علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سوالنامے پر ایک لبرل کا اعتراض


\"zeeshan

آج کل سوشل میڈیا پر اس سوالنامہ پر بحث ہو رہی ہے جس میں طلباء سے اپنی بڑی بہن کی جسمانی خصوصیات پر سوالات کیے گئے۔ عام صورتحال کی طرح رائے عامہ اب بھی لبرلز اور رجعت پسندوں میں تقسیم ہو گئی ہے جو کہ اس بات کا اظہار ہے کہ دونوں طبقات کے درمیان ایک عجیب و غریب قسم کی خلیج حائل ہو گئی ہے جو راقم کی نظر میں کچھ عام فہم سے امور میں بھی اتفاق رائے کی فضا پیدا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر یہی سوالات امریکہ میں پوچھے جاتے تو ان تین اسباب سے نہ صرف اس ٹیچر کی نوکری چلی جانے کا خطرہ ہوتا بلکہ پولیس کیس بھی بن جاتا۔

1۔ پرائیویسی : ٹیچر کو کیا حق ہے کہ وہ طلباء سے ان کی فیملی سے متعلق ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھے، وہ بھی جسمانی خصوصیات سے متعلق۔ آپ کسی مغربی ملک میں کسی لڑکی سے اس کی جسمانی خصوصیات سے متعلق سوال پوچھ کر دکھائیں، لگ پتا جائے گا۔

2۔ ہر سوسائٹی میں رجعت پسند بھی ہوتے ہیں، لبرل بھی اور ترقی پسند و قدامت پسند بھی۔ ممکن ہے کوئی طالب علم اس سوال کو غیر اخلاقی سمجھے (اور ممکن ہے وہی سوال ایک لبرل کو غیر اخلاقی نہ لگے ) مگر تمام طالب علموں پر سوالنامہ میں جواب کے جبر کے کیا معانی ہیں؟

پاکستان میں بھی ہم جانتے ہیں کہ ایک بڑی تعداد ثقافتی و اخلاقی طور پر اپنی بہن سے متعلق ایسی گفتگو یا موضوع پسند نہیں کرتی تو کیا یہ بہتر نہیں کہ لوگوں کی پسند و ناپسند سے متعلق ان کے حق انتخاب یعنی پرسنل چوائسز کی قدر کی جائے؟

اگر کوئی ان سوالات کو یقینی طور پر اہم و ضروری بھی سمجھتا ہے تو بتایا جائے کہ ان سوالات میں کیا خاص ہے اور اس سے ہماری سماجی سیاسی اور معاشی زندگی میں کون سے نئے امکانات ہیں جن کے کھلنے کی امید کی جا سکتی ہے؟ ہاں اگر محض بہن پر سادہ سا مضمون لکھنے کا کہا جاتا تو کہا جا سکتا تھا کہ مضمون نویسی کی قابلیت کا امتحان مقصود ہے مگر جسمانی خصوصیات کے سوالات کوئی اچھا تاثر نہیں قائم کرتے۔

3۔ تیسری چیز سوالات کے جواب سے متعلق ہے۔ ظاہری شباہت ( Appearance ) کے سوال پر اگر کوئی رنگین ( کالا یا brown )شکل و صورت کا آدمی اپنی ہتک محسوس کرے، تو یہ سوال آسانی سے نسل پرستانہ (Racist ) لیا جائے گا۔ اسی طرح مشرقی ایشیا کے ملک کا بندہ یا بندی چھوٹے قد کی وجہ سے بھی اس سوال کو ناپسند کر سکتا ہے۔

آپ کسی امریکی دوست سے کہیں کہ وہ کسی امریکی لبرل سے ہی اس کی جلد کی رنگت (Skin Colour) کا سوال پوچھ کر دکھائے؟ اور اگر وہ لبرل رنگین رنگت کا تو ہے تو یقیناً وہ نفسیاتی طور پر اس سوال کو Racist ہی لے گا چاہے آپ کا مطلب و مقصد یہ نہ بھی ہو۔

لبرل ازم نے خاکسار کی نظر میں ثقافت کی قدر سکھائی ہے۔ کلاسیکل لبرل ازم ثقافت کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ لبرل ازم میں سماج کو ریاست پر ترجیح حاصل ہے اور ذاتی حق انتخاب چاہے وہ کسی رجعت پسند کی زندگی سے متعلق ہے یا لبرل کی زندگی سے متعلق، اسے سماجی اقدار کے تصورات پر برتری حاصل ہے۔ خدارا رجعت پسندوں کی پسند و ناپسند کو بھی اہمیت دیں۔ اپنے ذاتی انتخاب کا دوسرے کے ذاتی انتخاب پر جبر قائم نہ کریں۔

ایسے سوالات ایک پبلک یونیورسٹی کے پبلک فورم میں پبلک سے نہیں کیے جا سکتے، جس میں طلباء سوالات کے جوابات دینے کے پابند ہوں ورنہ ان کے گریڈ متاثر ہوں گے۔ ہاں اگر لبرلز کا کوئی اپنا فورم ہے جس میں تمام participant لبرلز کو ان سوالات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو انہیں آزادی ہے ورنہ کسی کو اپنی اقدار دوسروں پر نافذ کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments