دریا کے دوسرے کنارے والی لڑکی


تانیا سے میری ملاقات ہوئی جب میں نے نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے کمپیوٹر اینڈ انفورمیشن میں ماسٹرز کر رہا تھا۔ وہ ہمارے ہی گروپ میں تھی۔ تعارف ہوا تو بولی۔

” تمہارا نام حسن ہے۔ پاکستانی ہو کیا؟” میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

” میں انڈین ہوں۔ مسلم فیملی سے ہوں۔ حیدرآباد میرا شہر ہے”

” اردو آتی ہے؟” میں نے اردو میں پوچھا۔

” ہاں ہاں مجھے بہت اچھے سے اردو بولنا آتا ہے” اس کے اس انداز پر میں بے تحاشا ہنس دیا۔ وہ بھی ہنسی۔ اور ہماری دوستی ہو گئی۔ وہ مجھے بہت اچھی لگنے لگی۔ اتنی کہ جس دن وہ آنے میں دیر کر دیتی میں بے قرار ہو جاتا۔ وہ جب آتی تو مجھے ہر چیز حسین لگنے لگتی۔ ہم گروپ اسٹڈی کرتے تھے۔ ہمارے گروپ کے سبھی لوگ اس سے متاثر تھے۔ وہ حسین بھی تھی اور ذہین بھی۔ محنت بھی بہت کرتی تھی۔ اس کے پاس بے شمار آیڈیاز ہوتے، پلاننگ ہوتی، بھرپور انرجی، جوش و خروش سے جلدی جلدی اپنی بات کرتی اور چاہتی کہ ہم سب اسے سمجھ لیں۔۔ وہ ہمارے گروپ کا اثاثہ بن گئی۔ اس کے ساتھ وقت بہت خوشگوار گذرتا۔ بات بات پر قہقہے لگاتی، مذاق کرتی، اور ہمیشہ خوش نظر آتی۔ زبان ایکسپریس ٹرین کی رفتار سے چلتی۔ لگتا تھا کہ خیالات کا ایک سمندر جس پر کوئی بند نہیں۔

پھر ایک دن ہمارا گروپ سیشن تھا ہم اس کا انتظار کرتے رہے۔ کسی نے کہا ” اسے فون کرو” اور ہمیں پتہ چلا کہ ہم میں سے کسی کے پاس اس کا نمبر نہیں ہے۔ مجھے سارا دن بے قراری رہی۔ کہیں دل نہیں لگا۔ اگلے دن وہ آ گئی۔ اس کا حلییہ کچھ عجیب سا تھا۔ مسکا ہوا لباس، الجھے ہوئے بال، سوجی ہوئی آنکھیں۔ تھکی ہوئی سی۔ سب نے اس کا حال پوچھا۔ وہ بہت کھوئی کھوئی سی لگی۔ سب فکرمند ہوئے۔

” تم ٹھیک تو ہو نا؟” میں نے تشویش ظاہر کی۔

” میں ٹھیک ہوں” اس نے یقین دلایا اور ہم نے مان لیا۔ اور اس کا فون نمبر بھی لے لیا۔ دو دن میں نارمل بھی ہو گئی۔ اور مجھے بہت اچھی لگنے لگی۔ جلد ہی مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ وہ میرے دل میں سما رہی ہے۔ یہ ڈر بھی کہ شاید یہ سب یکطرفہ ہوگا۔ کیونکہ اس کی طرف سے کبھی کوئی ایسی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔ اس کا رویہ تو سب ہی ساتھ دوستانہ تھا ہر ایک سے گرمجوشی سے ملتی۔

ایک دن کلاس کے بعد ہم اکھٹے نکلے۔ وہ ساتھ چلتی رہی میں اس ساتھ قدم ملاتا چلتا رہا۔ پھر اچانک پتہ نہیں کہاں سے مجھ میں اتنی ہمت آ گئی کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے ہاتھ نہیں چھڑوایا بلکہ مسکرا دی۔ میری جان میں جان میں آئی۔ سارا دن سرشاری میں گذرا۔ رات بھی اس کے ہی خوب دیکھتے گذری۔

میری دوستی بڑھ کر اب محبت کی سرحد پہ کھڑی تھی۔ میں سرحد کے پار اترنا چاہتا تھا لیکن تذبذب میں تھا۔

وہی بات کہ۔ میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں۔ وہ تبسم وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو۔

ایک بار ہمت کر کے کہہ ہی دیا۔ ” مجھے لگتا ہے کہ مجھے کچھ کچھ تم سے محبت ہو گئی ہے” وہ کھل کھلا کے ہنسی” کچھ کچھ کیوں؟ پوری کیوں نہیں؟” مجھے اطمینان ہوا کہ اسے بات بری نہیں لگی۔

 ایک دن وہ پھر غایئب ہوگئی۔ میں نے فون کیا جواب نہیں ملا۔ سارا دن اداسی میں گذرا۔ گھر آ کر پھر فون کیا اس نے اٹھا لیا اور بتایا کہ وہ ٹھیک ہے بس مایگرین ہے۔ کل آئے گی۔ اگلے دن آئی تو بہت تھکی تھکی سی لگی۔ سب نے کہا کہ کل اسے ہم نے مس کیا۔ وہ میری طرف متوجہ ہوئی۔ “آپ مجھے کتّا مس کئے جی؟”

“اتّا” میں نے دونوں بازو پھیلا کر اسی کی انداز میں جواب دیا۔ وہ بے تحاشا ہنسی۔

میں اس کے بارے اتنا ہی جانتا تھا جتنا اس نے مجھے بتایا۔ اس کے پاپا کا انڈین فوڈ اسٹور ہے۔ اسٹور کا نام سن کر میں حیران بھی ہوا اور پریشان بھی وہ نیویارک کا سب سے بڑا انڈین فوڈ اسٹور تھا۔ اس کی ممی کو پارٹیز کرنے کا بہت شوق ہے۔ ایک بڑا بھائی ہے وہ شکاگو کا اسٹور چلاتا ہے۔ اس کا گھر نیو یارک میں مین ہٹن کے جوار میں ہڈسن اسکویئر میں تھا جو متمول لوگوں کی رہایئش گاہ ہے۔ گھر یونیورسٹی سے بہت دور ہے اس لیئے یہیں ایک اپارٹمنٹ ایک اور لڑکی کے ساتھ لے رکھا ہے۔ ویک اینڈز میں گھر جاتی ہے۔

میں سوچتا رہا کہ اسے اپنے بارے میں سب سچ بتاوں۔ یا کچھ چھپا جاوں۔ لیکن پھر سارا سچ بتانا ہپی مناسب لگا کہ میرے ابو ایک پیتزا ہٹ پر ہیڈ شیف ہیں، امی وال مارٹ پر کیشیئر ہیں۔ ایک چھوٹا بھائی ہے پڑھ رہا ہے۔ گھر ہمارا متوسط علاقے کلنٹن ہل میں ہے۔ ابو اور امی دونوں کا ادب سے لگاؤ ہے۔ شاعری وغیرہ چلتی رہتی ہے۔ ہم دونوں بھائی فٹ بال دیکھتے ہیں اور ابو کرکٹ۔ امی نے بیک یارڈ میں سبزیاں اگائی ہوئی ہیں۔ ہرا دھنیا، پودینہ۔ مرچیں، بھنڈی اور چھوٹی مولیاں۔ ہم سب صبح پانچ بجے اٹھے ہیں۔ ابو ناشتہ بناتے ہیں امی اپنا اور ہم سب کا لنچ لے جانے کے لیئے تیار کرتی ہیں۔ ابو گاڑی میں امی کو چھوڑتے ہوئے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں میں اور بھائی سب وے لیتے ہیں۔ اتنا کچھ بتایا اور وہ بولی” امی پودینے اور مرچوں کی چٹنی بھی بناتی ہیں؟” ” ہاں ” ” تو کسی دن بنوا کر لانا۔ ” میں اگلے ہی دن پراٹھے اور چٹنی لنچ میں لے گیا اور اس نے چٹخارے لے کر کھایا۔

 اور پھر اسے بھی مجھ سے محبت ہو گئی۔۔ کچھ کچھ نہیں بلکہ پوری۔ میں جانتا تھا وہ میری پہنچ سے دور ہے۔ بڑے گھرانے کی ہے، انڈین ہے، آزاد خیال ہے۔ حسین ہے اور کافی بے باک بھی۔

ہم نے ایک سمسٹر پاس کر لیا اب دوسرا چل رہا تھا اور ہماری محبت بھی ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی۔ سب ہی جان گئے تھے کہ ہم کپل ہیں۔ وہ سب کے سامنے میرے گلے لگ جاتی، میرے گال چوم لیتی، رومنٹک جملے اچھالتی۔ میں کبھی محظوظ ہوتا، کبھی شرم سے سرخ پڑ جاتا۔ اور کبھی مجھ ہر گھبراہٹ طاری ہو جاتی۔ ایک دن وہ پھر بغیر کسی اطلاع کے غائب ہو گئی۔ میں نے فون پر فون کیئے لیکن جواب نہیں ملا۔ کلاسز کے بعد میں اس کے اپارٹمنٹ پہنچ گیا۔ دروازے کی گھنٹی بجائی۔ اس کی روم میٹ نے دروازاہ کھول دیا اور اشارے سے تانیا کے کمرے کا بتا دیا۔ میں نوک کر کے اندر چلا گیا۔ وہ بستر پر آڑی ترچھی لیٹی تھی۔ میں نے آواز دی تو چونکی۔ اور غضب ناک نگاہوں سے مجھے دیکھا

 تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟” وہ چیخ کے بولی۔ میں گویا زمین میں گڑ گیا۔ ” وہ۔۔ تم۔۔۔ آئی نہیں۔۔ میں حال پوچھنے۔۔۔ چلا آیا”۔ ” میں ٹھیک ہوں۔ جاو۔ ” وہ شدید غصے میں تھی۔ میں الٹے قدموں واپس ہو لیا۔ رات گئے اس کا مسیج آیا “سوری۔۔ کل بات ہو گی” میں نے جواب نہیں دیا۔ اگلے دن آئی تو جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ وہی التفات وہی گرمی جذبات وہی ہنسی مذاق۔ تنہائی ملتے ہی بولی” آپ ہماری باتاں کا برا نہیں منایئے۔ یہ مایئگرین بہت تکلیف دیتا ہے۔۔ ہوش میں نہیں رہتے ہم۔ خسم سے شرمندہ ہیں، سوری جان” اس نے ہاتھ جوڑے۔ میں پگھل گیا۔ اس کی انہی باتوں پر تو میں فدا تھا۔ ” تم کوئی دوا نہیں لیتیں؟” ” ہاں لیتی ہوں۔ لیکن فایئدہ نہیں ہوتا”

پھر ایسے کئی واقعات ہوئے۔ اسے شبنم سے شعلہ بنتے دیکھا۔ شہد سی میٹھی زبان کو زہر اگلتے سنا۔ لیکن اب مجھے اس کا ہر انداز اچھا لگنے ایک دن کلاس کے دوران مجھ سے بولی” چلو آج شاپنگ پر چلتے ہیں” میں ساتھ ہولیا۔۔ میرے لیئے تو اس کا ساتھ چلنا، ہاتھ تھامنا بہت بڑی بات تھی۔ وہ مجھے ایک بہت بڑے شاپنگ مال میں لے گئِ۔ ایک دوکان سے دوسری دوکان۔ خریداری پہ خریداری۔ شاپنگ بیگز تھامے میرے ہاتھ دکھ گئے۔ وہ اندھا دھند خریداری کر رہی تھی۔ ہر ادایئگی کارڈ سے کر رہی تھی۔ میں حیران تھا۔ وہ آرمانی کی بوتیک پہنچ گئی۔ ایک مردانہ جیکٹ منتخب کر کے بولی ” اسے ٹرائی کرو۔ تمہارے ناپ کی ہے نا؟”

” نہیں۔۔۔ ہر گز نہیں” میں جھنجھلا گیا۔ ” کیوں نہیں؟” ” میں اتنی مہنگی چیز افورڈ نہیں کرسکتا” ” ارے یہ میرا گفٹ ہے تمہارے لیئے” ” میں نہیں لے سکتا یہ گفٹ۔ میرے لیئے تو گھر والوں کے سوالوں کا جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔ کیا کہوں گا کہ کہاں سے لی ہے یا ملی ہے” ” وہ تم سے پوچھیں گے کیا”؟ اس کی آنکھیں میں بہت حیرانی تھی۔ شاپنگ کے بعد برگر کھایا اور لدی پھندی تانیا کو اس کے اپارٹمنٹ تک چھوڑ کر میں گھر آ گیا لیکن میرے دماغ میں الجھنیں تھیں۔ ہماری اس محبت کا انجام کیا ہوگا؟ وہ میرا ساتھ کہاں تک دے سکے گی؟ ہم ساتھ چل بھی سکیں گے؟ پھر میں نے خود کو اور اپنی محبت کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔

آخری سمسٹر ختم ہونے کو تھا۔ ہم سب اپنے تھیسیس میں لگ گئے۔ ساتھ ہی جاب کی تلاش بھی شروع کر دی۔ نتائج آ گئے۔ ہمارا گروپ اچھی طرح کامیاب ہوا۔ تانیا کے گریڈز ہم سب سے بہتر تھے۔ ہم نے جاب ڈھونڈنے شروع کر دیئے۔ تانیا کو جلد ہی آفر آ گئی۔ مجھے چھے انٹرویوز کے بعد کام ملا۔ اب ہماری عملی زندگی شروع ہو گئی۔ تانیا اپارٹمنٹ چھوڑ کر اپنے گھر واپس چلی گئی۔ ہمارا ملنا کم کم ہو گیا۔ لیکن فون پر رابطہ رہا۔ ایک دن ہم کافی پر ملے۔

 ” حسن اب وخت آ گیا ہے” ” کس بات کا وقت؟” میں چونکا۔ ممی پاپا ملنا چاہتے ہیں تم سے۔ میں نے سب بتا دیا ہے انہیں۔ ” مجھ پہ ایک بار پھر حیرانی کا پہاڑ ٹوٹا۔ میں نے ابھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔۔ ابھی ابھی تو جاب شروع ہوئی ہے۔ مجھ پر ذمہ داریاں ہیں۔ والدین کو سمجھانا اور منانا ہے۔ پورا مقدمہ لڑنا ہے۔ لیکن مجھے اس کی بات مانی پڑی۔ ایک شام میں پھول لے کر ان کے بڑے سے گھر پہنچ گیا۔ تانیا میرا بازو پکڑ کر اپنے لیوینگ روم تک لے گئی۔ جہاں اس کے ممی پاپا بیٹھے تھے۔۔ میرا انٹرویو شروع ہو گیا۔ اتنے پسینے مجھے اپنی تھیسیس کی پیشکش میں نہیں آئے اور اتنا نروس میں کسی جاب انٹرویو میں نہیں ہوا۔ پاپا نے میرا فیملی بس منظر، تعلیمی ریکارڈ، جاب کی نوعیت سب پوچھ ڈالا۔ ممی نے پوچھا” آپ دونوں ایک دوسرے کو اچھا سا جان گئے ہیں نا؟” میں نے سر ہلا دیا۔

گھر والوں کے سامنے بات رکھی تو امی کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ اعتراض تو ابا کو بھی تھے۔ ” دشمن ملک کی لڑکی ہے”

” اور جب تمہارے بچے ہوں گے وہ کیا کہلایں گے پاکستانی یا انڈین؟” امی تڑ سے بولیں۔

” ہم امریکی ہیں بچے بھی امریکی کہلایں گے”

” یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ اپنی اصلی شہریت کا ٹھپہ لگا ہی رہتا ہے” امی بہت غصے میں تھیں۔ ” اور ابھی سے شادی کی جلدی کیا ہے؟ ابھی ابھی تو نوکری لگی ہے۔ گھر کی قسطیں اتارنے میں مدد کرتے۔ اپنے لیئے گاڑی خریدتے۔ فٹ سے شادی کی سوجھ گئی” میں نے یقین دلایا کہ میں اپنی آمدنی کا آدھا حصہ گھر میں دیتا رہوں گا۔ تانیا جاب کرتی ہے ہمیں کوئی تنگی نہ ہو گی۔ اور آپ ایک بار اس سے مل تو لیں”

ملنے کے بعد امی کی ناپسندیدگی اور بھی بڑھ گئی۔ ” اتنی آزاد خیال لڑکی۔ کیسے تمہارا بازو تھامے بیٹھی تھی جیسے خرید کر لائی ہو۔ اردو بھی بولنی نہیں آتی۔ ق کو خ بولتی ہے۔ اور یہ اتّا وتّا کیا ہوتا ہے؟ ” ابا نے سمجھایا کہ حیدرآباد دکن کی بولی ایسی ہی ہوتی ہے۔

ہماری شادی ہو گئی۔ انتہائی سادگی سے۔ اتنی سادہ کہ اس نے نہ غرارہ پہنا، نہ مہندی لگائی نہ ٹیکا جھومر اور نہ ہی میں نے شیروانی پہنی۔ بقول امی کے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی کے پرسے میں آئے ہوں۔ تانیا کے ممی پاپا بھی کچھ نا خوش نظر آرہے تھے اور میرے گھر والے تو گویا زبردستی لائے گئے تھے۔ مہمان بھی گنے چنے تھے۔ شادی سے پہلے ہی ہم دونوں نے مل کر ایک اپارٹمنٹ لے لیا تھا۔ اس کے لیئے تھوڑا بہت فرنیچر خریدنا تھا۔ تانیا کے ساتھ گیا اور اس نے انتہا کردی۔ مہنگا اور اعلی معیار کا فرنیچر، پردے، کشنز، برتن، کراکری اور سجاوٹ کی ہزار دوسری چیزیں۔ میں پریشان ہو گیا۔ وہ بازو سے لگ کر بولی۔ ” پاپا نے پیسے دیئے ہیں۔ جہیز خریدنے کو” میں شرمندہ سا ہو گیا

اس نے گھر کو دل لگا کر سجایا۔ سارے کام خود کیئے۔ میں اس کی بے پناہ لگن اور توانائی دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا۔ پتہ نہیں کہاں سے اس میں اتنا اسٹیمنا آتا۔ شادی سے پہلے ہی ہمارا گھر سیٹ ہو چکا تھا۔ تانیا کے سلیقے اور محنت کا منہ بولتا ثبوت۔ وہ دو کمروں کا اپارٹمنٹ گھر بن گیا۔ اور گھر بھی ایسا جہاں کام سے واپسی پر جانے کو دل مچل جائے۔ اور گھر آ کر دن بھر کی تھکن اور کوفت دور ہو جائے۔ صبح پہلے وہ اٹھتی۔ فریش ہونے کے بعد وہ ناشتہ تیار کرتی۔ میں تیار ہو کر آتا اور اس کی مدد کرتا۔ ساتھ لے جانے کے لیئے سینڈوچ بناتے۔ پھر ہم اپنی اپنی گاڑیوں پر اپنے اپنے کام پر چلے جاتے۔ دن میں ایک دو بار فون کرتے یا مسیج بھیجتے۔ شام میں تقریبا ایک ہی وقت واپسی ہوتی۔ مل کر ڈنر بناتے۔ ٹی وی دیکھتے اور سو جاتے۔ ہفتے میں بار ہم امی ابو سے ملنے جاتے، تانیا بہت کوشش کرتی کہ اس کے تعلقات میرے گھر والوں سے اچھے ہو جایں۔ جب بھی جاتے وہ کچھ نہ کچھ لے کر جاتی۔ امی اکیلے میں بڑبڑاتیں” خریدنا چاہتی ہے ہمیں۔ اونھ۔ ہم بکاو نہیں ہیں” ایک بار ابو کے لیئے کڑھائی والے کرتے اور امی کے لیئے ساری لے کر آئی کہ انڈیا سے منگوائی ہیں۔ امی نے منہ بنایا لیکن ساری انہیں پسند بہت آئی۔

ایک دن صبح الارم بجا لیکن وہ نہ اٹھی۔ میں نے آواز دی ” حسن میرے سر میں درد ہے۔ آج گھر پر رہوں گی میرے آفس فون کر کے بتا دو پلیز” میں نے اسے چائے بنا کر دی اور آرام کی تاکید کر کے اپنے کام پو چلا گیا۔ فون کر کے اس کا حال پوچھا اس نے کہا وہ سونا چاہتی ہے میں بار بار فون نہ کروں۔ میں اس کی طبیعٹ کی وجہ سے ذرا جلدی گھر آ گیا۔ اس کی گاڑی باہر نہیں تھی، اسے گھر پر نہ پا کر پریشان ہو گیا۔ ابھی اسے فون کرنے ہی والا تھا کہ وہ لدی پھندی اندر داخل ہو ئی۔ میں حیرت کی تصویر بنا اسے دیکھتا رہ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں کئی شاپنگ بیگز اٹھائے ہوئے تھے۔ اور پھر ایک ایک چیز نکال کر مجھے دکھانے لگی۔ کرسٹل کے گلدان اور شمعدان، نیا کٹلری سیٹ، نئے کافی مگز اور بھی بہت کچھ۔ ” تم تو بیمار تھیں؟” “ہاں پھر طبیعت بہتر ہو گئی۔ سوچا شاپنگ پر چلی جاؤں۔ دل بھی بہل گیا۔ دیکھا نا کتنی پیاری چیزیں ہیں” وہ مگن تھی اور میں گم صم تھا۔ ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں تھی۔ گھر تو پہلے ہی بھرا پڑا ہے۔

پھر یہ تواتر سے ہونے لگا۔ کسی دن وہ توانائی سے بھرپور سارے کام نبٹاتی مجھ سے اپنی محبت اور چاہت کا اظہار کرتی اور کبھی سارا دن بستر پر لیٹی، ہر چیز سے غافل اور مجھ سے بیزار رہتی۔ ڈھیروں شاپنگ کرتی۔ میں اس ساری صورت حال سے پریشان تھا۔ ایک روز بلوں کی ادایئگی کرنے کمپیوٹر پر بیٹھا تو پیروں تلے زمیں نکل گئی۔ ہمارے جوایئنٹ اکاونٹ میں رقم نا کافی تھی۔ گھر کا کرایہ، گاڑیوں کی قسطیں، اور دوسرے بل۔ اور پھر امی ابو کو جو پیسے دینے تھے۔ یہ کہیں سے بھی پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ جس بجٹ پر میں نے اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کی وہ اب دھڑام گرنے کو تھی۔ تانیا سے بات کی تو اس نے لاپرواہی سے کہا” ہاں میں نے شاپنگ کچھ زیادہ کر لی تھی۔ بنک کو فون کر کے کہہ دوں گی کہ قسط اگلے ماہ دیں گے” ” اور میرے والدین؟ انہیں کیا کہوں؟” “انہیں دے دو کچھ کہہ دو اگلے ماہ زیادہ دے دیں گے” میں نے جیسے تیسے سب سنبھال لیا لیکن مجھے ہزار طرح کی فکروں نے گھیر لیا۔

وہ دو دن سے آفس نہیں گئی۔ اور ایک شام اس نے نہایت آرام سے مجھے کہا کہ اس نے جاب چھوڑ دی ہے۔ ” کیا؟” میرا سانس رک گیا۔ ” مجھ سے نہیں ہوتا یہ ناین ٹو فایئو جاب۔ وہی بور اور لگے بندھے کام۔ کوئی تخلیقی چیز نہیں کرنے کو”میں نے سر پکڑ لیا۔ “گھر کیسے چلے گا؟” ” کوئی بزنس کرتے ہیں۔ کچھ نیا سا کرتے ہیں۔ میں ایک ایپ بنانا چاہتی ہوں۔ ” اس کے منصوبے بڑے بڑے تھے۔ میں ایک معمولی خاندان کا معمولی سا بندا۔ ایک محتاط اور محفوظ زندگی کی خواہش رکھنے والا، نوکری اور گھر چلانا میری ترجیحات۔ میں کوئی رسک لینے والا شخص نہیں ہوں۔ اگلے کئی دن اس نے بستر پر پڑے گذارے۔ نہ بال بنائے، نہ کپڑے بدلے، نہ گھر کا کوئی کام کیا۔ نہ مجھ سے ڈھنگ سے بات کی۔ ایک روز جب وہ شدید غصے میں تھی اس کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے میں اس کے لیئے پانی لایا اس نے گلاس میرے منہ پر دے مارا۔ میرے ماتھے پر شیشہ لگا اور خون بہنے لگا۔ وہ کچھ گھبرائی پھر لاتعلق بن کر لیٹ گئی۔

اس رات میں نے تانیا کی اس حالت پر گوگل سرچ شروع کی۔ شک مجھے تھا اب یقین ہو گیا۔ میں رات گئے یہ سب کھنگالتا ریا، پڑھتا رہا اور پریشان ہوتا رہا۔ ساری علامات بائی پولر ڈس آرڈر کی تھیں۔

تیز تیز بات کرنا، ہزار قسم کے خیالات کا اظہار، کبھی لا محدود توانائی، کبھی بالکل نڈھال، کبھی بے انتہا خوش اور کبھی بہت افسردہ، حد سے زیادہ خوداعتمادی، غلط فیصلے لینا، کبھی بے انتہا محبت جتانا کبھی بیزاری، خریداری کا جنون، غیر محتاط ڈرایوینگ، اور ان کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ ان میں سے بہت سی علامات تانیا میں تھیں۔ یہ مرض دواؤں سے کنٹرول تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا مکمل علاج کوئی نہیں ہے۔

میں اس کے پاپا کے اسٹور میں ان کے آفس جا پہنچا اور سارا قصہ سنا ڈالا ان کے لیئے یہ سب نیا نہیں تھا۔ وہ اپنی بیٹی کی حالت اور بیماری سے واقف تھے۔ شرمندہ سے بھی لگے۔ “وہ اپنی دوا لینی چھوڑ دیتی ہے اس لیئے ایسا ہوا ہوگا۔ ہم سمجھے کہ تمہیں یہ بات پتہ ہو گی۔ ” جی نہیں تانیا نے کبھی نہیں بتایا۔ اب کیا میں خود پوچھتا کہ بھئی تمہیں بائی پولر بیماری تو نہیں ہے؟ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ وہ کوئی دوا بھی لیتی ہے” میں نے تلخی سے کہا۔ پھر میں نے ساری صورت حال سے انہیں آگاہ کیا۔ اپنی معاشی مشکلات بھی بتا دیں اور کہہ دیا “مجھے بہت دکھ اور افسوس ہے۔ لیکن اب اس طرح نہیں چل سکتا۔ “۔ وہ پریشان ہو گئے۔ گھنٹہ بھر ان سے بات کر کے میں چلا آیا۔ دوسرا پڑاؤ امی ابو کا گھر تھا۔ میں نے ہمت کر کے ساری بات بتا دی۔ دونوں نے تحمل سے میری بات سنی۔ خلاف امید امی نے کوئی تلخ بات نہیں کی۔ میں ہلکا ہو کر نکلا اور اب تانیا کا سامنا کرنا تھا۔ تانیا دیر تک میرے سینے سے لگی روتی رہی۔ سسکتی رہی۔

تانیا کے پاپا نے میرے آگے دو پیشکشیں رکھیں۔ پہلی یہ کہ جب تک تانیا دوبارہ جاب نہ کرلے وہ گھر اور گاڑیوں کی قسطیں ادا کرتے رہیں اور ساتھ ہی ہر مہینے کچھ رقم گھر کے خرچ کے لیئے ہمارے اکاو ئنٹ میں ڈالتے رہیں گے۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ ہم ان کے گھر منقل ہو جایں۔ میں نے دونوں رد کر دیں۔ اور تانیا کو لے کر امی ابو کے گھر آ گیا۔ انہوں نے ہمیں دل سے خوش آمدید کہا۔ میں نے اپنا اپارٹمنٹ خالی کردیا۔ سارا سامان بیچ ڈالا۔ تانیا کی گاڑی اس کے پاپا لے گئے۔ تانیا کے ڈاکٹر سے ایمرجنسی میں وقت لیا اور ساتھ گیا۔ کچھ ٹسٹ ہوئے اور دوا تجویز کر دی۔ دوا پابندی سے دینی تھی۔ کوئی ناغہ نہیں۔ میں خود اسے دوا کھلاتا۔ دن میں ہم میں سے کوئی بھی گھر میں نہیں ہوتا اس لیئے دوپہر کی ڈوز کے وقت میں اسے فیس ٹایئم کرتا۔ وہ دوا کھاتی اور منہ کھول کر مجھے دکھاتی تو مجھے تسلی ہوتی۔ امی تانیا کا بہت خیال رکھتیں، تانیا کی بھی ان سے دوستی ہو گئی۔ دونوں مل کر پاکستانی ڈرامے اور انڈین فلمیں دیکھتیں۔ اس پر اب بھی افسردگی کے دورے پڑتے۔ لیکن اب ان کی شدت میں کمی آ چکی تھی۔ چھے مہینے بعد اس کی حالت میں نمایاں تبدیلی نظر آنے لگی۔ دوائیں جاری تھیں اور اسے یہ دوائیں ساری عمر لینا تھیں۔

اس کا سارے کریڈت کارڈز میں قینچی سے کاٹ کر پھینک دیئے۔ صرف ایک ویزا کارڈ رہنے دیا لیکن اس پر بھی محدود خریداری کی جا سکتی تھی۔ گاڑی بھی اس کے پاس نہیں تھی۔ باہر جانا بھی کم ہو گیا۔

وہ اپنے ممی پاپا کے گھر جاتی۔ میں خود بھی اسے لے جاتا۔ ایک دن میں گھر آیا تو امی نے بتایا کہ تانیا اپنے والدین کے گھر گئی ہے۔ رات ادھر ہی رہے گی۔ میں نے فون کیا اس نے جواب نہیں دیا۔ رات گئے اس کا مسیج آیا “حسن میں اب مزید تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ میں طلاق اپلائی کر رہی ہوں۔ مجھے ہارڈ ٹایئم مت دینا۔ پیپپرز بھیج دوں گی ساین کر دیانا۔ میرا فیصلہ تم بدل نہیں سکتے۔ مجھ سے رابطہ مت کرنا” اور یوں ہم جدا ہوگئے۔ ہماری محبت کی کہانی انجام کو پہنچ گئی۔

یاد وہ بہت آتی ہے۔ آیئنے میں اپنی صورت دیکھتا ہوں تو ماتھے کے زخم پر ہاتھ پھیرتا ہوں۔ امی نے کل عجیب سی بات کہی۔ ” حسن تانیا نے تمہیں تمہاری خاطر چھوڑا ہے۔ وہ تمہیں اور امتحان میں ڈالنا نہیں چاہتی تھی ” شاید یہ بات صحیح ہو۔ کبھی ملے گی کہیں تو پوچھوں گا۔ اور یہ بھی پوچھوں گا” مجھے اتّا سا بھی مس نہیں کرتی ہو؟”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments