فنانشل معاملات کے متعلق کوئی معلومات لینی چاہتے۔ بڑی ہوشیاری بات ٹال کر کسی دوسرے موضوع کی طرف لے جاتا۔

اس کی اسی عادت اور سکول کے مالی معاملات میں کفایت شعاری کی وجہ سے سکول میں ہمارے ایک اور دوست اسے پرائیویٹ محفلوں میں ”بنیا“ کہہ کر بلاتے تھے۔ اس سے اپنی اسی بے تکلفی کی وجہ سے میں رضوان کو لالہ کہہ کر مخاطب کرنے لگا تھا۔ جو بعدازاں اس کے نام کا حصہ بن گیا اور مجھ سمیت سبھی دوست اسے لالہ رضوان کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے۔ اس کے جواب میں لالہ روزی پیار سے مجھے ”استاد محترم“ کہہ کر بلاتا تھا۔ تاہم وہ اپنی فیملی کے لیے تاوقت ”روزی“ ہی رہا۔

سکول میں ان دنوں کروڑوں روپے کی لاگت سے نئے بلاکس کی تعمیر بھی جاری تھی۔ لاکھوں روپے مالیت کے کمپیوٹرز اور فرنیچر کی خریداری بھی چل رہی تھی۔ ان کاموں کی ساری ادائیگی رضوان کے ہاتھوں ہی ہو کر گزرتی تھی۔ مجال ہے کہ کبھی کک بیکس یا رشوت کا کوئی الزام اس پر لگا ہو۔ سکول کو سامان فراہم کرنے والی بعض فرموں نے اسے اپروچ کرنے کی کوشش بھی کی۔ مگر وہ اسے نہ خرید سکے۔ بلکہ وہ اپروچ کرنے والوں کے نام رازداری سے اپنے پرنسپل کو بتا دیا کرتا تھا۔

کئی جائز کاموں میں بھی فیور دیتے ہوئے وہ کئی بار سوچتا تھا۔ میں کئی بار اسے مذاق میں کہتا کہ ”لالہ تیرا تو وہ والا حساب ہے کہ بکری دودھ تو دیتی ہے مگر مینگیناں ڈال کر“ ۔

صوم صلوۃ کے پابند رضوان الحق کا شمار صحیح معنوں میں نایاب نسل کے ان ایماندار اور پرانے وقتوں کے بال کی کھال اتارنے والے اکاؤنٹنٹس میں ہوتا تھا۔ وہ اگر چاہتا تو اپنی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے جتنا چاہتا اوپر سے پیسہ کما سکتا تھا۔ مگر اس نے رزق حلال پر قناعت کی۔ اور اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کسمپرسی کی حالت میں گزارا کیا۔ سکول میں پڑھانے والے ٹیچرز اور سٹاف کے دو بچوں کی تعلیم کے اخراجات فری تھے۔ تیسرے بچے کی شاید آدھی فیس وصول کی جاتی تھی۔

رضوان الحق کی 1995 میں شادی ہوئی۔ اس کی تین بیٹیاں ہیں۔ تینوں بیٹیوں رافعیہ، ہادیہ اور حفصہ نے جناح پبلک سکول سے ہی ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی۔

بیٹیاں لائق تھیں۔ مجھے یہ سن کر انتہائی خوشی ہوئی کہ 1990 ء کی دھائی کے آخری سالوں میں رضوان کے ساتھ سکول میں دیکھی جانے والی ننھی منی بچیوں میں سے رافعیہ نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز ڈگری اور ہادیہ نے ایم اے ایجوکیشن کر لیا ہے۔ جبکہ چھوٹی بیٹی حفصہ فزکس کے ساتھ بی۔ ایس کر رہی ہے۔ رضوان کی چونکہ نرینہ اولاد نہیں تھی۔ بیٹیوں سے وہ بے انتہا محبت کرتا تھا۔ ان کی بیٹوں کی طرح ہی اس نے تعلیم و تربیت اور پرورش کی۔

رضوان الحق 1964 ء میں گجرات کے محلہ اندرون ڈھکی میں محمد انور اور مسیز سکینہ کھوکھر کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول لالہ موسیٰ سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج آف کامرس گجرات سے ڈی کام اور بی کام کیا۔ اپنے سکول میں وہ کرکٹ کے اچھے کھلاڑی تھے۔ سکول کی کرکٹ ٹیم میں بھی رہے۔ رضوان کے ایک بھائی احمد سلطان کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز ڈگری رکھتے ہیں۔ اور وہ گجرات میں اپنا پرائیویٹ سکول چلاتے ہیں۔ جبکہ ان کی بہن منزہ ارشد اٹلی میں مقیم ہیں۔

رضوان روزی کی والدہ مسز سکینہ کھوکھر درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ گورنمنٹ ایم بی ہائی سکول لالہ موسیٰ میں چھتیس سال پڑھانے کے بعد وہ شعبہ تعلیم سے رئٹایئر ہوئیں۔ وہ لالہ موسیٰ میں ”مسز کھوکھر“ کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی تھیں۔ سال ہا سال ان کی فیملی لالہ موسیٰ کے محلہ کریم پورہ میں بھی مقیم رہی۔ رضوان کے دو ماموں بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے درس و تدریس اور جماعت اسلامی سے دیرینہ وابستگی کی وجہ گجرات میں ان کا گھرانہ تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

روزی کے ساتھ جناح پبلک سکول میں کام کرنے والے سابق وائس پرنسپل ندیم شریف نے بتایا کہ ”رضوان سکول کی واحد شخصیت تھا جو تیئس سال مسلسل سکول کے ساتھ منسلک رہا۔ اس دوران بہت سے لوگ آئے اور کچھ عرصہ گزار کر چلے گئے مگر رضوان اپنی مستقل مزاجی اور سکول کے ایک وفادار گارڈین کے طور پر اکاؤئنٹس کلرک سے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے تک پہنچا۔ اور دو ہفتے قبل اس کا انتقال دوران سروس ہی ہوا۔ وہ دوسروں کی بجائے سکول کے مفاد میں کام کرنے والا شخص تھا۔ سکول کے ابتدائی ایام سے لے کر آخر تک وہ تمام کاموں میں شریک کار رہا۔ سابق پرنسپلوں میجر ماجد، میڈم عقیلہ انجم، کرنل اسحاق، ظفر علی خاں، ترنم ریاض اور موجودہ پرنسپل ظہیر احمد جان سے اس کی خوب نبہی۔ وہ ہر ایک کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ ہونے کے رستے نکال لیتا تھا“ ۔

رضوان الحق کے بھائی احمد سلطان کا کہنا ہے کہ رضوان ایک پروفیشنل آدمی تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ادارے کے مفاد کو ترجیح دیتا تھا۔ اس حیثیت میں اس نے سکول کی ساکھ بنانے اور طلباء کی تعداد میں اضافہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے بھائی کا چونکہ دوران ملازمت انتقال ہوا ہے۔ سکول انتظامیہ کو چاہیے کہ رضوان کی سکول کے لیے خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے والدین کے کوٹے سے اس کی بیٹیوں کو سکول میں ٹیچرز کی ملازمت دی جائے۔ تاکہ موجودہ دور میں اس فیملی کا چولہا چلتا رہے۔

اپنے گھر والوں کا روزی اور ہمارا لالہ رضوان بھی وبا کے اس موسم کی ویرانی میں دل کے عارضے کے باعث گزشتہ ہفتے اچانک ہی رخصت ہو گیا۔

سفر زندگی ختم ہوا، دوستو سامان باندھو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments