منظم نسل پرستی کے مقابلہ میں منظم ردعمل کی ضرورت


25 مئی کو منیپولیس مینسوٹا میں ایک پولیس افسر ڈیرک شاون اوراسکے تین ساتھیوں کے ہاتھوں ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈکے ساتھ پیش آنے والے 9 منٹ کے ایک واقعہ کے خلاف امریکہ کے طول وعرض اوردنیا کے نمایاں شہروں میں عوام سراپا احتجاج بن گئے۔

46 سالہ جارج فلائیڈ پولیس افسر کی طرف سے اوندھے پھینکے جانے اورگردن پر گھٹنے کے دباؤ کے سبب یہ کہتے سنے گئے کہ میں سانس نہیں لے پارہا اوراس واقعہ کی ایک راہگزر کی بنائی ہوئی فوٹیج دنیا بھرمیں نہ صرف وائرل ہوئی اورکروڑوں مرتبہ اسے دنیا بھرمیں دیکھا گیا۔ بدقسمتی سے جارج فلائیڈ کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ امریکہ میں اپنی نوعیت پہلا یا آخری واقعہ نہیں تھا،

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد 12 جون کو ایک پولیس افسر نے اٹلانٹا کے ایک ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں 27 سالہ ریشرڈ بروکس کو گولی مارکر ہلاک کر دیاجبکہ اس سال کے اوائل میں، جارج فلائیڈ کی موت سے پہلے، ایک 25 سالہ احمود اربری کو جنوب مشرقی جارجیا میں ایک سفید فام باپ بیٹے نے دوران جاگنگ گولی مارکرقتل کر دیا تھا۔

لوئس ولا کنٹکی میں ایک 26 سالہ ایمرجینسی میڈیکل ٹیکنیشن بریونا ٹیلر کو بھی اپنے اپارٹمنٹ کے اندر پولیس کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے تاہم یہ جارج فلائیڈ کی افسوس ناک ہلاکت تھی جس نے قومی سطح پر افریقی امریکیوں کے خلاف نسل پرستی، عدم مساوات اورتشدد کے خاتمہ کے لئے ”بلیک لائیوز میٹر“ کے نام سے تحریک کو ہوا دی اوردنیا بھرمیں اس تحریک سے ہمدردی اورحمایت کا عنصر نمایاں طور پر دیکھنے میں آیا۔

8جون کو ڈیموکریٹک پارٹی نے پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا بل متعارف کرایا جبکہ 16 جون کو صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعہ برائے نام اصلاحات کے حکمنامہ پر دستخط کردیئے جبکہ دوسری طرف ریپبلکن پارٹی اپنے طور پر پولیس اصلاحات کے بل پر کام جاری رکھے ہوئے تھی۔ بعض تجزیہ کار امریکہ میں جاری موجودہ تحریک کو 1960 ء کے عشرہ میں نسلی فسادات اوران کے ردعمل کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں لیکن اس مرتبہ حالات اس سے کہیں زیادہ پچیدہ اورسنگین ہیں جس کے چند عوامل پر غورکرنا ضروری ہے۔

امریکہ میں کووڈ 19 عالمی وبا کے اثرات، معاشی عدم استحکام اورجارج فلائیڈ کے ہلاکت کے بعد نسل پرستی کے خلاف جذبات کا ابھرنا کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا۔ 1960 ء کی تحریک صدر جانسن کے دور حکومت میں منطقی انجام کو پہنچی تھی جب امریکی صدر نے شہری حقوق کے قانون 1964 ء پر دستخط کرکے نسل، جنس، مذہب، رنگ اورقومیت کی بناء پر تعصبات پر پابندی عائد کردی تھی۔ امریکہ میں جاری حالیہ احتجاجی تحریک ایک ایسے صدر کی موجودگی میں ہو رہی ہے جس نے قومی اداروں اورجمہوری حقوق کو نہ صرف مجروح کیا ہے بلکہ نسل اورمذہب کی بنیادوں پر اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن بنانے میں کردار ادا کیاہے۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک پی ای ڈبلیو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سیاسی تفریق بتدریج بڑھتی رہی ہے لیکن اس میں اضافہ اورشدت ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔ عوامی رائے عامہ کی ویب سائٹ وی او ایکس کی ایزا کلائن کے کہنا ہے کہ 20 ویں صدی میں ہماری سیاست اورسیاسی اتحاد ہماری سماجی تقسیم کے آئینہ دار نہیں تھے لیکن آج ہماری سیاسی تقسیم ہماری سماجی تقسیم کی آئینہ دار بن چکی ہے جس نے ہر چیز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

بعض ماہرین صدر ٹرمپ کو 1829 سے 1837 ء تک امریکی صدر رہتے ہوئے امریکہ میں نسلی خلفشار پیدا کرنے والے اینڈریو جیکسن کے پیشرو کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں بسنے والی تمام قومیتوں میں اتحاد کو فروغ دینے کی بجائے اورسیاسی نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض اپنے ووٹ بینک کو مستحکم کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ امریکی صدر کے اسی رویہ اورسلوک کے سبب واشنگٹن پوسٹ کے ایشان تھرور یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ٹرمپ فاشسٹ تو نہیں ہیں اورایزا کلائن انہیں سیاسی آتش پرست قرار دے رہی ہیں۔ میں ذاتی طور پر ٹرمپ کو غیرذمہ داری، غیرمستقل مزاجی اورنا اہلی کا امتزاج قراردیتا رہا ہوں۔

کووڈ 19 عالمی وبا اورجارج فلائیڈ کے واقعات سے نمٹنے کے حوالہ سے میں اس میں اضافہ کرتے ہوئے انہیں اشتعال انگیز فساد پسند قرار دوں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹویٹس میں ورجینیا اورمشی گن ریاستوں میں کورونا کے مشکل ترین حالات میں بھی اپنے سپورٹرز کو لاک ڈاؤن کھولنے پر اکسایا تھا۔ یکم جون کو امریکی ریاستوں کے گورنرز کے ساتھ کانفرنس کال میں صدر ٹرمپ نے نسل پرستی کے خلاف احتجاجی تحریک کو کچلنے پر زور دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے روز گارڈن میں اپنی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ اگر کسی شہر یا ریاست نے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے لئے اقدامات نہ کیے تو وہ امریکی فوج تعینات کرکے یہ مسئلہ فوری طور پر حل کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔

یہ بلاشبہ امریکہ کی سیاسی اورسماجی تاریخ میں نازک وقت ہے اوریہ بھی واضح ہے کہ دنیا بھرمیں امریکہ اکیلا ایسا ملک نہیں ہے جہاں منظم انداز میں رنگ، زبان اورمذہب وعقیدہ کی بنیادپر عصبیت موجود ہے۔ جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر کے بڑے شہروں میں پھوٹ پڑنے والے مظاہروں سے دنیا بالخصوص امریکہ کو سبق سیکھنا ہوگا۔ اسی بنیاد پرانہیں ایسے مخصوص حالات میں فوری طور پر اس نوعیت کے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے اقوام عالم میں شراکت اوربرابری کا احساس نمایاں ہو سکے اورپرامن احتجاج کو پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہونے سے روکا جاسکے۔

امریکہ کے لئے حالیہ واقعات کے حوالہ سے بہت سے لوگ مایوسی کا شکارہیں لیکن میں اس میں امید کی کرن دیکھ رہاہوں۔ میں ان واقعات کو سابق صدر باراک اوبامہ کے نقطعہ نظر سے دیکھ رہاہوں جنہوں نے ٹاؤن ہال میں مائی برادرز کیپر الائنس کے زیراہتمام ہونے والے ایک مذاکرہ میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہاہے کہ حالیہ مظاہروں میں مختلف رنگ ونسل اورمذہب کے لوگوں نے شرکت کی ہے اوریہ 1960 ء کے مظاہروں سے ان کا موازنہ نہیں جا سکتا۔

اوبامہ کا کہناتھا کہ حالیہ مظاہروں میں امریکہ میں آباد مختلف نسلوں کے لوگ گھروں سے باہر نکلے اورپرامن انداز میں انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جو کہ 1960 ء میں نہیں ہوا تھا۔ بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ ذمہ دار اورمتفکر شہریوں کی پریشانی دور کرنے کے لئے اس سنگین مسئلہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔

امریکہ میں پائی جانے والی اس منظم نسل پرستی کے خاتمہ کے لئے اب وقت آ گیا ہے کہ منظم اندازمیں آگے بڑھ کر دیرپا اورزوداثر اقدامات کیے جائیں۔ امریکہ میں تبدیلی کے عمل کاآغاز 4 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں کروڑوں امریکی ووٹرز کی طرف سے نئے صدر کے انتخاب سے شروع ہونا چاہیے کیونکہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر برقرار رہنے میں کامیاب ہوگئے تو ملک میں منظم نسل پرستی کا خاتمہ عملاً ممکن نہیں رہے گا۔ نئے صدر کا انتخاب امریکہ میں پولیس کے سیاہ فام شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی تشدد کے خاتمہ کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔

اس ضمن میں اگلا قدم قومی اورمقامی سطح پر صحیح نمائندوں کا چناؤ بھی ہے جو انتہائی اہم کردار ادا کر سکتاہے۔ سابق صدر باراک اوبامہ کا کہناتھا کہ محکمہ پولیس اورکرمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کے حامی افراد کا چناؤ اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اگر ہم اس نظام میں حقیقی تبدیلی کے خواہشمند ہیں تو احتجاج اورسیاست دونوں کا حق استعمال کرنا پڑے گا۔

ہمیں اس مقصد کے حصول کے لئے نہ صرف رائے عامہ بیدار کرنا ہو گی بلکہ منظم انداز میں ایسے امیدواروں کو کامیاب کروانا ہوگا جو اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ امریکہ سے منظم نسل پرستی کے خاتمہ منظم ردعمل کا تحریک کا آغاز ہوچکاہے اور مساوات پر مبنی ایک معاشرہ کے قیام کی منزل اب دور نہیں ہے۔ یہ سفر اپنی منزل مراد پر پہنچ کر ختم ہونا چاہیے کیونکہ اسی میں امریکی جمہوریت کی بھی بقاء ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments