سب رنگ نگار خانہ: ایک خواب کی تعبیر


”سب رنگ ڈائجسٹ“ اور شکیل عادل زادہ کے ان گنت عاشق ہیں۔ انھی میں ایک حسن رضا گوندل کا نام نمایاں ہے۔ حسن کا تعلق منڈی بہا الدین سے ہے، لیکن روزگار کے سلسلے میں برمنگھم میں مقیم ہیں۔ دو ہزار سولہ کے آخری مہینوں میں حسن میرے پاس کراچی آئے۔ غرض یہ تھی کہ شکیل عادل زادہ سے ملاقات کی جائے، نیز انھیں اس بات پر قائل کیا جائے کہ ”سب رنگ ڈائجسٹ“ کی کہانیوں کو کتابی صورت میں شایع کیا جائے۔ ایسا کئی بار ہوا، جس کسی پبلشرز کے علم میں آتا، میرا شکیل عادل زادہ سے انس کا تعلق ہے، وہ مجھ سے ضرور یہ مطالبہ کرتا کہ ”سب رنگ ڈائجسٹ“ کی کہانیوں کو کتابی صورت میں شایع کرنے کی اجازت لے دوں۔ میں نے ایک پبلشرز سے پوچھا، کیا شکیل بھائی کو کچھ رقم دی جائے گی؟ جواب یہ رہا، بدلے میں، وہ میرا ناول مفت میں چھاپ دے گا۔ اس پیش کش سے اندازہ ہوتا ہے، ہمارے یہاں لکھنے والا اپنی کتاب شایع کروانے کے لیے جیب سے خرچ کرتا ہے۔ میں نے موصوف کو انھی کے لہجے میں جواب دیا، ”جب میں ناول لکھوں گا، تب آپ سے رابطہ کروں گا“ ۔

حسن پبلشرز نہیں ہے عاشق ہے، اس سے بھی میں نے یہی سوال کیا کہ اس کار کے نتیجے میں شکیل عادل زادہ کو کیا فائدہ دیا جائے گا؟ ہم دونوں نے کئی صورتوں پہ غور کیا، جن پر عمل کرتے شکیل عادل زادہ کو مالی فائدہ ہو سکے۔

ہم شکیل عادل زادہ کے گھر بیٹھے تھے اور شکیل بھائی مختلف فائلیں لا لا کے حسن کو دکھاتے جاتے۔ انھی فائلوں سے حسن کا لکھا خط نکال کے اسے دیا گیا کہ (بہ زبان عاشق) پڑھو۔ یہ اس دور کا لکھا خط تھا، جب حسن گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے۔ نا صرف حسن بلکہ مجھے بھی حیرانی ہوئی، شکیل بھائی نے بیس پچیس سال پرانا خط سنبھال کے رکھا ہوا ہے! پھر جس طرح شرما شرما کے حسن نے وہ خط پڑھا، وہ لمحہ شاید مجھے کبھی نہ بھولے۔

گئے دنوں ایک خط میں نے بھی لکھا تھا۔ ایک نہیں بلکہ دو۔ پہلے خط میں ”سب رنگ ڈائجسٹ“ میں چھپنے کو ایک افسانہ بھیجا تھا۔ بائیس تئیس برس پہلے کی بات ہے۔ جب میری شکیل عادل زادہ سے پہلی ملاقات ہوئی تو انھوں نے وہ لفافہ مجھے یہ کہتے تھما دیا، اس افسانے پر نظر ثانی کرو۔ اس وقت بھی مجھے حیرت ہوئی تھی کہ انھوں نے یہ لفافہ سنبھال کے رکھا ہے! ڈسٹ بن کی نذر کیوں نا کیا؟ میری بڑی بڑی خواہشوں میں سے ایک یہ تھی کہ میری لکھی کہانی ”سب رنگ ڈائجسٹ“ میں چھپ جائے، تا کہ اپنی نظر میں معتبر ٹھیریں (اب بہت سی خواہشیں مر گئی ہیں۔ شکیل عادل زادہ نے ایک بار کچھ ایسا کہا تھا، ”ایک زمانے میں اپنا لکھا، چھپا دیکھ کے خوشی ہوتی تھی، اب نہیں ہوتی۔ یہ خوشی قائم رہنی چاہیے، ورنہ لکھنے کی امنگ مر جاتی ہے“ ) ۔ میں نے اس افسانے پر دس بارہ برس بعد نظر ثانی کی۔ ان دنوں میں ایک ٹی وی سیریل لکھ رہا تھا، نہ جانے اس شب سر پہ کیا بھوت سوار ہوا کہ سب چھوڑ کے بارہ سال پہلے کے افسانے کو مکمل کیا۔ تب میں کراچی میں مقیم تھا۔ اگلے روز وہ افسانہ شکیل عادل زادہ کو جا دکھایا۔ اس بار اس افسانے کو سراہا گیا، جو کبھی نظر ثانی کا کہ کے لوٹا دیا گیا تھا۔ 2009 ء میں ”سب رنگ ڈائجسٹ“ قصہ پارینہ بن چکا تھا، لہذا اشاعت کا کیا سوال۔

اس پہلی ملاقات کے بعد پنڈی آ کے شکیل بھائی کو ایک خط لکھا۔ خط کیا تھا، محبت نامہ سمجھیے۔ حسن رضا گوندل خط پڑھتے شرمائے جاتے تھے، تو میں شکر ادا کر رہا تھا، میں حسن کی جگہ نہیں کہ محبوب اپنے نام لکھا خط بلند آواز میں پڑھنے کو تھما دے۔ شکیل عادل زادہ سے پہلی ملاقات کے بعد جب میں نے ان کے نام محبت نامہ لکھا تھا تو اس کے بعد معشوق سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ سال میں ایک دو بار کراچی جانا ہوتا۔ یہ ممکن نہ تھا، میں کراچی جاؤں اور شکیل عادل زادہ سے ملاقات نہ ہو۔ عقیدت مند کراچی آئیں تو پہلے عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دیتے ہیں، پھر اپنے کام پر نکلتے ہیں۔ میں کراچی پہنچتے پہلے شکیل عادل زادہ سے ملاقات کرتا، پھر اپنے کام کی خبر لیتا تھا۔ میرے احباب نے ”سب رنگ ڈائجسٹ“ کے دفتر کو میرا ”دربار“ قرار دے رکھا تھا، جہاں مرید حاضری نہ دے تو اس کا ایمان جاتا رہتا ہے۔

شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ مجھے میرا لکھا خط پڑھنے کے امتحان میں نہ ڈالا گیا۔ پھر مرشد بھی تو جانتا ہے، کون سے عقیدت مند کی حد کیا ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے میرا لکھا خط ان فائلوں میں محفوظ نہ ہو۔ چوں کہ حسن رضا گوندل کی محبوب سے یہ پہلی ملاقات تھی، تو معشوق نے خط دکھا کے جتلایا ہو گا، ”ایسا نہیں کہ ہم عاشقوں کو بھولنے والوں میں سے ہیں“ ۔

حسن رضا گوندل کی اس پہلی ملاقات کا مقصد دلبر سے ملاقات ہی نہیں، ”کہانیوں“ کی اشاعت کی منظوری لینا بھی تھا۔ شکیل عادل زادہ صاحب محبت کو ناراض نہیں کرتے، بس بہلا دیتے ہیں۔ بہلاتے بھی اس خوب صورتی سے ہیں کہ چاہنے والے کو احساس بھی نہیں ہوتا، انکار ہو چکا ہے۔

میں چاہتا تھا، یہ کہانیاں کتابی صورت میں آئیں، لیکن شکیل بھائی کے ممکنہ اعتراضات معلوم تھے۔ گھر کا بھیدی ہونے کے ناتے سے حسن رضا گوندل سے خوب تیاری کروائی کہ وہ یہ کہیں گے، تو تمھارا یہ جواب ہونا چاہیے۔ میرے کہنے پر حسن نے کتابی صورت کے پہلے مجموعے کی کہانیوں کا انتخاب کر رکھا تھا۔ شکیل بھائی کو اپنے ہر اعتراض کا شافی جواب ملا، تو آخر میں ان نے یہ کہا، ہم نے او ہنری، ہنری سلیسر، موپساں کی بہت سی کہانیاں شایع کی ہیں۔ ایسا کیجیے کہ اس کتابی سلسلے کو مصنف کی کہانیوں کے اعتبار سے ترتیب دیجیے۔ حسن کو اسے اپنی کام یابی سمجھ کے اٹھا، لیکن مجھے مایوسی ہوئی کہ چلو یہ خواب بھی غارت ہوا۔ گھر لوٹتے حسن اپنا اگلا لائحہ عمل بیان کر رہا تھا کہ اب یہاں سے منڈی بہا الدین جاؤں گا، پھر برمنگھم، شکیل بھائی کی فرمایش کے مطابق دو تین مجموعوں کا سامان لے کے فروری میں کراچی آ جاؤں گا اور پھر۔ ۔ ۔

حسن ایسے ہی سپنے دیکھ رہا تھا، ہم ڈیفینس سے ملیر کینٹ جاتے حسن اسکوائر کے آس پاس تھے کہ میں نے اس کی بات بیچ میں کاٹ دی، ”چھاپنا ہے تو چھاپ دو، شکیل بھائی کبھی اجازت نہیں دیں گے۔ انھوں نے تمھیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہے“ ۔ حسن کو میری بات سمجھ آ گئی، اور وہ خاموش ہو گیا۔ ممکن ہے سمجھ نہ آئی ہو، اس نے مجھ سے بحث کرنا غیر مناسب جانا ہو۔

عقیل عباس جعفری، شکیل عادل زادہ کے بہت قریب ہیں۔ اتنے قریب کے شکیل بھائی نے ایک بار مجھ سے کہا، ”میں اپنی سب کتابیں عقیل کو دے جاؤں گا“ ۔ عقیل عباس جعفری نے مجھ سے کہا، میں نے ”سب رنگ ڈائجسٹ“ میں چھپنے والے تمام اداریوں کو یکجا کیا ہے، تم شکیل بھائی سے کہو، مجھے کتابی صورت میں اشاعت کی اجازت دے دیں۔ عقیل بھائی نے یہ فرمایش ہر اس سے کی، ان کے تئیں دربار میں جس جس کی شنوائی ہوتی ہو گی۔ میں نے شکیل عادل زادہ سے بات کی، تو جواب تھا، یہ اس دور کے حساب سے تھے، آج کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ عقیل بھائی کو جواب سے آگاہ کیا، تو ان کا پیش کیا نکتہ اہم لگا۔ ”ان اداریوں کا آج کے حالات سے متعلق ہونا اہم نہیں، رکارڈ پر لانا ضروری ہیں“ ۔ میں عقیل بھائی کے کہے سے قائل ہوا۔ دوسری بار شکیل بھائی سے کہا، تیسری بار کہا، وہ پھر بھی نہ مانے۔ اس واقعے کا ذکر کرتے، میں نے حسن کو بتا دیا کہ تمھیں بھی اجازت نہیں ملنے والی۔

حسن اور میں نے مختلف طریقوں پر غور کیا کہ کیوں کر یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ ان چار برسوں میں کتنی بار جنگی حکمت عملی نہ بدلی ہو گی، کتنی بار بد دلی کا شکار نہ ہوئے ہوں گے، لیکن حسن مورچے میں ڈٹا رہا۔ گزشتہ دسمبر اور جنوری کا پہلا ہفتہ کراچی میں گزرا۔ حسن کا اصرار تھا فروری تک کراچی میں ٹھیرنا، میں پاکستان آؤں گا، تو شکیل بھائی پہ پھر دباؤ ڈالیں گے۔ مجھے بوجہ واپس آنا پڑا۔ حسن پاکستان آیا تو مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے جواب دیا، اس بار اکیلے جاؤ، اور شکیل بھائی سے کہنا، میں نے یہ کہانیاں منتخب کر لی ہیں۔ آپ اس پہ نوٹ لکھ دیں تو ٹھیک، ورنہ میں انھیں چھاپنے چلا ہوں۔

جنوری 2020 ء، عقیل عباس جعفری، زاہد کاظمی اور میں کراچی آرٹس کونسل کی کینٹین میں بیٹھے تھے۔ ذکر چل نکلا انھی اداریوں کا، تو میں نے عقیل بھائی کو یہی مشورہ دیا، اب کے پوچھیے نہیں، چھاپ دیجیے۔ اور چھاپ کے بھائی شکیل کو کتاب کا ایک نسخہ دے آئیں۔

جیسا کہ میں نے کہا، میں گھر کا بھیدی ہوں، بھائی شکیل ایسے وضع دار ہیں کہ کھل کے انکار نہیں کر پاتے۔ میرا خیال تھا، انھیں ایسے مان سے کہا جائے گا تو مفر نہ پائیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ قصہ مختصر، حسن رضا گوندل نے یہ کارنامہ سر انجام دے دیا، جس کے لیے وہ چار سال سے کوشش کر رہے تھے۔ ”سب رنگ ڈائجسٹ“ سے منتخب کہانیوں کا پہلا مجموعہ ”بک کارنر، جہلم“ کے تعاون سے اشاعت پذیر ہو کے مارکیٹ میں آ چکا۔ اب مجھے دیکھنا یہ ہے کہ عقیل عباس جعفری کب اور کیوں کر حسن رضا گوندل جیسی جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments