منشیات ایک ناسور


حالیہ عرصہ میں منشیات نے بہت زور پکڑ لیا ہے۔ جس سے ہماری نوجوان نسل تباہی کی طرف جارہی ہے۔ کہتے ہیں نوجوان کسی بھی ملک کا پہیہ ہوتے ہیں مگر ہمارے نوجوانوں کو خود کسی سہارے کی ضرورت آپہنچی ہے۔ شروع شروع میں کوگ فیشن کے طور پر اس کا استعمال کرتے ہیں اور پھر اس لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک دو بار استعمال کے بعد سوچتے ہیں ہم اس سے چھٹکارا حاصل کر لے گے۔ مگر اصل میں وہ اپنی موت کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے نہ استعمال کی وجہ سے جسم میں درد چڑچڑاپن محسوس ہوتا ہے۔

جس سے بہت سے لوگ چوری چکاری کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لوگ ذہنی تناؤ کے لیے اس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ذہنی تناؤ کی وجوہات کی فہرست تو بہت طویل ہے مگر کچھ اہم وجوہات یہ ہیں روزمرہ کے گھریلوں جھگڑے، والدین کا بچوں کو وقت نہ دینا، محبت میں ناکامی وغیرہ وغیرہ۔ آج کل ہیروئن، کرسٹل میتھ یا آئس اور نشہ آورادویات جس پر ہرفرد کو بآسانی رسائی حاصل ہے۔ سالانہ 44 ٹن ہیروئن پاکستان میں درآمد کی جاتی ہے۔ جس کی زیادہ تر مقدار ہمارے ہمسایہ ممالک افغانستان سے آتی ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے اینٹی نارکوٹکس سمیت بہت سے ادارے جواس کی روک تھام میں لگے ہیں اس کے باوجود اس کی اتنی بڑی مقدار پاکستان میں پہنچ کیسے جاتی ہے؟ ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد غیرمتوقع طور پر بڑھتی جارہی ہے۔ اس کا استعمال کرنے والے اپنے پیاروں اور دوست واحباب سے دور ہو جاتے ہیں۔ جس کا آخر نتیجہ یہ نکلتا وہ درباروں اور چرواہوں پر بسیرا کرلیتے ہیں کسی نے خوب کہا تھا اس کا استعمال کرنے والے کے پاس اگر 300 روپے ہیں اس کی ماں بیمار ہے یا اس خے بچے کا پینے کو دودہ آنے والا ہے وہ ماں اور اپنے بچے کو نظر انداز کردے گا اور اپنے لیے اس ناسور کا بندوبست پہلے کرے گا۔

ہیروئن انسان کو زندہ مردہ بنا دیتی ہے۔ کرسٹل میتھ یا آئس جو انسان کی خود بنائی ہوئی ہے۔ جس میں مختلف قسم کے کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں۔ جس کی شکل برف یا شیشہ نما ہوتی ہے۔ جو مرکزی اعصابی نظام (CNS Central Nervous System) کو سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ CNS چونکہ ایک اسٹیشن کا کردار ادا کرتا ہے۔ جو جسمانی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس میں ڈوپامین نامی ایک نہایت قیمتی نیوروٹرانسمیٹر ہوتا ہے جوخوشوں کا احساس دلاتا ہے براہ راست نقصان پہنچاتا ہے۔

جس سے انسان سب سے دور تنہائی میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اس کا ایک گرام دوہزار سے لے کر پچس سو تک ملتا ہے جس وجہ سے عام انسان کی اس تک رسائی ذرا مشکل ہوتی یے۔ اس وجہ سے ہمارے ملک کا High Class طبقہ اس کا زیادہ شکار ہے۔ اس کا استعمال لوگوں میں اس لیے بھی عام ہے اس کی دوسری منشیات کی کرح بدبو نہی ہوتی جو بآسانی کہی بھی استعمال کی جاتی ہے حتی کہ اپنے گھر میں اس کے استعمال سے کسی کو کوئی خبر تک نئی ہوتی۔ ادویات جو انسان کی جسمانی ضروریات کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔

ہمارے معاشرہ کا کچھ طبقہ اسے بھی اس ناسور کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ جس میں سرفہرست کھانسی کے سیرب ہیں 20 نومبر 2012 میں Toxic Cough کے استعمال سے بیس افراد کو ہسپتال داخل کروایا گیا جن کی عمریں 15 سے 45 کے درمیان تھی جنہوں نے یا تو اس کی وافر مقدار لی یا اس کے استعمال کے ساتھ کوئی اور نشہ آور چیز کا ملاپ کیا تھا جس وجہ سے لاہور میں 16 افراد اپنے خالق حقیقی سے جاملے جس وجہ سے تین فارمیسی اور میڈیکل فیکڑی کو بند بھی کیا گیا جس کے باوجود ابھی بھی اس کی بآسانی دسترس کی روک تھام کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے کیپسول اور گولیاں جو ابھی بھی کسی بھی فارمیسی یا میڈیکل سٹور سے بآسانی حاصل کی جاسکتی ہیں کچھ منافع خور لوگ بغیر ڈاکٹر کی ہدایت کے سرعام اس کی فروخت میں مصروف عمل ہیں۔

اس کے علاوہ ہر سال کسی بھی تہوار کے موقع پر کچی شراب کے استعمال سے سینکڑوں افراد اپنے خالق حقیقی سے جاملتے ہیں اس کچی شراب کی روک تھام کے لیے ہماری حکومت اس کی روک تھام کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز میں ہر 10 میں سے 1 طلبعلم اس ناسور کا شکار ہے۔ یونائٹنڈ نیشن ادارے (ڈرگ اینڈ کرائم) کی تحقیق مطابق پاکستان میں 4 • 6 ملین لوگ اس ناسور کا استعمال کر رہے ہیں۔ جس کی تعداد غیر متوقع طور پر بڑھ رہی ہے اور 000 ’80 پاکستانی جو اس لعنت کا شکار ہیں ان کی عمریں 15 سے 65 سال کے درمیاں ہیں۔

جبکہ 700 افراد ہر روز اس لعنت کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے جس طرح حکومت نے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تھا۔ اس لعنت کی روک تھام کے لیے بھی حکومت کو چاہیے کوئی نیشنل ایکشن پلان تشکیل دے۔ اس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ جو پورے ملک کے ساتھ ساتھ ہمارے اداروں کو اس کی روک تھام کے لیے سختی سے پابند کریں۔ ہمارے نصاب میں کچھ حصہ مختص کیا جائے تاکہ ہماری نوجوان نسل کو اس کے نقصانات کے بارے میں آگاہی دی جاسکے۔

مسلمان ہونے کے ناتے ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہمارے گردونواح اگر کوئی اس لعنت کا شکار ہیں تو ہمیں چاہیے اسے راہ راست پر لانے کے لیے احسن اقدام کرے۔ قرآن مجید کی [ سورہ مائدہ آیت نمبر: 32 ] میں آتا ہے جس نے کسی انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔ مختصر پاکستان کو اس ناسور سے پاک کرنے کے لیے ہمیں سنجیدگی سے ایسے اقدامات پر عمل کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک کا معاشی ایندھن گردانے جانے والی نوجوان نسل ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments