شاہی محلہ کے سید


وہ اس بازارکا سوچ کر ہی شرمندہ ہورہا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اس کے گاؤں کے کچھ لوگ ادھرآتے جاتے رہتے ہیں اگر کسی نے دیکھ لیا تو بہت باتیں بنیں گی۔ آج صبح ہی ڈی ایس پی صاحب نے اسے حکم دیا تھا کہ اس کیس کی تفتیش تم کرو گے۔ اس نے انکار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا، ”صاحب! یہ علاقہ میرے تھانے کی حدود میں نہیں آتا؟“ وہ ادھر جانا نہیں چاہتا تھا، پھر بولا ”صاحب! آپ میری طرف دیکھیں۔ مجھے ادھر جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔“ اس نے ناف کو چھوتی ناتراشیدہ داڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ لیکن ڈی ایس پی صاحب اسے ہی بھیجنا چاہتے تھے۔ ”نذر شاہ وہ ایک معززسید خاندان ہے۔ مخالفین ان کی عزت اچھالنا چاہتے ہیں۔ جتنا مجھے علم ہے اس کیس سے نکلنا بھی کچھ نہیں۔ اسی لئے میں یہ کیس ٹبی تھانہ کے کسی اہلکار کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔“

وہ اپنے کمرے میں آیا۔ یونیفارم اتارکر شلوار قمیض پہنی اور ادھر روانہ ہو گیا۔ ٹکسالی گیٹ سے جب وہ بازارمیں داخل ہوا تو اس کے دل کی دھڑکن بے ربط ہو گئی۔ وہ ادھر ادھر تاکتا جاتا تھا کہ کوئی واقف کارنہ مل جائے۔ شام تین چار بجے کا وقت تھا، وہ دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ عام بازاروں جیسا ہی بازار تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ادھر عیش پرست، ہوس کے بندے دندناتے پھرے رہے ہوں گے لیکن یہاں تو پارچہ فروش چھابے والے، کھسے والے، ورق گر، بزاز، عطار، جوہری سب خاموشی سے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔

دکان دار سلیقے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ کھانے پینے کی دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ معمول کا رش تھا۔ کسی نے بھی اس کی طرف توجہ نہ دی۔ ایک دکاندار سے اس نے صفدر شاہ کے گھر کا پتا پو چھا۔ وہ سوچنے لگا تو اس کے ساتھ بیٹھا باریش شخص جو شاید اس کا والد تھا، بولا ”وہی پیرصفدر شاہ، آصف شاہ مذاحیہ اداکار کا رشتہ دار، جس کی بیٹی پچھلے دنوں گھر میں مردہ پائی گئی ہے؟“ اس نے اثبات میں سر ہلایا تو کہنے لگا ”سیدھا چلتے جائیں پھرالٹے ہاتھ اونچا چیت رام روڈ کی طرف مڑ جائیں۔

تھوڑا اوپرجائیں گے تو سلطانہ ڈانسر جو کہ رنگیلے کی خوشدامن ہے، اس کا ایک نیا بنا ہوا خوبصورت کوٹھا آئے گا، اس سے دومکان چھوڑ کر وہ گھر ہو گا۔ لیکن وہاں اب تمہیں کوئی نہیں ملے گا۔“ ”کیوں؟“ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔ صفدرشاہ اور اس کی بیوی تو فوت ہو چکے ہیں۔ ان کی اولاد نہیں تھی۔ مرنے والی ان کی لے پالک تھی۔ بڑ ے بھائی کی اولاد ہے وہ اپنے مریدین کے پاس سالانہ دورے پرسندھ گئے ہوئے ہیں۔ ”

نذر شاہ وہاں پہنچا تو مکان بند تھا۔ نیچے دکان والے سے پوچھنے پر بھی وہی جواب ملا۔ اس نے مزید معلومات کے لئے سامنے کوٹھے پر موتیا بائی سے ملنے کا کہا۔ دروازہ کھلا ہی تھا۔ ’استغفراللہ‘ سامنے ہی دو عورتیں ہلکے ملبوس زیب تن کیے ، کھلا جسم کھلے بال، کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔ موتیا بائی کا نام اور کوٹھے کا لفظ سنتے ہی اس کی ہمت پہلے ہی جواب دے گئی تھی اب یہ دیکھ کر اس کے اندر کا مذہبی اعتقاد بھی بیدار ہو گیا۔ نماز کا وقت بھی ہو رہا تھا اس نے گردن جھکا کر اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور واپس چل پڑا۔

اگلے دن شام سے پہلے وہ موتیا بائی کو ملنے پہنچ گیا۔ موتیا کو آنے کا مقصد بتایا تو وہ اسے اندر اپنے کمرے میں لے آئی۔ کیا خوبصورت سلیقے سے سجا سنوراکمرہ تھا! شیشے کی طرح چمکتا ہوا فرش، وسط میں ایرانی قالین بچھا ہوا اور اس پر ایک کار چوبی مسند۔ دیوار پر ایک قد آدم آئینہ جس کے اطراف خانہ کعبہ اور روضہ امام حسین کی ریشمی کپڑے پر کاڑھی ہوئی تصویریں آویزاں تھیں۔ ایک گوشے میں پڑی تشت چوکی پرچاندی کا پاندان اس کے ساتھ ہی دوسری چوکی پر چاندی کی طشتری پر شیشے کا گلاس اورتانبے کا نقشیں خاص دان ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔

تھوڑی دیر صفدر شاہ کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ اس نے بتایا کہ شاہ جی نے اس کی خالہ سے شادی کی تھی۔ شادی کے بعد وہ بیس سال زندہ رہی اور کسی غیر مرد نے اس کا منہ نہ دیکھا۔ صفدر شاہ انتہائی خوبصورت تھا اور کئی طوائفیں اس پر مرتی تھیں۔ ان کے بزرگوں نے راجہ دہر کے پاس پناہ حاصل کی تھی۔ اموی حملہ کے بعد یہ لوگ پنجاب آ گئے۔ ایرانی تعلق کی بنیاد پر ہی شاہ صاحب نے بچی کو شاہ ایران کی جڑواں بہن اشرف پہلوی کا نام دیا تھا۔

وہ ایک بہادر لڑکی تھی بچپن میں گلی میں کھیلتے وقت کئی لڑکوں کی پٹائی بھی کر دیتی تھی۔ اس کی موت کے بارے میں پوچھا تو وہ خاموش ہو گئی۔ نذر شاہ نے بھی مزید پو چھنا مناسب نہ سمجھا۔ اتنی دیر میں لڑکیوں نے دوسرے کمرے میں کھانا پروس دیا تھا۔ انتہائی پر تکلف کھانا تھا۔ ساتھ والے کمرے سے موسیقی کی ہلکی ہلکی دھنیں سنائی دینا شروع ہو گئی تھیں۔ اس نے اجازت چاہی۔

موتیا نے لچک دار لہجے میں لڑکی کو آواز دے کر کہا ”شرمیلامیرا پاندان تو پکڑانا۔“ پھولوں سے لدی ٹہنی کی طرح ہوا کے جھونکوں پر لٹکتی شرمیلا لپکی چلی آئی۔

موتیا نے پاندان اٹھا کر گود میں رکھا اور کہنے لگی،
”شاہ جی بیٹھ جائیں۔“
” نہیں، میں اب چلتا ہوں۔ آپ کے ہاں طرح طرح کے لوگ آتے ہیں، کسی نے دیکھ لیا تو باتیں بنیں گی۔“

”شاہ جی آپ وہم نہ کریں یہاں صرف گانٹھ کے پورے ہی آتے ہیں۔ ایرے غیرے نتھو خیرے میں تو ہمت ہی نہیں کہ میری حویلی کی طرف منہ کر سکے۔“ نذر شاہ سوچنے لگا کہ بات تو سچ ہی ہے وہ بھی ادھر آنے سے بہت ڈرتا رہا ہے۔ ”یہاں تو صر ف آپ جیسے اعلیٰ افسران، امرا اور رئیس ہی آ سکتے ہیں۔ ہمیں ان کی عزت اپنی جان سے بھی پیاری ہوتی ہے۔“ یہ سن کر اس کا خوف جاتا رہا۔ وہ بول رہی تھی اور نذر شاہ اسے ٹک دیکھے جا رہا تھا۔ موتیا کا چہرہ احساس تفاخر سے سر شار تھا۔ بڑے لوگوں کے بارے میں بات کرتے وقت اس کے اوپر والے ہونٹ کا خم اس میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔

پان کھانے کے بعد وہ واپس چل پڑا۔
کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ ادھر جا رہا تھا۔

اساڑھ کے دن تھے۔ گرمی کے مار ے انسانوں کا دم گھٹ رہا تھا۔ سورج ڈھلنے لگا تو حبس اور بھی بڑھ گیا۔ بازار میں آج ہر گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ لڑکیاں دروازوں میں بیٹھی پنکھا جھل رہی تھیں۔ موتیا کے گھر میں بہشتی پانی کا چھڑکاؤ کر رہے تھے۔ صحن میں دریاں اور چاندنی بچھائی جارہی تھی۔ شامیانہ بھی تانا جا چکا تھا۔ وہ دروازے میں کھڑا واپسی کا سوچ ہی رہا تھا کہ موتیا بائی نے اسے دیکھ لیا۔ وہ بھاگی آئی، کہنے لگی ”زہے نصیب کہ آپ تشریف لے آئے ہیں۔ آج ہمارے ہاں میلاد مبارک کی محفل ہے۔“ اس کو اسی کمرے میں بیٹھا دیا گیا۔

تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ مہمان آنا شروع ہو گئے۔ کوئی سائیکل پر اور کوئی یکہ پر۔ ایک دو گاڑیاں بھی بازار میں آ پہنچیں۔ وہ ڈر رہا تھا۔ ایک دو بار موتیا نے بلا بھی بھیجا لیکن وہ نہ گیا۔ محفل جم چکی تھی وہ بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن آنگن میں کوئی راستہ ہی نہ بچا تھا۔ اس نے کمرے کی کھڑکی سے جھانکا توآنگن خوش پوش مہمانوں سے جگمگا رہا تھا۔ دربار کے گدی نشین، گھنی نفاست سے ترشی ہو ئی داڑھی، سفید لباس اورکالی پوشاک اوڑھے، آراستہ تخت پر مسند لگائے جلوہ افروز تھے۔ شہر کے رؤسا اور شرفا بھی سرجھکائے محفل کی برکات سمیٹ رہے تھے۔ چاندی کے گلاب پاش سے عرق اور عطریات کی پھوار ماحول کو سحرانگیزکر رہی تھی۔

وہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب لوگ طوائف کے گھر آنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ جب معزیزن شہر بیٹھے ہیں تو وہ کیوں شرما رہا ہے۔

محفل کے آخر میں موتیا نے سلام پڑھنا شروع کیا۔ محفل میں ایک سے بڑھ کر ایک صاحب جمال موجود تھا۔ علم و کمال کے دیوتا اور دولت وحسن کے شہزادے بھی، سب نظریں جھکائے ہمہ تن گوش اس کی آوازکے سحر میں کھو کرجنت کی حسین بھول بھلیوں میں گم ہو چکے تھے۔ وہ اگر حاضرین میں سے کسی کی طرف ترچھی نظر سے دیکھ لیتی تو مہمان کاچہرہ یوں روشن ہو جاتا گویا نور عرفان جگمگا اٹھا ہے۔ اس نے دیکھا کہ موتیا کے سامنے صرف دولت مند ہی سر نہیں جھکاتے بلکہ پیر و مرید بھی اس کے تیر نظر کا شکار ہیں۔ وہ طوائف ضرور تھی لیکن مذہبی رہنماؤں اور پیروکاروں میں اس کی عزت بھی تھی۔

اب اس کا خوف ختم ہو گیا تھا۔ اس نے اردگرد کے دوسرے بالا خانوں میں بھی آنا جانا شروع کر دیا۔ دکانداروں کے پاس بھی بیٹھ جاتا۔ ماسوائے کچھ لوگوں اور طوائفوں کے علاقے کے سب باسی صفدر شاہ اور اشرف پہلوی کے بارے میں بات کرتے ہچکچاتے تھے۔ اسے صرف اتنا ہی پتا چل سکا کہ اشرف پہلوی پیر صاحب کے ساتھ ہی سندھ جاتی تھی وہیں اس کوکسی مرید کے ساتھ بات چیت کرتے پیر صاحب نے دیکھ لیا تو اس کے بعد اس پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ وہ بھی دھن کی اتنی پکی تھی کہ اس کے بعد اپنے کمرے سے سال ہا سال باہر نہ نکلی۔

اس نے آخری بار پھر موتیا سے اس کی موت کے بارے میں پو چھا۔ وہ افسردہ ہو گئی۔ بولی، یہ ظالم پیر، مذہب کے ٹھیکیدار، خود طوائفوں کے چکر میں ساری عمر الجھے رہتے ہیں، شادی بھی طوائف سے ہی کی۔ جب اولاد کی باری آئی تو مرید سے شادی قبول نہیں کی۔ لڑکی کو اندر بند کر دیا۔ اس کی لاش چوہے کتر کر کھا گئے۔ جب ان کی عظمت کی بدبو پورے شاہی محلہ میں پھیلی تو لوگوں نے تالے توڑ کران کی شان و شوکت کو منوں مٹی تلے دفن کر دیا۔

اس نے رپورٹ تیار کی اور ڈی ایس پی صاحب کو پیش کر دی۔

اسے دفتر بلایا گیا۔ صاحب اس کی کارکردگی پر خوش تھے۔ یہ دیکھ کر وہ کہنے لگا صاحب! میرا تبادلہ ٹبی تھانے میں کر دیں۔ صاحب نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو چونک گیا۔ نذر شاہ! تمہاری داڑھی کو کیا ہوا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments