اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے؟


کورونا دنیا کے تمام براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ایسا وائرس آیا ہے کہ نہ صرف براعظم اس سے متاثر ہوئے ہیں بلکہ ہر وہ نام جہاں جہاں ”اعظم“ نے بسیرا کیا ہوا ہے اس وقت برے حالات سے دوچار ہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ”طبی جلاوطنی“ کا شکار ہیں جبکہ سید یوسف رضا گیلانی کے پیچھے سنتھیارچی ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہیں اور راجہ پرویز اشرف نیب کے رحم وکرم پر ہیں البتہ قائد اعظم کے قدردان ہر جگہ اور ہر سطح پر موجود ہیں۔ پاکستان میں اس وقت وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھ موجود اعظم خان اور پھر تقریباً جبری ریٹائر ہونے والے اعظم سلیمان بھی بھنور میں پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت کے اندرونی اختلافات کی خبریں پہلے صرف اخبارات کی حد تک تھیں لیکن اب یہ اختلافات ایک کھلے راز کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ پیر کو وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی۔ فواد چوہدری نے جو انٹرویو دیا وہ انٹرویو سے زیادہ خبر تھی۔ انہوں نے راز افشا کیا ہے کہ جہانگیر ترین نے اسد عمر کو فارغ کروایا اور اسد عمر نے جہانگیر ترین کو فارغ کروا کر حساب برابر کر دیا۔ فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے پاس اب چھ ماہ ہیں حالانکہ آئینی طور پر حکومت کے پاس تقریباً تین سال باقی ہیں لیکن وزراء اور مشیروں کی آپس میں لڑائیوں نے حکومت کی چونچ اور دم دونوں گم کردی ہیں اس لئے حکومت اب مکمل طور پر دم کٹی ہے۔

فواد چوہدری نے بیوروکریسی کی لڑائیوں اور اختیارات سے تجاوز بارے بھی ذکر کیا ہے۔ جب جہانگیر ترین کے خلاف شوگر سکینڈل رپورٹ لیک ہوئی تو راجہ ریاض ایم این اے ترین کے حق میں میدان میں آگئے تھے اور ان کا بیانیہ تھا کہ رپورٹ لیک کرنے میں اعظم خان اور شہبازگل کا ہاتھ بھی ہے۔ اعظم خان نے سابق وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان کے خلاف بھی سازشوں کے تانے بانے تیار کیے اور محترمہ فردوس عاشق اعوان حقائق بیان کرنے کے لئے تین دفعہ پریس کانفرنس کا وقت دے کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئیں۔

اعظم خان نے چیف سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان کو ہٹوایا تو وہ لاہور ہائیکورٹ چلے گئے تھے لیکن پھر اعظم خان نے انہیں سلو پوائزننگ کے ذریعے ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیا۔ پہلے انہیں سیکرٹری داخلہ کے عہدے کے لئے راضی کیا اور پھر انہیں کام نہیں کرنے دیاگیا چنانچہ وہ قبل از وقت ریٹائر ہوگئے۔ گزشتہ روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس نے حکومت کو ننگا کر دیا ہے اور اب قوم جانتی ہے کہ 50 لاکھ گھروں کا لولی پاپ اور ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کرنے والی حکومت کے مشیر اور وزیر دست وگریباں ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب قوم کو کورونا، ٹڈی دل، مہنگائی اور بے روزگاری جیسی خوفناک وباؤں کا سامنا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کی سڑکوں پر حکومتی مشیروں، وزیروں اور بیوروکریسی کی لڑائیوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں، سیکرٹری اسٹبلشمنٹ اعجاز منیر جو کہ فواد حسن فواد کے شاگرد خاص مشہور ہیں اس وقت بہت اہم ہوچکے ہیں کیونکہ وہ اعظم خان کو وزیراعظم آفس سے نکال کر یا تو اس جگہ خود بیٹھنا چاہتے ہیں اور یا پھر اپنے کسی خاص با اعتماد ساتھی کو لانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے لئے جو سمری چار ماہ قبل بھجوائی گئی تھی اس میں اعجاز منیر، ڈاکٹر سید پرویز عباس اور معروف افضل کے نام شامل تھے۔ ان میں معروف افضل ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ ڈاکٹر سید پرویز عباس کو سیکرٹری سینیٹ لگایا جاچکا ہے۔ لہٰذا اب واحد امیدوار سیکرٹری اسٹبلشمنٹ اعجاز منیر ہی رہ جاتے ہیں۔

سیکرٹری داخلہ کے لئے اس وقت محمد علی شہزادہ، احمد نواز سکھیرا، افضل لطیف اور ڈاکٹر جہانزیب کے نام لئے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم سیکرٹریٹ میں اس خبر کی تصدیق بھی موجود ہے کہ وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن کو ”گرہن“ لگ چکا ہے اور ان کا استعفی آ چکا ہے اور مناسب وقت پر منظور کر لیا جائے گا۔ ندیم افضل چن کے استعفی کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ”چن“ سورج کے سامنے آ گیا تھا جس سے سورج کو گرہن لگا اس لئے ”چن“ سے استعفی لیا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان اب اپنے اقتدار کے مشکل ترین دور میں داخل ہو چکے ہیں کیونکہ اراکین پارلیمنٹ کو اکٹھا کرنے کے لئے جس جہانگیر ترین نے اپنے جہاز کا بے دریغ استعمال کیا تھا وہ لندن سدھار چکے ہیں اور وہ اس وقت اسی فضا میں سانس لے رہے ہیں جس میں میاں نواز شریف سانس لے رہے ہیں۔ حکومتی چوبارے میں سے ایک پارٹی اڑان بھر چکی ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) شکوؤں سے بھری پڑی ہے اور پی ٹی آئی کے اپنے اراکین اپنی قیادت کے خلاف غصے سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان تمام تر حالات کے باوجود اس حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے تاکہ کسی کو یہ گمان نہ رہے کہ کپتان کو اگر کام کرنے دیا جاتا تو دودھ کی نہریں دریافت ہونے ہی والی تھیں۔ لہٰذا خدارا اس حکومت کو مدت پوری کرنے کے لئے رضاکارانہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی بھی حمایت دلائی جائے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments