سیکولر ازم سے فاشزم تک کی داستان


ہم ہر روز لفظ سیکولر ازم سنتے ہیں۔ یہ سیکولر ازم کیا ہے؟ secularism ایک سیاسی نظریہ ہے۔ یہ کوئی لادین اور مذہب مخالف نظریہ نہیں ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ مذہب کو ریاست کے معاملات سے الگ رکھا جائے۔

کسی بھی مذہب یا عقیدے کا ریاستی معاملات سے کسی قسم کا کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ رہیں تاکہ ریاست کے معاملات شفاف چلتے رہیں اور کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہ ہو۔ انگریزی میں سیکولر ازم کا مطلب ہے separation of church and state۔ سیکولر ازم کا مطلب ہے کہ کسی بھی ملک کے ایسے قوانین جو کسی مذہبی اقلیت کے ساتھ امتیازی اور متعصبانہ رویہ رکھیں ایسے قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔

سیکولر ازم کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ ریاست سے مذہب کو ہی نکال دیا جائے۔ سیکولر ازم کا مطلب ہے کہ ملک میں تمام مذہب اور عقائد رکھنے والوں کا احترام کیا جائے۔ ہر مذہبی سماج چاہے وہ اقلیت میں ہویا اکثریت میں اس کا یہ حق ہے کہ وہ آزادی سے اپنی مذہبی رسومات اور عبادات کریں۔ ریاست کو اس حوالے سے غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ریاست تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لئے نیوٹرل کردار ادا کرے۔ ریاست ایک مذہب کو دوسرے مذہب پر فوقیت نہ دے۔ یہ ہے سیکولر ازم۔

ایک اور اصطلاح ہے جسے انگریزی میں liberalism کہتے ہیں۔ لبرل ازم کی عمارت لبرٹی اور مساوات پر تعمیر کی گئی ہے۔ مساوات یعنی equality کا مطلب ہے ریاست کا ہر شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔ قانونی حوالے سے کسی ایک سماج کو دوسرے سماج پر کوئی برتری نہیں ہونی چاہیے۔ لبرٹی کے معانی ہیں کہ ریاست کے ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ جو جو چاہے قانون کے دائرے میں رہ کر مرضی سے کر سکتا ہے۔ لبرل ازم میں آزادی اظہار رائے کی اجازت ہوتی ہے اور کسی بھی نظریے یا مذہب کو اختیار کرنے یا چھوڑنے کی بھی آزادی ہوتی ہے۔

لبرل ریاستوں کی بنیاد فری مارکیٹ اور ذاتی جائیداد پر ہوتی ہے۔ کوئی بھی شہری پرائیویٹ پراپرٹی بھی رکھ سکتا ہے اور جس طرح وہ چاہے اس پراپرٹی کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ لبرل معاشرے سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہونے کے ساتھ ساتھ لبرل جمہوریت پسند ہوتے ہیں۔ لبرل ازم اور سیکولر ازم نظریات کی ابتدا یورپ میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب سرمایہ دار طبقے نے بادشاہوں اور جاگیردار گروہ کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ معروف یورپین فلسفی اور اسکالر جان لاک کو فادر آف لبرل ازم کہا جاتا ہے۔ یورپ میں 1688 میں glorious revolution کے پیچھے جان لاک کے لبرل نظریات کا ہاتھ تھا۔ اس طرح امریکن اور فرانسیسی انقلابات جو 1776 اور 1789 میں برپا ہوئے تھے یہ انقلابات بھی سیکولر ازم اور لبرل ازم سے متاثر تھے۔

اب چلتے ہیں ڈیموکریسی کی دنیا میں۔ demos کا مطلب ہے عوام جبکہ cracy کا مطلب ہے حکومت یا حکمرانی۔ تو ڈیموکریسی کا مطلب ہوا عام یا غریب عوام کی ریاست پر حکومت۔ عوام کی کسی بھی ریاست پر حکمرانی کو ڈیموکریسی کہا جاتا ہے۔ امریکی صدر ابراہم لنکن نے ڈیموکریسی کی تعریف کچھ یوں کی تھی۔ democracy is govt for the people، by the people، of the people۔ یعنی عوام کی حکومت، عوام کے لئے حکومت، اور عام لوگوں کی ریاست پر حکمرانی۔

لبرل اور سیکولر دونوں جمہوریت یعنی ڈیموکریسی پر یقین رکھتے ہیں۔ اب چلتے ہیں atheism کی جانب۔ اتھیزم کو پہلے الگ الگ کر کے پڑھیں۔ اے اور تھیزم۔ اے تھیاس گریک لفظ ہے جس کا مطلب ہے گاڈ۔ وہ لوگ جو خدا پر یقین نہیں رکھتے انہیں atheist کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس نظریے کو atheism کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اور لفظ ہوتا ہے agnostic۔ اگناسٹک وہ انسان ہوتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ وہ یقین سے کچھ نہیں کہ سکتا کہ خدا ہے یا نہیں ہے۔ اسے اس بارے میں نالج ہی نہیں ہے۔ ناسٹک کا مطلب ہوتا ہے نالج۔ ہم ایک لفظ کثرت سے سنتے ہیں۔ اس لفظ کا نام ہے fascism فاشزم۔ اس کے معانی و مطلب اور تاریخی حقائق کیا ہیں۔ بنیادی طور پر فاشزم بیسویں صدی کی ایک اہم سیاسی تحریک تھی جو یورپ میں ابھری تھی۔ تاریخ دانوں کے مطابق بیسویں صدی کی ابتدا میں یہ تحریک یورپ میں بہت مقبول تھی۔ فاشزم بنیادی طور پر ایک ایسی خوفناک اور انتہا پسندانہ قومیت پرستی کا نام ہے جو ظلم کے ذریعے آمریت کی خواہش مند ہے۔

فاشسٹ بنیادی طور پر اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی مخالفین کو طاقت کے بل بوتے پر تباہ و برباد کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یورپ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ فاشسٹ تحریک ابھری۔ مگر فاشسسٹ ذہنیت اس سے پہلے یورپ میں موجود تھی۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ جرمن فلاسفر نطشے کے سیاسی خیالات سے فاشسٹ تحریک نے جنم لیا تھا۔ نطشے کے مطابق یورپ میں ایک غلام ذہنیت پیدا ہو چکی تھی۔ عیسائیت بنیادی طور پر غلاموں کا مذہب تھا۔

روم کے خلاف بھی انہی غلاموں نے بغاوت کا علم بلند کیا تھا اور اس کے بعد عیسائیت نے انہی غلاموں میں جنم لیا اور اس کے بعد یہ دنیا کے باقی حصوں میں پھیل گئی۔ نطشے کا کہنا تھا کہ یورپی سماج میں اب جدید علم و فکر آ چکا ہے۔ جدید سائنس ترقی کرچکی ہے اور مزید ترقی کے ہو رہی ہے۔ اس لئے اب یورپین سماج کو عیسائیت کی ضرورت نہیں رہی۔ نطشے کو مطابق یورپ کو عیسائی مذہب کے علاوہ نئی سوچ اور ذہنیت mindset کی ضرورت ہے۔ وہ کہتا تھا کہ نئی سوچ کی بنیاد پر یورپ کے سماج کی تعمیر کی جانی چاہیے۔ اسی لئے جرمن فلاسفر نطشے نے سپر مین کا آئیڈیا دیا وہی سپر مین جس سے اقبال نے شاہین کا نظریہ تراشا۔

نطشے کہتا تھا کہ یورپ کے ہر انسان کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ وہ طاقت حاصل کرے۔ جو انسان طاقتور بن سکتا ہے اسے یہ کوشش کرنی چاہیے۔ جب معاشرے کے تمام فرد طاقتور ہوں گے تو اس سے تمام سماج طاقتور ہوگا۔ نطشے کے مطابق دنیا کا ہر وہ خیال یا تصور اعلی و ارفع ہے جو انسان کو طاقتور بناتا ہے۔ ہر وہ خیال یا سوچ جو انسان کو کمزور کرے۔ اس طرف انسانوں کو نہیں جانا چاہیے۔ اس کے نزدیک عیسائیت کمزوری اور لاچارگی کی علامت ہے۔

نطشے کے سپر مین کے نظریے سے لاکھوں کی تعداد میں یورپین شہری متاثر تھے۔ وہ پہلے لوگ جو سپر مین جیسے خیال سے متاثر تھے وہ فاشسٹ کہلائے۔ یہ فاشسٹ اس وقت یورپین روایات اور تہذیب و کلچر کے سخت خلاف تھے۔ قدیم روایات کی بجائے وہ جدید تصورات کے حامی تھے۔ پہلی جنگ عظیم برپا ہو چکی تھی۔ یورپ میں ہر طرف افراتفری اور بحران کا عالم تھا۔ معیشت، سماج اور معاشرت تباہ ہو چکی تھی۔ یورپ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد جتنی بھی حکومتیں یا حکمران اقتدار میں تھے ان سے معاملات سنبھل نہیں پا رہے تھے۔

سماج، معیشت اور گورننس سسٹم حکمرانوں سے سنبھل نہیں رہا تھا۔ جنگ عظیم کے نتیجے یورپین لوگوں میں اعتماد میں بھی کمی آ چکی تھی۔ دوسری طرف مزدور اور کسان تحریکیں طاقتور ہو چکی تھی۔ ہر طرف کسانوں کا غلبہ تھا۔ 1917 میں اس وقت کے سویت یونین اور آج کے روس میں بالشویک انقلاب آ چکا تھا۔ سوویت یونین کے کئی علاقوں میں سوشلزم بطور ایک نظام قائم ہوچکا تھا۔ سوویت یونین کے ساتھ اب سوشلزم اٹلی، جرمنی، انگلینڈ وغیرہ میں بھی پھیل رہا تھا۔

یورپ میں بھی مزدوروں اور کسانوں کی تحریکیں سماج میں اپنی جگہ بنا چکی تھی اور تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔ اس تمام صورتحال میں پہلی مرتبہ اٹلی میں فاشسٹ پارٹی نمودار ہوئی، اس سیاسی پارٹی کا ایک لیڈر تھا جس کا نام تھا مسولینی ۔ مسولینی پہلے اٹلی میں سوشلسٹ پارٹی کا ایک مرکزی رہنما تھا۔ بعد میں اس نے کہا کہ سوشلسٹ پارٹی نے پہلی جنگ عظیم میں اٹلی کے حکمرانوں کا ساتھ نہیں دیا، اس لئے اس نے سوشلسٹ پارٹی کو خیر باد کہا۔

سوشلسٹ پارٹی چھوڑنے کے بعد اس نے ایک نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا نام اس نے فاشسٹ پارٹی رکھا۔ یہ فاشسٹ پارٹی جرمن فلاسفر نطشے کی سوچ کی بنیاد پر نمودار ہوئی تھی۔ اس پارٹی نے ایک نئی تحریک کو پروان چڑھایا، جس کا نام تھا بلیک شرٹ موومنٹ۔ بلیک شرٹ تحریک کے فاشسٹ کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ یورپ سے کمیونسٹ خیال اور سوشلزم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے۔ بہت سے علاقے کیونکہ اس زمانے میں مزدوروں اور کسان یونییز کے کنٹرول میں تھے۔

سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے فاشسٹ پارٹی کی خوب فنڈنگ کی اور بہت سارا پیسہ ان کو دیا تاکہ یہ لوگ پیسے اور دھونس دھاندلی کی بنیاد پر مزدور و کسان کی تحریکوں کا خاتمہ کرسکیں۔ دولت اور طاقت کی بنیاد پر مزدور و کسان تحریکیں ختم کردی گئی اور تمام علاقے فاشسٹ پارٹی کے کنٹرول میں چلے گئے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے جبکہ فاشسٹ اب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے پیروکار تھے۔ فاشزم کی بنیاد دائیں بازو پر تھی۔

سرمایہ دار اور فیوڈلز ان کی بھرپور مدد کر رہے تھے وہ چاہتے تھے کہ ان کی زمینیں اور جائیداد واپس مل جائیں۔ بائیں بازو کی مخالفت میں اب مسولینی اقتدار میں آ چکا تھا۔ جرمنی میں اس کے خیالات کو پذیرائی مل چکی تھی۔ اس وقت جرمنی میں لبرل حکومت تھی اور شدید بحران کی کیفیت تھی۔ اسی دوران جرمنی میں ہٹلر نے ایک اور فاشسٹ پارٹی بنائی جس کا نام تھا نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی جسے مختصر کر کے بعد میں نازی پارٹی کہا گیا۔

نازی پارٹی کے ورکرز بھی مزدوروں میں گھل مل گئے اور اس طرح انہوں نے کسانوں اور مزدوروں کی یونینز کو تباہ و برباد کر ڈالا۔ نازی پارٹی کے لوگ براون شرٹ پہنتے تھے، کسانوں، مزدوروں، کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے خلاف تھے۔ نازی پارٹی کو بھی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی مالی مدد حاصل تھی۔ 1933 میں ہٹلر جرمن پارلیمنٹ کا حصہ بن چکا تھا۔ اس کے پاس پارلیمنٹ میں 30 فیصد سیٹیں تھی۔ اسی زمانے میں پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور آگ لگا دی گئی۔ ہٹلر نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا۔ ہٹلر نے کمیونسٹ پارٹی پر الزام لگایا کہ یہ آگ کمیونسٹ پارٹی کے ورکرز نے لگائی تھی۔ اس طرح جرمنی میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی۔ لبرل، ڈیموکریٹس سمیت تمام اپوزیشن کو ہٹلر نے طاقت کے زور پر کچل ڈالا۔ اب جرمن فلاسفر نطشے کا سپر مین ہٹلر اقتدار میں تھا۔

اقتدار میں آتے ہی اس نے اعلان کیا کہ جرمن قوم جنگ کے لئے تیار ہو جائے۔ سرمایہ دار اور فیوڈلز اس کے ساتھ تھے۔ ہٹلر کے فاشسٹ خیالات اب پورے یورپ میں پھیل رہے تھے۔ نطشے کے سپر مین ہٹلر پر خون سوار تھا۔ ایک طرف وہ یہودیوں کا قتل عام کر رہا تھا تو دوسری طرف وہ علاقے فتح کر رہا تھا۔ ہٹلر کو تیزی سے کامیابیاں مل رہی تھی۔ یورپ کے بہت سے ملکوں کے حکمرانوں نے ہٹلر کے سامنے سرنگوں کر دیا اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔

اس طرح نطشے کے سپر مین ہٹلر کی فاشسٹ تحریک پورے یورپ میں پھیل گئی۔ چیکو سلواکیہ کے علاوہ پولینڈ پر بھی ہٹلر قابض ہوگیا۔ اس کے بعد فرانس پر حملہ کر کے اسے اپنے کنٹرول میں لیا۔ ہٹلر کی فورسز نے روس پر بھی حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں 50 ملین افراد مارے گئے۔ اس جنگ کو تاریخ میں دوسری جنگ عظیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سوویت یونین یعنی روس اور اتحادیوں کو کامیابی ہوئی۔ ہٹلر کے عبرت ناک انجام کے بعد اب یورپ میں لوگ فاشسٹ تحریک اور فاشزم سے نفرت کرنے لگے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ ہٹلر کے خیالات کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ لوگ اب فاشسٹ قوتوں کو کسی صورت اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ فاشزم اب ایک بہت بڑی گالی بن چکی تھی۔ فاشزم کے نظریے کی وجہ سے پچاس ملین افراد مارے گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments