عام آدمی کی امید زندہ رہنی چاہیے!


پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کے نئے نعرے کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی، مگر دوسال کاعر صہ گزرنے کے باوجود عوام کو سوائے الزام تراشی کی سیاست وباہمی اختلاف رائے کے کوئی تبدیلی نظرنہیں آ رہی ہے۔ عوام حکومت کی ناقص کارکردگی سے مایوسی کا شکار ہیں، جس کے باعث تحریک انصاف کے اندر سے بلند ہوتی آوازیں بتا رہی ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندے عوامی دباؤمیں آ رہے ہیں۔ حکومتی وزراء پرگزرتے وقت کے ساتھ واضح ہو نے لگا ہے کہ عوامی جذبات حکومت مخالف ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم کا بھی ماننا ہے کہ پانچ چھ ماہ میں ہمیں خود کو مضبوط کرنا گاجوحکومتی ٹیم کی ناکامی کا واضح پیغام ہے۔ وزیر اعظم کا وزراء کو چھ ماہ میں کار کردگی بہتر بنانے کے عندیئے سے کام نہیں چلے گا، اس نازک وقت میں حکو مت کوایک باصلاحیت ٹیم ہی گہرے سیاسی بھنور سے باہر نکال سکتی ہے۔ اگروزیراعظم واقعی تمام سیاسی مشکلات سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے مشاورتی ٹیم بدلیں، پھر نالائق اور نا اہل افراد کو کابینہ سے فارغ کریں اور تحریک انصاف کے قابل چہروں کو سامنے لا کرعوام کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں، جب تک مہنگائی، بے روز گاری کم نہیں ہو گی، بجلی، گیس کے بلوں میں عوام کو ریلیف نہیں ملے گا، کھانے پینے کی اشیاء سستی نہیں ہوں گی، حکومت کی کامیابی کا خواب شرمندہ تعبیر رہے گا۔ حکومت کے مشکل سے مشکل حالات میں بھی عوام سب سے پہلا دفاع ہوتے ہیں اور جب عوام کی زندگی ہی مشکل ترین ہوتی چلی جائے گی تو وہ گرتی حکومت کو دھکا دینے کے لیے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان کی ذات کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بدعنوان نہیں، لیکن گورننس ’ترجیحات اور وزراء کی اہلیت کے حوالے سے ان کی حکومت سابق حکومتوں سے الگ دکھائی نہیں دیتی ہے۔ اکثر ایسے لوگ وزیر، مشیر بنائے گئے ہیں جو اپنی وزارت اور عمومی معلومات سے واقف نہیں، اس کے باوجودوزارت عظمیٰ کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ایک خاتون وزیر آئے روز ایسے نئے شگوفے چھوڑتی رہتی ہیں کہ جن سے یہ تاثر مستحکم ہو رہا ہے کہ کپتان اپنی مضبوط اور اہل ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

وزیراعظم پھربھی اپنی کابینہ کے اراکین سے کہہ رہے ہیں کہ کاردگی بہتر بنائیں ورنہ چھ ماہ میں معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے، جبکہ حالات تو پہلے ہی ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ وزراء آئندہ چھ ماہ کے دوران کیا کچھ ایسا کر لیں گے جو وہ پہلے کرنے میں ناکام رہے، سچ تو یہ ہے کہ ملک کو موجودہ حالت تک لانے میں حکومتی وزراء کا کردار نمایا رہا ہے۔ اس وقت ملک کی معیشت بدحالی کا شکار ہے، گورننس کہیں نظر نہیں آ رہی ہے، ایک کروڑ نوکریاں ملنا تو درکنار، ہزاروں اپنا روزگار گنوا بیٹھے ہیں اور لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان سڑکوں پر دھکے کھا نے پر مجبور ہیں۔

تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا کہ جب ہم آئیں گے تو عوام کی زندگی میں تبدیلی لائیں گے، ملک کے حالات بہتر بنائیں گے، عوام کرپٹ حکمرانوں کو ٹیکس نہیں دیتے، ہم ٹیکس دگنا اکٹھا کریں گے، لیکن حقیقت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گزشتہ دو سال سے جو ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے، وہ اس سے بھی کم ہے جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن ) کے دور حکومت میں ہو تا رہا ہے۔ معیشت کی خرابی سے لے کرقرضوں میں سنگین اضافے تک کی ہرخرابی کو پچھلے حکمرانوں کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے، آخر کب تک پچھلے حکمرانوں کو ہر خرابی اور اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے رہیں گے۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ موجودہ حکمران بڑے صاف ستھرے اور پرانے سارے چور اچکے تھے تو ایسا کیوں ہے کہ ٹیکس ایمانداروں کی حکومت کے دوران چوروں کے دور سے کم اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ہماری حکومت کی کارکردگی خراب اور اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

اس سے قطع نظر کہ فواد چوہدری کے اظہار رائے کے پس پردہ کون سے عوامل کارفر ما رہے ہیں، یہ کہنا بجا ہے کہ عوام نے انہیں معمولی نٹ بولٹ کسنے کے لیے نہیں بیجا، بلکہ پورے نظام کی اصلاح کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ عمران خان بھی ملک کے نظام کو بدلنے کے دعوئیدار تھے، شایداس لیے بظاہر اپنے وزراء کی کاردگی سے خوش نہیں اور پرفامنس بہتر بنانے کی بات کر رہے ہیں، لیکن سچ پوچھیں تو قصور وزیروں، مشیروں کا نہیں، بلکہ عمران خان کا اپنا ہے جنہوں نے ملک میں ایسی نا اہل ٹیم کا انتخاب کیا جو کارکردگی دکھانے کی بجائے اپنی حکومت پر تنقید کر کے اچھا بنے میں کو شاں ہے۔

اس کے باوجود وزیر اعظم انہیں چھ ماہ کا مزید وقت دے رہے ہیں کہ وہ اپنی کا ک کردگی کو بہتر بنائیں، جبکہ انہوں نے اپنے دوسالہ دور حکومت میں الزام تراشی کی سیاست کے علاوہ کچھ نہیں کیا تو اب چھ ماہ میں کیا کر لیں گے۔ حکو مت کو بار ہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی ہے کہ ملک کی بہتری معیشت مستحکم کرنے سے ہو گی، اس کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے، لیکن حکومت نے نہ پہلے ایسا کوئی مشورہ مانا نہ اب ایسی کوئی بات سننے کے لیے تیار ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف کو جو اقتدار ملا وہ کئی پہلو سے لولا لنگڑا ہے، ملک پر قرضوں کے بوجھ نے اس کی معاشی آزادی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ آئی ایم ایف جیسے ادارے پاکستان کا بجٹ بناتے ہیں اور ان کی اجازت سے ٹیکس کم کرنے اور تنخواہیں بڑھانے جیسے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ افسر شاہی سابق حکمران جماعتوں کے ہاتھ میں کھیل رہی ہے، ہر سرکاری ادارہ انحطاط اور زوال کا شکار ہے۔ اس صورت حال میں ملک کے نظام کو از سر نو قلیل وقت میں بہتر بنانا ممکن نہیں ہے، لیکن تحریک انصاف دو سال کے دوران اپنا کوئی ایک وعدہ توپورا کر سکتی تھی۔

اس کا ایک سبب منصوبہ بندی کا فقدان اور حکومتی وزراء کا اپنے فرائض کی بجائے دیگر معاملات میں دلچسپی لینا ہے۔ تحریک انصاف نے جن وعدوں پر الیکشن جیتا تھا، آ ئندہ انتخابات میں انھیں کا جواب دینا ہو گا، ماضی میں تووہ یہ کہ کر بری الذمہ ہو جاتے تھے کہ یہ کام مسلم لیگ ( ن) اور پیپلز پارٹی نے کیے ہیں، لیکن اقتدار ملنے کے بعد نہیں کر سکیں گے۔ تحریک انصاف کی پذیرائی کی مین وجہ عمران خان خود ہیں، جبکہ دوسری وجہ عام آدمی کا دیگر سیاسی جماعتوں کی برسہا برس کی مایوس کن کارکردگی ہے۔

اگرحکومتی صفوں میں بھی نظم و ضبط کا فقدان یو نہی رہا اور وزراء نے سنجیدگی کے ساتھ اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ نہ دی تو عمران خان کی شخصیت بھی ناقص کار کردگی کی رو میں بہہ جائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان کو آزمائے ہوئے پر وقت بر باد کرنے کی بجائے باصلاحیت نئی ٹیم کا انتخاب کر نا ہو گا۔ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی حکومتی صفوں میں موجود نا اتفاقی اور غیر سنجیدگی کے باعث حکومتی اتحادیوں کے ساتھ رابطے بڑھانے کا عمل تیز کر چکی ہیں۔ وزیر اعظم کوخود تمام خرابیوں کو دور کرنے کے لئے متحرک ہونا پڑے گا، تاکہ عام آدمی کی تحریک انصاف سے تبدیلی کی امید تو زندہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments