پاکستان میں گریڈ 20 اور آسٹریلیا میں نقل مکانی


میری خالہ آج کل ذہنی مسائل کی وجہ سے پریشان رہتی ہیں۔ اس نے قدرے اداس لہجے میں کہا۔ وہ دیکھو پہاڑپر بادل ایسے ساکت ہو گئے ہیں کہ جیسے ہوا رک گئی ہو۔ میں نے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے کہا۔ یار، تمہیں یہاں پہاڑ کی پڑی ہے، اور جو میں کہہ رہا ہوں اس کا احساس ہی نہیں۔ اس کے لہجے میں ناراضگی کا عنصر نمایاں تھا۔ ارے یار تمہاری خالہ کو دماغی مسائل کا سامنا ہے، تو ان کو کسی ماہر نفسیات سے مشورہ لینا چاہیے۔ میری رائے کیا اہمیت رکھتی ہے۔ ہم دوست ہیں اور آپس میں بات تو کر سکتے ہیں۔ اس کے لہجے میں التجا تھی۔ اچھا بتاؤ ان کو کیا پریشانی ہے۔ یار خالہ کچھ عرصہ پہلے آسٹریلیا آئی تھیں اور پاکستان میں وہ گریڈ 20 کی سرکاری نوکری کر رہی تہیں۔ کچھ عرصہ سے یہاں پر odd jobsکرنے کے بعد وہ بے حد پریشان ہو گئی ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں اور میاں جسمانی تربیت کا کام کرتے ہیں۔ تو اس میں پریشانی کیسی؟ میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

اور پوچھا کیا انہوں نے سوچا تھا۔ کہ یہاں بھی اسی سرکاری ٹھاٹھ سے رہیں گی؟ یا یہاں آتے ہی ان کو اعلی قسم کی نوکری جلد مل جائے گی کہ جیسے یہاں پر پہلے کوئی ماہر موجود ہی نہ تھا؟ ارے تم پھر شروع ہو گئے ہم نے اس بات کا کوئی منطقی نتیجہ نکالنا تھا۔ اس نے ٹوک کر کہا۔ چلو ایسے کر لیتے ہیں۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر وہ آسٹریلیا مستقل سکونت کے لیے آ رہی تھی تو ان کو اس بات کے لئے خود کو تیار کر کے آنا تھا کہ وہاں کے حالات کیسے ہوں گے؟

جس کام کی وہ ماہر ہیں اس شعبے میں کتنے ادارے ہیں اور وہاں پر ان کو نوکری دینے کا کیا معیار ہے؟ اور کیا وہ اس معیار پر پورا اتر سکتی ہیں؟ دوسرا ان کو پلان بی کے بارے میں خود کو تیار کر کے آنا چاہیے تھا، کہ اگر مجھے مطلبہ نوکری نہ ملی تو میرا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اگر تم ناراض نہ ہو تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دو کہ وہ پہلے سے ہی ذہنی مسائل کا شکار تھی۔ انہوں نے سوچا کہ یہاں سے فرار ہی مسائل کا حل ہے۔ یا وہ کسی ایک شخص کی باتوں پر عمل پیرا ہو کر یہاں آ گئی۔

انہوں نے ایک سے زیادہ لوگوں سے مشورہ لینا مناسب نہیں سمجھا۔ تیسری بات یہ کہ اگر ان کو odd jobs بھی کرنا پڑی تو کیا وہ کچھ عرصہ کر لیں گی؟ اور اگر وہ نہ کر پائی تو کیا خود کو اذیت میں رکھ کر پاسپورٹ لینے کی مدت کو پورا کرتی رہیں گی؟ اور آخری بات کیا انہوں نے آنے سے پہلے سوچا تھا کہ ان کی اصل ترجیح کیا ہوگی؟

اب میں تمہیں بتاتا ہوں آسٹریلیا میں چھ سال رہنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ ملک رہنے کے لیے کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔ ہاں البتہ تہذیب، رہن سہن، میل جول اور اجتماعی زندگی یقیناً پاکستان سے مختلف ہے۔ جس کے لیے ہمیں تیار ہو کر آنا چاہیے۔ اگر کسی نے باہر سے یہاں آکر مستقل سکونت اختیار کرنی ہے تو اس پہلی نسل کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کر آپ کی اگلی نسل اپنی صحیح جگہ بنا پاتی ہے۔

اب اس بات میں کچھ چھوٹ بھی ہے، کچھ لوگ جلدی آباد ہو جاتے ہیں، لیکن جو جلدی مستحکم ہو بھی جائیں تو وہ مالی مشکلات نہ سہی لیکن باقی کافی ساری مشکلات دیکھتے ہیں۔ مثلاً تمہاری خالہ کو مالی مسائل نہ سہی لیکن کام کی نوعیت سے مسئلہ ہے۔ اس لئے جو بھی یہاں آئے ہیں۔ یہاں آنے سے پہلے تمام زاویوں کو سوچ لیں۔ جو میں تمھیں بتا چکا ہوں، اور اچھی طرح پرکھ لے اور پھر کوئی فیصلہ کرے۔ پھرجو فیصلہ لے چکے، تو اللہ پر بھروسا کریں اور زیادہ گمان نہ کرے کہ یہی بات انسان کو اس شدید اضطراب اور ذہنی پریشانی کی طرف لے کر جاتی ہے۔

میرا مشورہ خالہ تک پہنچا دینا کہ اگر تو لمبی رخصت لے کر یہاں پر آئی ہے، تو واپس جائیں اور اپنی نوکری کو دوبارہ سے بحال کریں۔ اگر آپ یہاں کی سکونت ترک نہیں کرنا چاہتیں، تو پھر یہاں کی مشکلات کے لیے خود کو تیار کریں اور ہمت سے اس وقت کا مقابلہ کریں۔ اور اپنے لئے اس بات کا تعین لازمی کریں کہ ان کو دلی سکون کس بات سے ملتا ہے۔ اور جس بات پر ان کا دل سکون میں ہو، وہی کریں۔ لوگوں کی دیکھا دیکھی نہ کریں کہ فلاں بھی تو آیا تھا، فلاں نے بھی تو شہریت لی تھی میں بھی لے سکتی ہوں اور لوں گی۔

یہ مقابلہ ٹھیک نہیں کیونکہ انسان کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ اس کی تلاش میں ملک ملک گھومنا ضروری نہیں ہے۔ بس اس بات کا تعین ضروری ہے کہ اپ کو سکون کس بات سے مل سکتا ہے۔ اور جب آپ اس بات کا جواب ڈھونڈ لیتے ہیں اس کو حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔ جتنی بھی جگہ تبدیل کر لیں۔ چھوٹے گھروں سے بڑے گھروں میں چلے جائیں، مالی تنگی سے خوشحالی میں آ جائیں لیکن اگر ہم اپنے سکون کے راز کو نہ ڈھونڈ پائیں تو سکون قلب حاصل نہیں کر سکتے، اور پھر ہم لوگوں کے کہنے پر خوشی ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں اور آخری عمر میں احساس ہوتا ہے کہ زندگی کا سفر رائیگاں چلا گیا۔ اب تم مھجے چاہے پلا دو ورنہ میرا یہاں آنا ضائع نہ چلا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments