فواد چودھری کے انکشافات کے بعد اب تحریک انصاف کے پلے کیا رہ گیا ہے؟


تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کچھ یوں ہو رہی ہے : تبدیلی کا خواب پورا نہیں ہوسکا۔ تحریک انصاف اپنی ٹیم کے ہاتھوں پٹ گئی۔ کشمیر کو بیچ دیا۔ رشوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ریٹ بڑھ گیا ہے۔ تعلیم، صحت، کاروبار، کچھ بھی بہتر نہیں ہوسکا۔ احتساب کا ڈھول بہت بجایا پیسہ تو کوئی نہ نکلا مگر سب باہر نکل آئے۔ ایک کروڑ نوکریاں کہاں گئیں؟ اربوں ڈالر واپس نہیں آئے۔ بلدیاتی نظام کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی سوچ ملیامیٹ۔ حکومت کی سمت کا کچھ اتا پتا نہیں۔ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔

دوسری طرف اس تنقید کا جواب یوں ہے : 40 سال کے مسائل ہیں ایک دو سالوں میں تو حل نہیں ہو سکتے، پچھلی حکومتوں نے معیشت کا تباہ کی، کرپشن پلک جھپکتے ختم تو نہیں ہو سکتی، خان تو اچھا ہے مگر عوام ہی ’جاہل‘ ہیں۔ ایماندار عمران خان تو کام کرنا چاہتا ہے مگر جن کے پاس اصل طاقت وہ کام نہیں کرنے دیتے۔ کوئی اور متبادل بھی تو نہیں ہے۔

اپوزیشن اور تحریک انصاف کے حمایتی تو اپنی اپنی پسند کی بات کریں گے۔ اگرچہ بعض وزرا نجی محفلوں میں دبے الفاظ میں اپنی حکومت کی بری کارکردگی پر برستے رہتے ہیں۔ مگر فواد چودھری نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا اور سرعام اپنی حکومت کی ایسی کی تیسی کر ڈالی۔ اب پارٹی کے پاس کچھ کہنے کو نہیں رہا۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ عمران خان تبدیلی لانے میں ناکام ہو گئے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر عمران خان کی ٹیم کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ سب سے اہم یہ بات کہ عمران خان نے کابینہ کو خبردار کر دیا ہے کہ کارکردگی ٹھیک کرنے کے لیے ہمارے پاس چھ ماہ ہیں ورنہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

وہ سیاسی لیڈر ہی کیا جس کے اندر اتنی صلاحیت ہی نہ ہو کہ وہ عوام کی نبض پر ہاتھ نہ رکھ سکے، بہترین ٹیم منتخب کرنا نہ جانتا ہو اور وقت پر درست فیصلے نہ کرے۔ مگر یہاں معاملات بالکل الٹ ہیں۔ نکمی ٹیم، معاشی فیصلوں میں تاخیر، عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید خراب، اہم ملکی معاملات پر فیصلہ سازی دگرگوں، کورونا جیسی وبا پر واضح پالیسی کا فقدان۔ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع پر بوکھلاہٹ، نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کی اجازت کا فیصلہ اور پھر کہنا یہ کیسے ہوا، وغیرہ۔

اگر ہر طرف سے انگلیاں اٹھ رہی ہوں اور پھر بھی یہ کہا جائے کہ لیڈر تو ٹھیک ہے مگر اسے ٹیم ہی اچھی نہیں ملی۔ پہلے اپنی پارٹی کی نظریاتی ٹیم کو نظرانداز کیا۔ روایتی سیاست دانوں کے ٹولے سے حکومت میں آنا اور پھر شکوہ کرنا کہ مجھے ٹیم اچھی نہیں ملی۔ دوسری طرف جانتے ہوئے بھی عوام کو ساری خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرائے تو پھر کچھ خرابی تو ایسے لیڈر میں۔ کچھ تو قصور ہے لیڈر کا۔

خیبرپختونخوا میں نظام کی تبدیلی سات سال بعد بھی ایک خواب ہے جہاں ایک سکول، کالج یا یونیورسٹی نہیں بنا سکے کہ دوسرے صوبوں کے طلبا وہاں داخلے کے خواہاں ہوں۔ یا پھر ایک ایسا بڑا جدید ہسپتال نہیں قائم ہو سکا کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان کے مریض وہاں علاج کو ترجیح دیں۔ البتہ خیبر پختونخوا سے طلبا اور مریض اسلام آباد، پنجاب اور سندھ میں داخلے اور علاج کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔ عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ وہ دھرنے میں مصروف رہے اور خیبر پختونخوا میں دھیان نہیں دے سکے اور ان کے لوگ بھی نئے تھے نظام کو سمجھنے میں دیر لگی۔ ساتھ ہی اس وقت انہوں نے یہ بھی بول دیا، ’شکر ہے ہمیں 2013 میں وفاق میں حکومت نہیں ملی، ورنہ اس کا بھی حال خیبر پختونخوا جیسا ہی ہوتا‘ ۔

پنجاب میں عثمان بزدار عرف وسیم اکرم پلس کی کارکردگی پر تحریک انصاف کے اپنے رہنماؤں سمیت مختلف حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کے باوجود عمران خان بضد ہیں وہ پنجاب کی تاریخ کا سب سے اچھا وزیراعلی ثابت ہو گا۔ دو سال میں پنجاب ایک قدم آگے دو قدم پیچھے ضرور گیا ہے۔ حکومت بیوروکریسی پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ کام نہیں کرنے دیتی۔ جب پوچھیں کہ کون سے ایسے منصوبے ہیں جو بیوروکریسی کی رکاوٹوں کی وجہ سے پایہ تکمیل پر نہیں پہنچ پائے۔ تو کوئی جواب نہیں۔

فواد چودھری پنجاب اور کے۔ پی۔ کی صوبائی لیڈرشپ پر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ ایسی قیادت سے آپ کس تبدیلی کی امید رکھ سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں تحریک انصاف کی کامیابی کا دار و مدار صوبوں میں ترقیاتی کام اور نظام کی بہتری پر ہے کیونکہ وفاق کے پاس فنڈز نہیں ہیں کہ وہ صوبوں پر خرچ کرسکیں۔ فواد چودھری تو کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلی بنا دیا گیا جسے کوئی تجربہ تھا نہ ہی کوئی اسے جانتا ہے۔

فواد چودھری کے علاوہ تحریک انصاف کے چند رہنما بھی آف دی ریکارڈ یہ مانتے ہیں کہ ان کی حکومت نے ابھی تک جتنے بھی کام کیے ہیں ان سے عوام کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان ہوا ہے۔ مگر چند ایسے بھی ہیں جو اپنے لیڈر عمران خان کو اب بھی مسلم امہ کا عظیم ترین رہ نما مانتے ہیں جو انتہائی ایماندار ہے اور ملک کو ریاست مدینہ کی طرز کی ریاست بنانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں سب پڑھے لکھے دانشوروں کی نسبت عمران خان ان سے دس گنا آگے کی سوچتا ہے۔ تاہم ’سوچ‘ کو عملی جامہ پہنانے میں حالات اس کے برعکس ہیں۔

فواد چودھری کھل کر بات کرتے ہیں۔ ان کے اسی انداز کی وجہ سے وہ ایک منفرد سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں۔ سچ بہت کڑوا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ان کی کابینہ کے ارکان بھی جان چکے ہیں کہ دو سال بعد ان کی حکومت کہاں کھڑی ہے۔ ابھی تک حکومتی وزرا نے فواد چودھری کی کسی بات کو جھٹلایا نہیں ہے صرف اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی گھر کی باتیں بیچ چوراہے نہ کرتے تو بہتر تھا۔

فواد چودھری کے انکشافات کے بعد اب تحریک انصاف کے پلے کچھ نہیں رہ گیا۔ کوئی لنگڑی لولی حکومت کے بوجھ کو کہاں تک اٹھائے گا۔ تجربہ ہو چکا اب مزید ہزیمت اور رسوائی کی بجائے آگے کا سوچیں۔ قوم کو زیادہ مشکل میں نہ ڈالیں۔ ان ہاؤس تبدیلی کوئی اتنی بری بھی نہیں۔ متبادل بہت بہتر ثابت ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments