میں، گرونیا اور اس کا شوہر


میں ڈبلن پہنچ کر اس سے فوراً ملنا چاہتا تھا مگر ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اسے فون کروں۔ وہ میری عزیز از جان دوست، میری سب کچھ، میری محبوبہ، ہم دونوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو جانے والی، میری جنم جنم کی ساتھی گرونیا کا شوہر تھا۔ اس نے ہی مجھے گرونیا کے موت کی خبر دی تھی، میں نے اسے آنسوؤں سے بھرا ہوا جواب دیا اور نہ جانے کیوں میرے اندر ایک زبردست قسم کی خواہش جاگ اٹھی تھی کہ میں اس سے ملوں۔ آخر کار وہ میری گرونیا کا شوہر تھا۔

گرونیا نے اس کی بانہوں میں جان دی ہوگی۔ اس نے اسے پکڑ کر بٹھایا ہوگا، اس کے بالوں کو سنوارا ہوگا، درد کی شدت میں وہ تڑپی ہوگی اور اس وقت وہ اس کا سہارا ہوگا۔ نہ جانے کیوں میں اس کے ساتھ بیٹھ کر اس سے اس کے بارے میں، گرونیا کے بارے میں باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے خبر سننے کے ساتھ ہی میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ڈبلن پہنچ گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوٹل کے اس اداس کمرے میں بیٹھا ہوا گرونیا کے بارے میں سوچتے ہوئے سشمیش اوڈینو کو فون کرنے میں کچھ عجیب سی ہچکچاہٹ سی ہو رہی تھی۔

گرونیا میرے ساتھ ہی کام کرتی تھی۔ ہسپتال میں تو بے شمار نرسیں ہوتی ہیں، درحقیقت ہسپتال تو نرسیں ہی چلاتی ہیں، مریض کے آنے سے لے کر مریض کی صحت یابی یا موت تک۔ ان کے ساتھ ساتھ تو نرسیں ہی ہوتی ہیں۔ ہم ڈاکٹر تو آتے ہیں انہیں دیکھتے ہیں پھر فائلوں پر حکم لکھ دیتے ہیں یا لکھوا دیتے ہیں۔ دواؤں کی مقدار اوپر نیچے کرتے ہیں کچھ مزید ہدایات جاری کرتے ہیں، مریض اور مریضوں کے رشتے داروں کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں پھر اس وقت تک نہیں ملتے جب تک کوئی مریض تشویشناک حد تک بیمار نہیں پڑ جاتا ہے۔

یہ تو نرسیں ہوتی ہیں جو ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ان کے نخرے سہتی ہیں، انہیں وقت پر دوائیں دیتی ہیں، ان کی شکایتیں باتیں سنتی ہیں وہ جب الٹیاں کرتے ہیں تو ان کے جسم، چہرے، کپڑوں اور بستروں کو صاف کرتی ہیں، ان کے پیشاب اور پاخانے سے آلودہ جسموں کو دھوتی ہیں، انہیں نئے صاف کپڑے پہناتی ہیں، درد کی شدت میں ان کے ہاتھوں کو پکڑ کر نہ جانے کب تک بیٹھی رہتی ہیں، ڈاکٹر انہیں دوائیں دیتے ہیں، نرسیں انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں، گرونیا اسی قسم کی بے شمار نرسوں میں سے ایک تھی۔

اسے بہت خوبصورت نہیں کہا جاسکتا تھا وہ قبول صورت تھی اور قیامت کی حد تک جاذب نظر۔ اس کی دو چمکتی ہوئی سیاہ آنکھیں اور اس کی مسکراہٹ اس کے چہرے کی دو ایسی چیزیں تھیں کہ کوئی بھی انہیں نظرانداز نہیں کر سکتا تھا۔

مجھے آج تک یاد ہے کہ میں نے اسے پہلی بار اپنے ایک ایسے مریض کے ساتھ دیکھا جو بہت بیمار تھا۔ میں کمرے میں داخل ہو کر مسٹر فٹزپیٹرک کے بستر کی طرف جا رہا تھا وہ سر نیچا کر کے اس سے بات کر رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ فٹزپیٹرک نے نہ چاہتے ہوئے بھی الٹی کردی تھی اور اس کی متلی گرونیا کی پیشانی اور چہرے پر بکھر گئی تھی۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، مجھے لگا تھا جیسے وہ چیختی چلاتی ہوئی غسل خانے کی طرف بھاگے گی مگر وہ وہیں کھڑی رہی۔

اس نے بڑے والے ٹشو پیپر کو کھولا، فٹزپیٹرک کی گردن اور سینے کو صاف کیا، اسے تسلی دی، اپنی چمکتی ہوئی سیاہ آنکھوں کے ساتھ اپنے مسکراتے ہوئے چہرے پر کسی برہمی کے آثار کے بغیر۔ روہانسا ہوتے ہوئے بوڑھے فٹزپیٹرک کو اس نے یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ اس نے اس کے چہرے پر الٹی کی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں دوسری نرسیں آ گئی تھیں، بستر کے چاروں طرف پردے کھینچ گئے تھے اور صفائی کا کام شروع ہوگیا تھا۔ گرونیا نے تولیے سے اپنا چہرہ اور گردن صاف کیا اور دوسری نرسوں کی مدد سے فٹزپیٹرک کا بستر بھی صاف ستھرا ہوگیا، تھوڑی سی دیر میں فٹزپیٹرک دواؤں کے زیراثر سفید چادروں میں لپٹا ہوا پرسکون سو رہا تھا۔

الٹی میں لتھڑا ہوا وہ چہرہ مجھے بہت خوبصورت لگا۔ دوسرے دن میں وارڈ کے راؤنڈ کے بعد کافی دیر تک اس سے کھڑا باتیں کرتا رہا تھا۔ اس کی باتیں کرنے کا انداز، اس کی دلکش اور خوبصورت شخصیت کا اہم ترین پہلو تھا۔ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک گرم جوش دل، ایک کشادہ سینہ اور ایک سلجھا ہوا دماغ بھی رکھتی تھی۔

بہت تیزی کے ساتھ میری اس سے دوستی ہو گئی۔ اس نے تو دوستی ہی کی تھی لیکن سچی بات یہ ہے کہ میری دوستی میں دوستی کے ساتھ ساتھ چاہنے اور محبت کے پہلو بھی شامل ہو گئے تھے۔ وہ مجھے اچھی لگی، بہت اچھی۔ وجہ جو بھی ہو میں اس کی جانب پوری طرح سے متوجہ ہوگیا تھا، شاید عشق اسی کو کہتے ہیں۔

لڑکیوں کے معاملوں میں میں کافی خوش قسمت رہا ہوں۔ پاکستان میں اور پاکستان سے نکلنے کے بعد جہاں بھی میں نے کام کیا وہاں میری کسی کوشش اور کاوش کے بغیر لڑکیاں میری طرف متوجہ ہوجاتی تھیں۔ دو تین دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ لڑکیوں نے خود ہی محبت کا اظہار کر دیا۔ مجھے نہیں پتا کہ مجھ میں ایسی کیا خاص بات تھی۔ نہ میں بہت خوبصورت واقع ہوا ہوں اور نہ ہی میرے پاس دولت کی بہتات ہے۔ میں سادا سا آدمی ہوں اور میں نے ہمیشہ لڑکیوں کی عزت کی ہے اور انہیں استعمال کی جانے والی کسی شے کا درجہ نہیں دیا ہے۔ شاید میری سادگی انہیں میری طرف متوجہ کر لیتی تھی لیکن اس دفعہ معاملہ مختلف تھا، میں اس کی محبت میں گرفتار ہوگیا تھا۔

جس وقت گرونیا سے میری ملاقات ہوئی اس وقت گرونیا خود ایک بڑے مسئلے کا شکار تھی۔ اس کے پرانے دوست سے اس کی چار سالہ منگنی ٹوٹی تھی۔ مجھ سے دوستی کے تھوڑے دنوں بعد ہی مجھے پتا چل گیا تھا کہ اس کی منگنی ٹوٹ گئی ہے لیکن منگنی کے ٹوٹنے کی وجوہات کا نہیں پتا چلا تھا۔

وہ بڑی گرم جوش لڑکی تھی۔ اس کی ہنسی بڑی بھرپور ہوتی تھی۔ میں نے اسے کبھی بھی رواداری میں ہنستے ہوئے نہ دیکھا، نہ سنا۔ اس کا پورا جسم اس کی سیاہ چمکتی ہوئی آنکھیں، اس کے ہونٹ اور اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ سب کے سب ایک ساتھ ہنستے تھے، مجھے اسے ہنستا دیکھ کر جتنی خوشی ہوتی اس کا کوئی بھی اندازہ نہیں کر سکتا ہے۔ آج بھی جب اس کے چھاتی سے نکلی ہوئی ہنسی کی آواز تصور میں میرے کانوں سے ٹکراتی ہے تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ کاش میں اس سے کبھی بھی جدا نہ ہوتا۔

ہم دونوں کی دوستی جلد ہی محبت میں بدل گئی۔ میں اس کی زندگی میں پہلا مرد نہیں تھا مگر وہ میری زندگی میں پہلی لڑکی تھی جسے میں اپنے آپ سے بھی زیادہ اہمیت دینے لگا تھا۔ محبت تو یہی ہوتی ہے جب اپنی ذات سے بڑھ کر کوئی دوسرا شخص اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ بہت جلد مجھے بھی احساس ہوگیا کہ وہ بھی مجھے مجھ سے بڑھ کر چاہنے لگی ہے، کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید اس وقت وہ ول نر ایبل تھی۔ اس کی منگنی ٹوٹی تھی، وہ پریشان تھی بغیر کسی دوست ساتھی کے اور میں اس سے اس وقت مکمل خلوص سے ملا تھا۔

اسے شاید کسی سہارے کی ضرورت تھی لہٰذا وہ میری محبت میں مبتلا ہو گئی لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے منگیتر اور اپنی منگنی کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ کچھ تھا جسے وہ اپنے سینے میں ہی رکھنا چاہتی تھی۔ جب ہم دونوں ساتھ ہوتے تو مجھے کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ اس نے کسی اور سے بھی اسی طرح ٹوٹ کر محبت کی ہوگی، وجوہات کچھ بھی ہوں جس طرح سے میں اس پر فدا تھا اسی طرح سے وہ بھی مجھے چاہنے لگی تھی۔ ہم دونوں نے بہت سارے خواب بن لیے۔ ساتھ رہنے کے خواب، اپنے بچوں کے خواب، ان کے ناموں کے خواب، ان کی زندگیوں کے خواب اور اپنے جینے مرنے کے خواب۔ لیکن خواب بننے سے سچ تو نہیں ہو جاتے۔ زندگی اتنی آسان ہوتی تو شاید زندگی کا مزہ بھی ختم ہوجاتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments