امریکہ میں درد کش ادویات کا استعمال اور موت کی وبا 


(دوسرا اور آخری حصہ )

بات امریکہ میں افیون اور اس سے بننے والی منشیات سے ہونے والی اموات کی وباءسے شروع ہو کر افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والی طویل جنگ تک پہنچی ہے کیونکہ اس نے اس صورتحال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

خون آشام جنگوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی ملک کا دوسرے پہ حملہ کا مقصد اس کے وسائل پہ قبضہ اور تسلط قائم کرناہے۔ اس وقت دنیا میں تیل اور ہتھیاروں کے بعد منشیات کا حصول دولت حاصل کرنے کا تیسرا اہم ذریعہ ہے۔ واضح ہو کہافغانستان دنیا کی نوے فی صد افیون کاشت کرتا ہے۔

جنگوں سے متعلق حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ ان سیاسی دنگلوں کا عوام پہ کتنا منفی اثر پڑتا ہے۔ اگر امریکہ افغانستان کے درمیان جنگ میں 149 ہزار شہری مارے گیے (واٹسن رپورٹ 2015 ) تو اُدھر 2000 سے 2014 کے دوران پانچ لاکھ امریکی شہریڈرگ اوور ڈوز کا شکار ہوئے۔ جن میں محض 2014 میں اوپیائڈز اور ہیروئن سے مرنے والوں کی تعداد، 000 47 تھی۔ (سی ڈی سی)

افغانستان نارکو اسٹیٹ کیسے بنا؟

مشہور صحافی میتھیو ایکن کے مطابق افغانستان کو نارکو ریاست بنانے میں امریکہ نیٹو اور سی آءاے کے علاوہ اور بہت سے ”کرم فرما ¶ں“ کا ہاتھ تھا۔ نائین ایلیون کے بعد افغانستان پہ حملہ اور تیرہ سالہ جنگ اور طویل قیام کا جواز جو امریکہ نے دیا اس کے مطابق اس کامقصد طالبان کی دہشت گردی پہ قابو، منشیات کا خاتمہ اور ایک جنگ گزیدہ، زخموں سے چور افغانستان کی دھرتی کو امن اورخوشحالی کی پوشاک پہنانا تھا۔ تو کیا واقعی حقائق ہمیں یہی بتاتے ہیں؟

جس وقت امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا تو طالبان کے لیڈر ملا محمد عمر کے منشیات کے خلاف فتوی پہ علم پیرا ہونے کے سبب افیون سے سونا اگلتی فصل ماند پڑ چکی تھی یعنی محض کچھ علاقوں میں ہی صرف 185 ٹن کی فصل ہی باقی تھی۔ (اب یہ بات اور ہے کہ اس حکومت میں جہالت کے نشہ کو طاری کر کے لڑکیوں کی تعلیم پہ پابندیاں لگائی گئیں۔ عورتوں کو گھروں میں بٹھایا گیا اور مردوں کی داڑھیوں کی لمبائی میں اسلام کو قید کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ )تاہم امریکی حملہ کے محض چھ ماہ بعد 2002 میں افیون کی فصل دوبارہ اپنے جو بن پہ تھی۔ یعنی کہ یو ایس، نیٹو افواج کی سرکردگی میں 0043 ٹن افیون پیدا ہوئی۔ یہ کیسے ہوا؟ ظاہر ہے کہ اس دوران کٹھ پتلی حکومت حکومت کے صدر حامد کارزئی نے منشیات کے بیوپار میں ملوث سرغنہ افراد کو اعلی عہدوں پہ فائز کیا جس میں خود ان کا بھائی احمد ولی کارزئی شامل تھا۔ اس طرح ان فصلوں کی آبیاری میں یوایس، نیٹو افواج، سی آئی اے اور کٹھ پتلی حکومت کے اہل کاروں کا ہاتھ تھا کہ جنہوں نے نہ صرف ان فصلوں سے چشم پوشی کی بلکہ باقاعدہ نگرانی کی۔ تاکہ کھربوں ڈالرز کی رقم کا منافع حاصل ہوسکے۔ منافع کی بہتی گنگا سے امریکی بینکوں نے بھی خوب ہاتھ دھوئے۔

دیکھا جائے تو 1979 سے 1989 کے دوران افیون کی کاشت افغانستان اور پاکستان کے محدود علاقہ تک محیط تھی۔ حملے کے بعد اس فصل کی بڑے پیمانے پہ کاشت کرنا، ہیروئن کی تیاری اور اسے دنیا میں پہنچانا سی آئی اے کا منصوبہ اور امریکی حکومت کی خارجہ پالیسی کا تعاون چند عوامل ہیں کہ جس نے افغانستان کو ”نارکو اسٹیٹ“ میں تبدیل کردیا۔ 2015 میں افغانستان نے دنیا کونوے فی صد افیون فراہم کی اور جو ملک کی جی ڈی پی کا پچاس فی صد ہے۔ لیکن اس دولت نے عوام کو کیا دیا؟ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

افغانستان سے لمبا سفر طے کرتی منشیات کی بارات بالخصوص ہیروئن نے امریکی عوام میں موت کی وبا کو عام کیا۔ اور اس کے ذمہدار افغانی حکومت کے اہلکار، اسمگلر اور دہشت گر د ہی نہیں، امریکی ادارے اور وہ سرغنہ افراد بھی ہیں کہ جن کے دل و دماغ کودولت کی طمع نے بے حس بنا دیا۔ منشیات اور موت کا یہ سیلاب کسی غیر کے آشیانے کو ڈھائے یا اپنے گھر آنگن میں تباہی، انہیں اپنی تجوریاں بھرنے سے غرض رہی ہے۔ ان سے یہ توقع رکھنا حماقت ہے کہ یہ جنگ کی تباہیوں سے بدحال افغان عوام کواستحکام دیں یا جنگ سے ہونے والی، غربت بیروزگاری اور جہالت سے نجات دلائیں۔ ویسے بھی انقلاب اور تبدیلی کی فصل تو گھرآنگن کی کیاریوں میں اپنے ہی بیجوں سے اگتی ہے۔ افیون سے حاصل دولت نے افغان عوام کو نشہ کی لت اور سماجی مسائل کاپہاڑ ہی تو دیا ہے۔

افغانستان ہی نہیں جنگ اور منشیات کے ہاتھوں تباہ کاری کے وار پڑوسی ملک پاکستان پہ بھی بہت منفی پڑے ہیں۔ آج پاکستان میں کھانے سے زیادہ ہیروئن سستی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منشیات کا 43 فی صد حصہ کراچی کے راستے ہوتا ہوا دنیا میں جاتاہے۔ ”دی نیویارک ٹائمز“ میں چھپنے والے مضمون کے مطابق پاکستان میں 1980 میں منشیات کے عادی افراد کی کل تعداد پچاس ہزارتھی۔ یونائیٹڈ نیشن آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم کے مطابق تقریباً 67 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں تو چالیس لاکھ کو اس کی لت لگی ہوئی ہے۔ اس طرح اب پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والوں ممالک میں ہے۔ UNODC کے مطابق پاکستان میں 44 ٹن ”ہیروئن“ استعمال ہوتی ہے جو اکثر انجیکشن سے استعمال ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ایچ آئی وی کاتناسب بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق پاکستان میں روزانہ سات سو افراد منشیات کے استعمال سے مرتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ یتیم صوبہ بلوچستان میں صورتحال تو انتہائی تشویش ناک ہے۔

اس طرح دیکھا جائے تو منشیات نے عالمی سطح پہ نسلوں کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گو اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے تاہم نیشنل سیفٹی کونسل آف امریکہ نے بالخصوص نسخہ والی ڈرگ اوور ڈوز سے ہونے والی اموات پر قابو پانے کے لیے چند ایک تجاویز دی ہیں۔

1۔ نسخہ لکھنے والوں کی تعلیم دواؤں کے متعلق تفصیلی ہو اور اسے اس دوا کے فوائد اور نقصانات کی تحقیق کا پوری طرح علم ہو۔

2۔ اس دوا سے متعلق سی ڈی سی کی گائیڈ لائین ضرور متعین ہوں تاکہ صارفین اس کے متعلق پوری معلومات جان کر ہی استعمال کافیصلہ کر سکیں۔

3۔ درد مینج کرنے والی کلینکز اور اس کی سروسز کو بہتر انداز میں ریاستی سطح پہ ریگیولیٹ کیا جائے۔ جعلی نسخہ لکھنے والوں کا خاتمہ ہو۔

4۔ نیلیکسون nalxone تک رسائی آسان ہو۔ یہ وہ کیمیکل ہے جو اوورڈوزسے ہونے والی اموات کو فوری طور پہ روکنے میں مدد دیتاہے۔ اس کے منفی اثرات نہیں اور یہ قانونی طور پہ بغیر نسخہ کے مہیا ہے۔

5۔ وہ لوگ جو دردکش ادویات یا ہیروئن کے استعمال کے عاری ہیں ان کا علاج خاص کلینکز میں ہو۔ جہاں دردکش ادویات کے نشہ سے مخصوص پروگرامز ہوتے ہیں مثلا MAT یا medically assisted treatment۔ اس کے علاوہ prescription drug monitoring program۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments