قحطِ جناح میں مبتلا


آج مجھے مسز سیال کو کتابیں واپس دینے جانا تھا جب میں گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو وہ بالوں میں کوئی غیر معروف سا پھول سجائے پودوں کی آبیاری کر رہی تھی۔ دن ڈھلنے کو تھا لیکن تپش کا احساس برقرار تھا۔ ان کے نزدیک ہی ان کا آٹھ سالہ نواسہ ویل چیئر پر بیٹھا تھا جبکہ ایک نوعمر لڑکی اس کے سامنے بیٹھی جھاگ کے بلبلے بنا رہی تھی جن کو ہوا میں اڑتے گھومتے دیکھ کر وہ مبہم آوازیں نکالتا اور ہاتھوں سے تالیاں بجانے کی کوشش کرتا تھا۔

میرے جانے پر مسز سیال میری جانب پلٹیں اور مسکرائیں۔ وہ ایک عہد کا چہرہ تھا جو نجانے کیا کیا دکھ جھیل چکا تھا۔ سلام دعا کے بعد ہم ان کے گھر کے اندرونی حصے کی طرف چل دیے۔ میں نے ان سے کتابیں دیر سے لوٹانے پر معذرت کی اور انہیں بتایا کہ جون میں کرونا وائرس کے بہت زیادہ پھیلاؤ کے سبب میں نے خود کو بالکل گھر تک محدود کر لیا تھا لیکن آج آپ سے ملنے کو بہت دل چاہ رہا تھا اس لیے آ گئی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولیں، ’احتیاط اچھی ہے اور ویسے بھی آپ اس قوم کا حصہ ہیں جو لاوارث ہے۔‘

اٹھاون سالہ مسز سیال کے والد تحریک پاکستان کا حصہ تھے ان کے والد اس وقت اپنی عمر کی پچیس بہاریں دیکھ چکے تھے جب پاکستان نے دنیا کی گود میں آنکھ کھولی۔ ہم اپنی اپنی نشست پر بیٹھ چکے تھے اور میرے ذہن میں ایک لفظ اٹک چکا تھا۔ ’میڈم ہم لا وارث قوم ہیں، وہ کیسے‘ ؟ میں نے قدرے توقف کے بعد پوچھا۔ ’ہاں ہم ہیں، کیونکہ آپ کے پاس سیاست اور سیاستدان تو ہیں لیکن کوئی رہنما نہیں۔ اور پھر آپ اور ہم ہی تو اس مفاد پرست قسم کی سیاست کا ایندھن ہیں۔

بھلا ان سیاسی جلسے جلوسوں میں دھکے کھانے والے افراد سے کوئی پوچھے کہ آخر کیوں خوار ہو رہے ہو؟ تمہارا ویژن کیا ہے؟ نظریہ کیا ہے؟ چاہتے کیا ہو؟ یقین مانو انھیں نہیں معلوم ہو گا۔ کیونکہ وہ جن کو اپنا رہنما مانتے ہیں وہ خود بھی نہیں جانتے۔ جاننا چاہتے بھی نہیں کیونکہ نظریہ ان کی ترجیح ہی نہیں۔ وہ جب بات شروع کرتی تھیں تو ان کے لفظوں میں بہت خوبصورت بہاؤ ہوتا تھا اور میں صرف سنتی تھی کیونکہ مجھے ان کی باتیں ہمیشہ بہت اہم لگتی۔

’ہماری بدقسمتی کی حد‘ انہوں نے بات جاری رکھی کہ ’پچھتر سال میں کوئی جناح نہ ملا دوبارہ۔ ایسا قحط جناح، اور جو بیج ہم نے بوئے انھی سے شجر ہوئے ناں؟ حکمران بھی ہمیں سے ہیں۔ ہماری جھاگ۔ جمہوریت کے کھوکھلے کارتوس میں خاندانی سیاست دان اور ڈھکی چھپی بادشاہت کا بارود، لوٹ مار کا بازار، معاشرے کے وسط میں حکمران اور حاشیوں پر عوام۔ پھر یہی خاندانی سیاست کے وارث اپنے استعماری آقاؤں کے دیس سے پڑھ لکھ کر واپس آتے ہیں اور مقامی لوگوں کی سوچ کو تسلط میں لے لیتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے سامراجی آقا کرتے تھے‘ ۔

’ لیکن میڈم رہنما نہ سہی بہت سے دانشور بھی تو ہیں جو قوم کی تربیت کر سکتے ہیں‘ ؟ میں نے اپنی طرف سے ایک استثنا لیا۔ دانشور؟ وہ گویا ہوئیں، ’دانشور کی کیا تعریف ہے؟ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ اس عہد میں دانشور کہلانے کے لیے سب سے پہلے اعلان کرنا پڑتا ہے کہ میرا کوئی مذہب نہیں۔ خدا سے شروع ہو کر مذہب، وطن اور غریب کے ہر سہارے کو تشکیک کی نظر سے دیکھا اور دکھایا جاتا ہے۔ اکثر کے ذہن میں علم کے انبار، لیکن کیا یہ علم نافع ہے؟

جو خدا کے ہونے کی امید کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں ان کے لئے تو قیامت ہے یہ فقرہ کہ ’خدا مر گیا‘ میں نے دیکھے ہیں کئی دانشور اپنے ہی ملک کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر جناح پر سوال اٹھاتے ہیں۔ آزاد خیالی کی مہر لگوانے کو اسی ملک کی چار دیواری کے اندر نظریہ پاکستان پر سوال اٹھاتے ہیں۔ بھلا کون ان دانشوروں کو سمجھائے کہ خدا پر سوال کرتے ہو تو نکل جاؤ اس کے پھیلائے آسمان کے کناروں سے باہر۔ وطن پر تشکیک ہے تو ان لوگوں کی جنت نہ چھینو کہ جو بھوکے رہ کر بھی محب وطن ہیں۔ ان کے پاس اور ہے ہی کیا سوائے اس بھرم کہ وہ ایک اپنے آزاد ملک کے شہری ہیں؟ ایک ہجوم ہے جو سسک رہا ہے غربت بیماری اور افلاس سے۔ اور اکثر دانشور ہمت اور مثبت سوچ کی بجائے مایوسی پھیلاتے ہیں۔ دانشور تو بہت پیدا کیے قوم نے بس ایک جناح نہ ملا کوئی اور۔

’میڈم آپ کے والد تو تحریک پاکستان کے زندہ کردار تھے وہ آپ کو کیا بتاتے تھے تھوڑا وقت ہے تو مجھے ان کے بارے میں بتائیں‘ ۔ میں نے ان سے پوچھا۔ ’ہاں وقت کیوں نہیں ہے‘ ؟ وہ بڑی محبت سے بولیں۔ ’میرے پاس انہی یادوں اور باتوں کا تو خزانہ ہے جو میں اگلی نسل کے سپرد کرنا چاہتی ہوں یہ حقیقت ہے کہ منج پر کھڑے کردار تاریخ ساز لوگ ہوتے ہیں۔ ہجوم کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ لیکن میرے والد کو اس ہجوم کا حصہ بننے پر فخر تھا کیونکہ منج پر جناح کھڑے تھے، جنہوں نے اس ہجوم کو رخ بتا کر، سمت دے کر ایک قوم بنا دیا۔

تب اگر وسط میں جناح، اقبال، لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، رحمت علی، اور ان جیسے کئی عظیم رہنما تھے تو برصغیر کے مسلمان ان کے حاشیوں پر ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے ایک آہنی دیوار کی مانند۔ میرے ابا نے تحریک میں حصہ لیا، تقریریں سنیں، جیل کاٹی، نعرے لگائے اور تحریک کے نمایاں کرداروں کے گرد موجود رہے۔ جب تاریخ لکھی جاتی ہے تو وہ عموماً ہیروز کے گرد گھومتی ہے۔ میں جب بھی تاریخ کا یہ باب پڑھتی ہوں تو بین السطور اپنے ابا کو ڈھونڈتی ہوں۔

وہ وہاں موجود ملتے ہیں مجھے۔ وہ مطیع تھے، لیکن گم شدہ نہ تھے۔ وہ ثانوی تھے لیکن کارواں کا حصہ تھے۔ کارواں سے اٹھنے والی دھول مٹی ہرگز نہ تھے۔ خواہ وہ تاریخ کا گمشدہ کردار ہیں لیکن اس کا حصہ تھے۔ وہ تحریری تاریخ کی لکیر سے نیچے کے لوگ ہیں لیکن انہوں نے خواب دیکھے، نئے وطن کے، قومیت کے، پھر ادھر آ کے بقا کے لیے دھکے کھائے، لیکن وہ مجھے ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ یاد رکھنا یہ آغاز ہے۔ ہم نے قربانی دینی تھی، دے دی، تم لوگ وسط میں ہو محنت کرو۔

تم سے اگلی نسل ہماری قربانی اور تمہاری محنت کا پھل کھائے گی۔ دنیا میں ہمارے وطن کا نام ہوگا انصاف ہوگا، مسائل کا حل ہوگا۔ سب کچھ معاشرے کے وسط کے لئے ہی نہیں، معاشرے کے حاشیوں میں بھی رنگوں کی بہار ہو گی۔ بس محنت کر جانا ہمت نہ ہارنا۔ میں نے اور میرے سے بہت سے لوگوں نے ایمانداری سے محنت کی، لیکن سمجھ نہیں آتا کہ وسط میں کوئی جناح کیوں نہیں۔ بابا اور ان کا عہد ہمیں خواب سونپ گیا جو ہم نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے۔

لیکن رفتہ رفتہ یہ خواب نجانے کیوں سنگریزے بن گئے۔ کیا لوح پر لکھا ہی نہیں قوم کی قسمت میں ایک اور جناح جیسا؟ یا ہم تخلیق ہی نہ کر پائے؟ خواص و عوام میں بٹی یہ قوم شناخت تو پا گئی، لیکن سمت کے لیے ابھی بھی بھٹک رہی ہے۔ لوگ لمحہ لمحہ زندگی گزارتے ہیں۔ اور اپنے ہجوم ہونے پر نازاں نہیں کیونکہ سامنے مینیج پہ کوئی جناح نہیں۔ کوئی سورج چمکے گا تو ہی سورج مکھیوں کو رخ ملے گا۔ وہ خاموش ہو گئیں۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میڈم۔

میں نے ان سے رخصت لی اور باہر آ گئی۔ لان میں بیٹھا ان کا نواسہ اسی طرح وہیل چیئر پر بیٹھا پانی کے بلبلوں کو فضا میں جاتا دیکھ رہا تھا جو سب بے سمت، محض چند لمحوں کی اڑان پر تھے۔ اور ایک لمحے کے لیے اس کے پیچھے مجھے ایک قوم کی جھلک نظر آئی، مفلوک الحال اور قحط جناح میں مبتلا۔

نغمانہ حسیب
Latest posts by نغمانہ حسیب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments