استاد اور معاشرہ



ادنیٰ جماعت سے پانچویں جماعت تک کا زمانہ گویا قابل رشک زمانہ تھا۔ ہم صبح اٹھتے، منہ ہاتھ دھو کر پہلے ”تختی“ چھاپتے، پھر سلیٹ دھوتے اور اس کے بعد کاپی مکمل ہے یا نہیں یقین دھانی کے لئے چیک ضرور کرتے تھے۔ یہ کام کر لینے کے بعد ہم اپنا بستہ لیکر، بستے میں موجود تمام چیزیں چیک کرتے، اور ٹھیک وقت سے پانچ منٹ پہلے سکول پہنچ جایا کرتے تھے۔ یہ گاؤں کا سرکاری، پرائمری سکول تھا، جس کی عمارت سرے سے تھی ہی نہیں، بس ایک کچے مکان کی چھت ہمارا سکول ہوا کرتا تھا۔

لیکن استاد جی خدا لمبی عمر دے اس کچے مکان کی چھت پہ بٹھا کر سنگ مر مر کے فرشوں والے سکولوں میں پڑھنے والوں سے بھی زیادہ بہتر سکھایا اور پڑھایا کرتے تھے، انہوں نے جو پڑھایا وہ خوب تھا اور جو سکھایا وہ خوب تر، کیونکہ یہی وہ بنیاد تھی جس نے کبھی تعلیمی سفر میں تھکاوٹ محسوس نہ ہونے دی بلکہ ایسا جنون دیا کہ باوجود وسائل نہ ہونے کے ذاتی کاوشوں کے ملبوتے پر جہاں تک نصیب میں تھا وہاں تک پڑھا اور پڑھا ہی نہیں بلکہ مقصد تعلیم کو سمجھ کر پڑا کسی نوکری کے لئے ہر گز کوئی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش نے کبھی دل میں جنم نہیں لیا۔

خیر جس دن تختی چھاپ نہ سکتے، کاپی (ہوم ورک) مکمل نہ کر پاتے یا ہمارے سکول بستہ میں ہماری تعلیمی ضرورت کی اشیاء میں سے کوئی شے شارٹ ہوتی اس دن ہمارے چہرے لٹکے ہوتے، خوف ہمارے ماتھے سے ٹپک رہا ہوتا، سکول نہ جانا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، بہانہ کر بھی لیتے تو استاد جی خود گھر سے اٹھا لے جاتے۔ بس یہ خوف تھا، رعب تھا، اور ایک دبدبہ تھا جو خواہ مخواہ نہ تھا، استاد جی کا کمال تھا کہ وہ سزا ضرور دیتے مگر ہر سزا کے بعد سزا سے بچنے کے دو چار گر بھی سکھایا کرتے تھے۔ استاد جی کے اس خوف نے فرسٹ پوزیشن کے ساتھ جب پرائمری سکول سے الوداع کیا اور ہم ہائی سکول میں چلے گئے تو پورے سکول میں تمام بچے ہمیں کاپی کیا کرتے تھے اور ہائی سکول کے اساتذہ کرام ہمارے پرائمری کے استاد جی کو ہر روز مبارکبادیں بھی دیا کرتے تھے۔

استاد جی کی محنت نے ہمیں ایک کے بعد دوسری جماعت میں بغیر کسی نقل یا کسی کی مدد کے ترقی کرتے چلے جانے کے قابل بنایا۔ جب تک ہم مڈل تک پہنچے، تب تک ہمارے مسیحا استاد جی ہمارے ہی گاؤں کے سکول میں پڑھاتے تھے۔ اچانک ایک دن اطلاع ہوئی کہ استاد جی کا تبادلہ ہو گیا ہے، بعد میں پتہ چلا، ہوا نہیں، استاد جی نے تبادلہ کروا لیا ہے۔ کیوں؟ ”کیونکہ زلزلے کے بعد“ پڑھی لکھی لبرل آنٹیوں نے محلے کی عورتوں کو شعور جو دیا تھا کہ استاد آپ کے بچوں پر رعب جمانے یا انہیں سزا دینے کا حق نہیں رکھتا، اور یوں بس چند عورتوں نے استاد جی کو بری بھلی کہنا شروع کیں، روز کسی کی ماں اپنے لال کی صفائی پیش کرنے سوٹا اٹھائے سکول پہنچنے لگی اور تنگ آکر استاد جی کو سکول چھوڑ کر جانا پڑگیا“ ۔

وہ دن اور یہ دن، ہمارے بعد ہمارے محلے سے کوئی بچہ میٹرک پاس نہیں کر سکا، شاد و نادر بچے پرائمری کے بعد ہائی سکول جانے لگے مگر کیا جانا اور کیا نہ جانا ان بچوں کا جنہیں کسی کی تمیز ہو نہ ہی انہیں کسی استاد نے کلمہ، نماز تک یاد کروانے کی زحمت گوارا کی ہو۔ گویا استاد جی کے بعد ”سر“ کا زمانہ آیا اور ہمارا ”نو منتقل شدہ پرائمری سکول“ بانجھ ہو گیا، یہ بانجھ سکول چلتا تو رہا مگر اساتذہ دھوپ سینکتے، اخبار پڑھتے، گپیں ہانکتے اور چلتے بنتے رہے۔

یہاں تک کہ استاد جی کے بعد سکول کی رخصتی کا وقت جن دنوں قریب تھا ان دنوں استاد محترم نشے کی گولیاں کھا کر سکول شیلٹر میں آرام فرمایا کرتے، بڑے بچے ایک دوسرے کی دادی کو یاد کیا کرتے اور چھوٹے بچوں کو سکول چپڑاسی صاحب سبق پڑھاتے، نہ آتا تو لاتیں مارتے، اور سکول اساتذہ سمیت تمام بچے چپڑاسی کو ہیڈ ماسٹر صاحب کہہ کر بلایا کرتے تھے۔

جی ہاں پھر اس بے قدری مخلوق نے سکول کو اتنا تنگ کیا، اتنا تنگ کیا کہ سکول نے چیخ چیخ کر محکمہ تعلیم کو احساس دلایا اور سکول دوڑتا بھاگتا میرے میرے گاؤں (منکبوڑی تریڈہ) سے واپس سربن (پہاڑ کی چھوٹی پر واقع ایک چھوٹے سے چند گھروں پر مشتمل محلے ) جا پہنچا۔ آج کل محلہ، سکول سے محروم اور محلے والے بچوں کی تعلیم کے احساس سے محروم ہیں۔۔۔

محلے کے چند ایک لوگوں نے احتجاج کیا تھا، کچھ نے مجھے بھی اس حوالے سے چیخ و پکار پر ابھارا تھا مگر میں تو ان محلے داروں کو کوسنے کے بغیر کچھ کر ہی نہ سکتا تھا جنہوں نے پہلے میرے روحانی باپ (استاد) کو گالیاں دیں اور بعد ازاں استاد کو بے وقعت کر کے چپڑاسی کو ہیڈ ماسٹر بنائے رکھا اور پھر سکول کو دھکے دے کر سمیت ماضی کے گاؤں سے ہی نکال دیا۔ مجھے جب یہ پتہ لگا تو میں نے کہا: انا اللہ و انا الیہ راجعون۔

میں آج بھی اپنے ماضی کے کچے کوٹھے کی چھت کو زمانے کا سب سے اعلیٰ سکول اور اپنے پہلے استاد جی کو زمانے کا سب سے بہترین استاد مانتا ہوں، اپنے ماضی پر رشک، حال پر شکر اور مستقبل کے لئے اچھی امید رکھتا ہوں مگر میرے گاؤں کے بچے ہماری طرح کے سکول اور استاد سے محروم ہیں۔ مجھے اس پر دکھ ہے اور سخت رنجیدہ ہوں کہ میرے معاشرے میں استاد کے مقام کو گرانے کے لئے میرے سامنے شعور کے نام پر جہالت کو پرموٹ کیا گیا اور اس وقت میں سمجھ پایا نہ ہی کچھ کر سکتا تھا، نہ کر پایا۔

ہاں یہ بات ضرور ہے کہ میں استاد کی طرف سے بچوں پر سختی کا سخت حامی ہوں بلکہ میں نے جس ماحول میں سب کچھ سیکھا اس کے تناظر میں سمجھتا ہوں کہ سختی اور لاڈ پیار کی کھچڑی بنائے بغیر بچے باقی سب کچھ تو بن سکتے ہیں مگر ان کی تخلیقی صلاحیتیں سے بیدار نہیں ہو سکتیں۔ معاشرہ استاد کو اگر ایک ملازم تصور کرتا رہے گا اور بچے استاد کو ماسٹر سکول والا مانتے رہیں گے تو روشن مستقبل اور پرامن ماحول کی امید دیوانے کے خواب سے کم نہیں ہوگی۔

ٹھیک ہے بچوں کو مارنا کسی مسئلے کا حل نہیں مگر برے کاموں سے باز رکھنے واسطے بچوں کو لگام دینا بچوں سے متعلق تقریباً نوے فیصد مسائل کا مثبت و موثر ترین حل ہے۔ اگر ہم اپنی نسلوں کو تباہ نہیں کرنا چاہتے تو استاد کو عزت و احترام کے ساتھ ساتھ بچوں پر والدین کی طرح سختی کرنے کے اختیارات بھی دینا ہوں گے ۔ لیکن اساتذہ کو، درندوں کو ہر گز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments