ٹام آلٹر: امریکی نژاد بھارتی اداکار جس نے مولانا آزاد جیسے کردار ادا کیے


بھارتی فلموں میں گورے عام طور پر عیار، مکار اور بے رحم دکھائے جاتے ہیں مگر ٹام آلٹر نے یہ تصور بدل دیا۔ آلٹر سن دو ہزار انیس میں ممبئی کے ایک ہسپتال میں سڑسٹھ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اگر وہ مزید زندہ رہتے تو یقیناً بھارتی سینما کے ایک عظیم بابے کے طور پر جانے جاتے اور بزرگان بالی ووڈ میں شمار ہوتے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی چالیس سالہ فلمی زندگی میں جو کچھ حاصل کیا وہ انہیں ایک شاندار اداکار اور تھیٹر کا بہترین فن کار بنانے کے لیے کافی تھا۔

ٹام آلٹر کے باپ دادا، امریکی پادری تھے جو مسیحیت کی تبلیغ کے لیے ہندوستان میں آباد ہو گئے تھے مگر ٹام آلٹر اداکار بن گئے۔ وہ بہت سی صلاحیتیوں کے مالک تھے اور اداکاری کے علاوہ ایک قلم کار، پروڈیوسر، ٹی کے میزبان، کالم نگار اور کرکٹ کے ماہر کے طور پر بھی پہچانے گئے۔

ٹام آلٹر نے 300 سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں مشہور ترین فلموں بھی شامل تھیں مثلاً عاشقی، رام تیری گنگا میلی اور پرندہ۔ مگر غالباً ان کی سب سے زیادہ متاثر کن اداکاری تاریخی فلموں اور ڈراموں میں ہے۔ ذرا سوچیے کیا آپ کوئی ایسا اسٹیج ڈرامہ دیکھنا چاہیں گے جو ڈھائی گھنٹے طویل ہو جس میں بہت کم چیزیں اسٹیج پر ہوں اور جس میں صرف ایک اداکار ہو اور وہ بھی ایک مولانا کا کردار ادا کر رہا ہو، لیکن اگر وہ واحد اداکار ٹام آلٹر ہو اور مولانا ابوالکلام آزاد ہوں جو بلاشبہ بیسویں صدی کے عظیم ترین ہندوستانی رہ نماؤں میں تھے تو پھر آپ اس ڈرامے میں پلک بھی نہیں جھپک پائیں گے۔

اردو ڈرامہ ”مولانا آزاد“ ڈاکٹر سعید عالم نے لکھا اور پیش کیا جو یوٹیوب پر دستیاب ہے اور باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

اس ڈرامے کو بھارتی تھیٹر کی دنیا کے عظیم ترین ڈراموں میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ جس میں ٹام آلٹر نے نہ صرف مولانا آزاد کی شخصیت کو بل کہ ان کے علم و شعور کو اور ان کے عہد کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔

یقیناً اس کارنامے کا سہرا ڈاکٹر سعید عالم اور ٹام آلٹر کے سر ہے جنہوں نے ایسی شاندار تخلیق پیش کی۔ ڈاکٹر سعید عالم پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر تھے مگر پھر ان کا لکھنے لکھانے کا شوق اور تھیٹر کا جنون انہیں اداکاری اور ہدایت کاری تک لے آیا۔ اب تک وہ چالیس سے زیادہ اسٹیج ڈرامے پیش کرچکے ہیں جن کو مجموعی طور پر ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مرتبہ اسٹیج کیا جا چکا ہے۔

ان کے ڈراموں میں مولانا آزاد کے علاوہ ہمیں بڑے شعرا مثلاً داغ، غالب، حسرت، اقبال اور میرا جیسے لوگ بھی مل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید عالم کو ٹام آلٹر بہت پسند تھے اور ان کے بہت سے ڈراموں میں اداکاری کرچکے تھے۔

ڈرامے ”مولانا آزاد“ میں ٹام آلٹر اپنے سیکریٹری ہمایوں کبیر کو اپنی کتاب ”انڈیا ونز فریڈم“ لکھوا رہے ہیں۔ اس ڈرامے کے بہترین حصے وہ ہیں جن میں مولانا اپنے عام سیاسی بیانیے سے ہٹ کر اپنی زندگی کے دیگر واقعات سناتے ہیں مثلاً جیل کی اسیری کے ٹکڑے اور مختلف شعرا کے ساتھ ملاقاتیں بھی شامل ہیں اور رقص و موسیقی کی باتیں بھی۔ اس ڈرامے میں مولانا آزاد کا کردار نبھاتے ہوئے ٹام آلٹر اتنی خوبصورتی سے غالب، داغ اور جوش کے اشعار پڑھتے ہیں کہ اردو والے بھی شرما جائیں۔ ان کا اردو لہجہ، فارسی و عربی الفاظ کا تلفظ اور اتار چڑھاؤ اتنا دل خوش کش ہے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ٹام آلٹر کی اردو اور ہندی سے محبت بے مثال تھی جس کا ثانی ہندی سینما میں بھی مشکل سے ملے گا۔

ویسے تو بہت سے امریکی اور برطانوی اسکالر رہے ہیں جنہوں نے یہاں کی مقامی زبانوں کو سمجھا اور ان پر تحقیق بھی کی مگر ایک اداکار کے لیے زبانوں سے اتنی محبت اور لگاؤ ایک غیر معمولی بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلموں کی عکس بندی کے دوران بہت سے بھارتی اداکار اپنے مکالموں کی درست ادائیگی کے لیے ٹام آلٹر سے مدد لیا کرتے تھے اور اپنا تلفظ درست کرایا کرتے تھے۔

ٹام آلٹر کی اردو دانی کا فلموں میں پہلا مظاہرہ فلموں میں اس وقت ہوا جب 1977 میں بنگالی ہدایت کار ستیہ جیت رے نے اپنی واحد اردو فلم ”شطرنج کے کھلاڑی“ کے لیے کاسٹ کیا۔ یہ فلم منشی پریم چند کی ایک کہانی پر مبنی ہے اور اس میں سنجیو کمار، سعید جعفری اور شبانہ اعظمی نے نمایاں کردار ادا کیے ہیں

اس فلم میں ٹام آلٹر کی اردو شاعری کی ادائیگی اور اس کا انگریزی میں ترجمہ خاصے کی چیز ہے۔ ایک منظر میں عظیم برطانوی اداکار رچرڈ اٹین برا جنرل اوٹرم کا کردار ادا کر رہے ہیں جو اودھ پر امیٹ انڈین کمپنی کے قبضے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ وہ اپنے معاون ٹام آلٹر سے نواب اودھ واجد علی شاہ کی شاعری سمجھنا چاہتا ہے اور کچھ اردو الفاظ کے معنی پوچھتا ہے جیسے بلبل اور معاشرہ۔ اب ٹام آلٹر اپنی اردو دانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزل کے اشعار پڑھتے ہیں۔

”صدمہ نہ پہنچے کوئی مرے جسم زار پر
آہستہ سے پھول ڈالنا میرے مزار پر ”

ٹام آلٹر کی بہترین اداکاری کا ایک اور نمونہ ہمیں کیتن مہتا کی فلم ”سردار“ میں ملتا ہے۔ جو 1993 میں بنائی گئی۔ یہ فلم سردار ولبھ بھائی پٹیل کی زندگی پر مبنی ہے۔ جس میں ٹام آلٹر نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کردار نبھایا ہے جو کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنماؤں سے آزادی کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ یہ فلم تقریباً تین گھنٹے کی ہے جس میں ٹام آلٹر دوسرے گھنٹے میں نمودار ہوتے ہیں اور چھا جاتے ہیں۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے کردار میں ٹام آلٹر حالات واقعات کو اپنے رخ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور کامیاب بھی رہتے ہیں۔ ایک طرف تو خود کو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا مخلص اور ہم درد ثابت کیا جاتا ہے اور دوسری طرف پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ہندوستان ایک متحد ملک کے طور پر آزادی حاصل نہ کرپائے۔

ٹام آلٹر اداکاری کے علاوہ ٹی و اور اسٹیج کے بھی بادشاہ تھے لیکن غالباً ان کی بہترین کارکردگی اسٹیج کے ڈراموں میں ہی نکھر کر آتی ہے۔ ”مولانا آزاد“ کے علاوہ ان کے کئی ڈرامے انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی مادری زبان انگریزی تھی مولانا آزاد کے الفاظ اور غالب کے اشعار کس طرح اتنی شستہ اردو میں بیان کر سکتا تھا مگر یہی ٹام آلٹر کی خاصیت تھی جو بمبئی آئے تو اس لیے تھے کہ راجیش کھنہ جیسے ہیرو بن سکیں وہ ہیرو تو نہ بن سکے لیکن کچھ ایسے کردار ادا کر گئے جو ان کے ہم عصر اداکاروں میں شاید کسی کے بس کی بات نہ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments