خلافت کمالیہ کا بلوچستانی ایئر ایمبولینس


بلوچستان حکومت کے بجٹ کا سرسری جائزہ لینا بیٹھا ہوں یوں لگا جیسے اچھے مقرر نے الفاظ کے ہیر پھیر سے سب کو مطمئن اور رائے عامہ اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے میں نے ابھی صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی کی بجٹ تقریر کے کچھ صفحات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے معلوم ہوا کہ جام کمال کی حکومت نے عوام کے ساتھ ساتھ اپنے پارلیمنٹرین کو بھی ماموں بنانا شروع کر دیا۔ پچھلے سال۔ 923۔ 419 ارب کا بجٹ تھا جب کہ خرچ 327۔ 380 ارب روپے ہوئے۔ اس طرح نالائقی کی وجہ سے تقریباً 40 ارب خرچ ہی نہ ہو سکے۔ جس پر ان کی باز پرس ہونی چاہیے۔ اب اس سال

528۔ 465 ارب کا بجٹ دکھایا گیا ہے۔ جب کہ این ایف سی سے 30 ارب کم ملیں گے اور کورونا کی وجہ سے صوبائی محصولات میں بھی کمی ہوگی۔ بلکہ کہا گیا ہے کہ محصولات میں 360 ملین کا ریلیف دیا گیا ہے۔ اس طرح کل خسارہ 614۔ 87 ارب دکھایا گیا۔ بھئی یہ 87 ارب کا خسارہ پورا کرنے کے لئے کس آئی ایم ایف کے پاس جاؤ گے۔ ذرا یہ بھی بتا دیتے۔ اگر قرضہ مل گیا تو اتارو گے کیسے۔ کچھ نہیں بتایا یا بتانے کے لیے کچھ ہے بھی نہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں 6840 آسامیاں بھی رکھی گئی ہیں۔ اگر شرم نہ آئے تو یہ بتا دیں کہ پچھلے سال جو آسامیاں دکھائی گئی تھیں ان میں سے کتنی پر ہوئیں آیا پچھلے والی آسامیاں بھی اس میں شامل ہیں یا خالص نئی ہیں۔ اگر کسی کو معلوم ہو جائے تو مجھے بھی مطلع کر دینا۔ اس غیر حقیقی بجٹ کے پیچھے ایک ہی تھیوری ہے کہ ڈنگ ٹپاؤ۔ ٹائم پاس کرو جو بھی کہے بجٹ میں شامل کرلو۔ ہونا تو کچھ نہیں ہے۔ میں نے بجٹ تقریر پڑھنا بند کی تو خیال آیا کہ صوبے کے قیمتی ترین لیپ ٹاپ کے چالاک ترین مالک کا لیپ ٹاپ تو قومی ورثہ ہے اس میں اس کو مستقبل میں میوزیم میں رکھنا چاہیے کیونکہ اس میں خطوط کے ساتھ پی ایس ڈی پی بھی بنی ہے تقریر پڑھنا چھوڑ کر ممتاز کالم نگار حسن خاور نے اپنے کالم میں چاروں صوبائی حکومتوں کے بجٹ کا تقابلی جائزہ لیا ہے۔

جس کے مطابق ڈویلپمنٹ بجٹ کے اعتبار سے جس پنجاب اور کے پی کے پہلے نمبر پر ہیں کیونکہ ان حکومتوں کے ترقیاتی بجٹ پچھلے سال کے بجٹ کے تقریباً برابر ہیں جبکہ بلوچستان تیسرے نمبر پر ہے۔ گو بلوچستان نے اپنے ترقیاتی بجٹ میں 24 فیصد اضافہ کیا ہے لیکن 87 ارب کے خسارے کی وجہ سے یہ اضافہ بے معنی ہے۔ اور سندھ ترقیاتی بجٹ میں 23 فیصد کمی کی وجہ سے آخری نمبر پر

اگر بجٹ کو فی کس خرچ کے حساب سے دیکھا جائے تو

1۔ کے پی کے 8957 روپے فی کس خرچ کے اعتبار سے پہلے نمبر پر اور سندھ 4867 روپے فی کس خرچ کی وجہ سے دوسرے نمبر پر پنجاب 3067 روپے فی کس خرچ کی وجہ سے تیسرے نمبر پر جبکہ بلوچستان 2676 روپے فی کس خرچ کی بنا پر چوتھے نمبر پر ہے

صوبوں کی رینکنگ فی کس صحت پر خرچ کے لحاظ سے دیکھی جائے تو کے پی کے 3492 روپے فی کس سندھ 3396 روپے فی کس جبکہ بلوچستان 2998 روپے فی کس جبکہ پنجاب 2582 روپے فی کس اگر ڈھائی ارب روپے ایئر ایمبولنس کے نکال دیے جائیں تو بلوچستان ماشا اللہ آخری نمبر پر ہو گا۔ اگر مالیاتی ڈسپلن کے لحاظ سے چاروں صوبائی بجٹ کی رینکنگ کی جائے تو پنجاب 125 بلین کے سر پلس بجٹ کی وجہ سے پہلے نمبر پر کے پی کے بیلنس بجٹ کی وجہ سے دوسرے نمبر پر سندھ 18 بلین خسارے کی وجہ سے تیسرے نمبر پر بلوچستان 87 بلین خسارے کی بنا پر چوتھے نمبر پر۔

چاروں صوبوں کے بجٹ کو اگر ریلیف کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پنجاب 56 بلین کے ٹیکس ریلیف اور 30 بلین کے پبلک ورکس پروگرام کی وجہ سے پہلے نمبر پر ہے سندھ 34 بلین پیکیج کی بناء پر دوسرے کے پی کے 25 بلین کے ایمرجنسی فنڈ کی وجہ سے تیسرے بلوچستان 3 بلین کے ریلیف پیکیج اور 680 ملین کے ٹیکس ریلیف کی بناء پر چوتھے نمبر پر ہے مندرجہ بالا رینکنگ کو اگر بغور دیکھا جائے تو خلافت کمالیہ کے دور حکمرانی میں صوبہ بلوچستان دل عزیز معیار کی سب سے نچلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments