ترک ڈراما آتے ہی پاکستانی ڈرامے میں کیڑے نظر آنے لگے؟


جب سے ترک ڈراما ارطغرل غازی پی ٹی وی سے آن ائر جانا شروع ہوا ہے، عوام اور ادبا و قلمکار اس کے گن گاتے اور تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔ سوشل اور ویب میڈیا پر اس کا موازنہ موجودہ پاکستانی ڈراموں سے کر کے مقامی مواد کے خلاف گویا ایک محاذ کھول لیا گیا ہے۔ ہمارے لالی وڈ کے فلمی ہیرو شان شاہد کو اس بات پر بے جا تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جب انہوں نے ترک ڈرامے کے ریاستی ٹی وی پر آن ائر جانے کی مخالفت کی تو ٹویٹر پر کچھ صارفین نے یہاں تک کہہ دیا کہ شان شاہد خود تو گجروں اور جٹ کے کرداروں کے علاوہ کچھ کر نہیں سکے، اب ایک اعلیٰ درجے کا ترک ڈراما دکھایا جا رہا ہے تو ان سے ہضم نہیں ہو رہا۔ اگر ایسا ہی ہے تو شان خود کچھ کر کے دکھا دیں۔ یعنی ایک غیرملکی ڈرامے کے مقابلے پر اپنے ملکی ہیروز پر تنقید ہو رہی ہے۔ واہ! یہ عزت و اعزاز یقیناً دنیا میں صرف پاکستانی عظیم قوم کے نصیب میں ہی آیا ہے۔

یہ بجا ہے کہ مذکورہ ترک ڈراما دنیا کے مختلف ممالک میں کامیابی حاصل کر چکا ہے اور ترکی ایک برادر اسلامی ملک ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنے ملک کے فنکاروں کی گردن پر پاؤں رکھ کر یہ ڈراما ہمارے ہاں چلا دیا جائے۔ میں نے پہلے بھی اسی بنا پر مخالفت کی تھی کہ صرف پاکستانی چینل پر یک طرفہ طور پر غیرملکی ڈراما آن ائر کر دینا غلط ہے جبکہ دوسرے ممالک پاکستانی ڈراما یا فلم کو گھاس نہ ڈالیں۔ اس پر کچھ غیرت مند پاکستانی تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ پاکستانی فلم اور ڈراما اس قابل نہیں کہ کوئی اسے اپنے ملک میں چلائے۔

اچھا، تو پھر یہ بھی بتا دیجئے کہ غیرملکی ڈراموں کے معاملے میں آپ کا اپنا کیا معیار ہے؟ میرے خیال میں غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں کا کوئی معیار نہیں ہوتا اسی لئے تو عشق ممنوع جیسا گھٹیا ڈراما بھی یہاں مقبولیت حاصل کر گیا۔ البتہ ارطغرل غازی کا معیار اس سے کچھ بہتر ہے۔ خیر، وزیراعظم پاکستان جس نے کروڑوں روپے میں ترک ڈراما خریدا، کیا اس نے بدلے میں کوئی پاکستانی کلاسک ڈراما ترکی میں آن ائر کرنے کی بات کی؟ یقیناً نہیں، کیونکہ ایسی باتوں کے لئے نہ صرف خودداری و غیرت چاہیے بلکہ دوطرفہ معاملات اور تجارت کی سمجھ بھی۔ اور وزیر اعظم موصوف فی الحال ان دونوں خصوصیات سے بے بہرہ نظر آتے ہیں۔

اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتی ہوں : ترک ڈراما دیکھنے کے بعد پاکستانی ڈراموں میں کیڑے کیوں نظر آنے لگے؟ جبکہ اس سے پہلے وہی پاکستانی ڈرامے پسندیدگی اور ریٹنگ کے نئے ریکارڈز قائم کر رہے تھے۔ اس کی سب سے بڑی اور یادگار مثال ”میرے پاس تم ہو“ ہے۔ اگر پاکستانی ڈرامے پر یہ اعتراض ہے کہ یہ رشتوں کا تقدس پامال کر رہے ہیں تو کیا ”میرے پاس تم ہو“ میں رشتوں کے تقدس میں اضافہ دکھایا گیا تھا؟ اگر ناظرین ایسا ہی ازدواجی مسائل اور غیر ازدواجی و غیر اخلاقی تعلقات اور معاشقے دیکھ دیکھ کر تنگ آ گئے ہیں اور معاشرے پر ایسے ڈراموں سے نہایت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو کیا مہوش اور شہوار جیسے کرداروں نے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کیے تھے؟

تب پاکستانی ڈرامے میں کیڑے کیوں نہ نظر آئے جب ہر ہفتے کی شب آٹھ بجے کے بعد میرے پاس تم ہو کا ٹویٹر پر ٹرینڈ بنا کرتا تھا؟ کیا ”دو ٹکے کی لڑکی“ والے ڈائیلاگ نے معاشرے کی مڈل کلاس لڑکیوں کو بہت عزت بخشی اور ان کے کردار کی درست ترجمانی کی تھی؟ اس غیراخلاقی مکالمے کو مزے لے لے کر شیئر اور عورت کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے والے مڈل کلاس مردوں کی حیا اور اخلاقیات اس وقت حج کی سعادت حاصل کرنے گئی ہوئی تھی؟

جن لوگوں کو آج عشقیہ، جلن، پیار کے صدقے، دلربا، دیوانگی جیسے ڈراموں میں بے حیائی و بے راہ روی نظر آنے لگی ہے اور وہ ان کے خلاف جاہلوں کی طرح بغیر سوچے سمجھے صرف مخالفت برائے مخالفت اور تنقید برائے تنقید کر رہے ہیں، وہ پہلے ”میرے پاس تم ہو“ کو سر آنکھوں پر کیوں بٹھاتے رہے؟ اور اس سے بھی پہلے کی بات ہے، پاکستانی ڈرامے میں بے حیائی اور فحاشی پر نوحہ کناں لوگوں کی شرم و حیا اور اخلاقیات اس وقت کہاں مری تھی جب چھوٹے چھوٹے بچے ”منی بدنام ہوئی“ گاتے پھرتے تھے؟

جب انہی لوگوں کے گھروں میں شیلا کی جوانی اور چکنی چنبیلی کے مجرے بصد شوق دیکھے جاتے تھے، اس وقت اخلاقیات اور حیا قبر میں سو رہی تھی؟ جب آپ کے گھروں کی معزز بیبیاں گھٹیا بھارتی سوپ سیریلز کے چکر میں ہنڈیا جلا بیٹھتی تھیں، اس وقت شاید آپ جیسے عزت دار افراد تنقید اور مخالفت جیسی چیزوں سے واقف نہ تھے۔

اگر پاکستانی ڈرامے ایسے ہی برے، اخلاق سے عاری، اور معاشرے میں انحطاط پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں تو انہیں دیکھنا کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ سیدھا سا حل ہے۔ جب موجودہ ڈراما پسندیدگی، ریٹنگ، اور ویوز حاصل نہ کر سکے گا تو خود ہی ٹی وی چینلز اپنی روش بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہاں تو منافقت کی حد ہے، ڈراما دیکھنا بھی ہے اور پھر برائی بھی کرنی ہے۔ غالباً ڈراما دیکھا ہی اس لئے جاتا ہے تاکہ بعد میں اس کی برائی کی جائے، کیونکہ برائی، مخالفت اور تنقید کرنے اور سوشل میڈیائی سقراط بننے کے لئے ڈراما دیکھنا بھی تو ضروری ہے۔ پھر ایسے ڈراموں اور یکسانیت زدہ کہانیوں اور کرداروں پر رونا کیسا جب دیکھے بغیر رہا نہیں جاتا؟ ”میرے پاس تم ہو“ پر کس قدر تنقید ہوئی لیکن ناقدین نے بھی اس کی کوئی قسط چھوڑی تو نہ ہو گی۔

سب سے اہم بات، واٹس ایپ، سوشل میڈیا، اور ویب میڈیا کے تھرڈ کلاس سقراط بقراط نما فلسفیوں نے کبھی پاکستان اور ترکی میں ڈراما پروڈکشن اور میڈیا کے حالات و واقعات کے درمیان پایا جانے والا فرق جاننے کی زحمت گوارا کی ہے؟ نہیں، تو اب کر لیں۔ کیا ان لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ سپانسرز بھی ڈراموں کی کہانیوں، کرداروں، اور کاسٹنگ پر اثرانداز ہوتے ہیں؟ جن ڈراموں میں بڑے برانڈز کے ملبوسات اور دیگر اشیاء استعمال کی جاتی ہیں، کیا وہ سپانسر کرتے وقت کاسٹنگ، کہانی، اور کہانی نویس کو نہیں دیکھتے ہوں گے؟ مارکیٹنگ، اشتہارات، اور سپانسرشپ کن بلاؤں کے نام ہیں، یہ معلومات نہیں ہیں تو براہ کرم لکھنے اور بولنے سے پہلے جان لیں۔ تحقیق اور علم کے بغیر مخالفت صرف بے عزتی کا سبب بنتی ہے۔

پاکستانی ڈراما جس طرح کل دیکھا جاتا تھا، ترک ڈراما آنے کے بعد بھی اسی طرح آن ائر ویوز اور یوٹیوب ویوز لے رہا ہے اور آئندہ بھی لیتا رہے گا۔ جن کو پاکستانی ڈراموں سے ایسی ہی پریشانی اور تکلیف ہے، وہ اپنے گھروں سے کیبل ہی کیوں نہیں اتروا دیتے؟ اب یہ نہ کہیے گا کہ کیبل اتروا کر ترکی کا ڈراما نہیں دیکھ سکیں گے، کیونکہ وہ تو زیادہ تر یوٹیوب پر دیکھا جاتا ہے۔

دوسری بات، ترکی کا وزیراعظم اور حکومت کبھی اپنے ریاستی ٹی وی چینل پر غیرملکی مواد نشر نہیں کریں گے کیونکہ انہیں اپنے ملک کی انڈسٹری کا مفاد عزیز ہے۔ وہ پاکستانی عوام اور حکومت کی طرح جاہل اور جذباتی نہیں جو اسلام کے نام پر کوئی بھی گھٹیا کوالٹی کا چورن یا منجن خریدنے پر پیسے ضائع کریں۔ یہ اعلیٰ کردار پاکستان کی ہی حکومت اور عوام کو نصیب ہوا ہے۔ غیرملکیوں کو سر آنکھوں پر بٹھانا، چاہے بدلے میں کوئی تھوکنا بھی گوارا نہ کرے، پاکستانیوں ہی کا خاصہ ہے۔

ترک وزیراعظم کو ذرا ایک ٹویٹ تو کیجئے کہ انکل، آپ کا اعلیٰ شاہکار ارطغرل غازی ہمارے چینل پر چلایا جا رہا ہے جس سے آپ کو کروڑوں کی کمائی ہو رہی ہے، بدلے میں آپ بھی کچھ کرم فرمائیے اور ہمارا بھی ایک آدھ ڈراما اپنے چینل پر چلا کر شکریہ کا موقع دیں۔ پھر دیکھیں، ترک وزیراعظم آپ کو جواب میں جو تحفہ بھیجے گا، اسے ترکی کی محبت کی نشانی کے طور پر گلے میں پہن لیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments