زیارت اور بلوچستان کے لوگوں کا قاتل کورونا وائرس؟


ظفرسید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ علامہ موفق الدین بغدادی کا شمار دنیا کے اولین سائنسدانوں میں ہوتا ہے جو پوسٹ مارٹم کرکے موت کی وجوہات کا پتہ چلانے کی کوشش کرتے تھے، علامہ موفق الدین نے اپنی کتاب ’طبائع البلدان‘ میں لکھا ہے : ’چین سب سے زیادہ وبائیں پھیلانے والی سرزمین ہے، ۔ یہ مختلف قسم کے طاعونوں اور مہلک امراض کی آماجگاہ ہے اور یہاں کے باسی ان سے بہت زیادہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علامہ موفق الدین 1231 میں فوت ہوئے ہیں لیکن ان کے قول سے آٹھ سوسال بعد آج بھی انکارنہیں کیا جاسکتا

اکیسویں صدی میں چین موجودہ صدی میں کئی بیماریاں پھیلی ہیں لیکن ان پر قابوپایا گیا، 18 سال قبل سارس کی بیماری سے ایک ہزار کے قریب افراد موت کے منہ میں گئے تھے، یہ بیمار ی بھی عالمی سطح پر پھیل گئی تھی۔ 2012 میں چین کو سانس لینے والی بیماری کے سینڈروم ’میرس‘ کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن گزشتہ سال کے آخر میں چین سے پھیلنے والی وباء ”کورونا وائرس“ نے دنیا بھر میں تباہی مچارکھی ہے، اب تک اس پرقابوپانے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا، اس وباءسے کوئی ملک محفوظ نہیں رہا۔

کرونا وائرس ایک قاتل بن چکا ہے جو کسی کو معاف نہیں کررہا۔ 26 جولائی جمعہ کے سہ پہر تک دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 97 لاکھ 14 ہزار 805 تک جا پہنچی ہے جبکہ اس سے ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد 4 لاکھ 91 ہزار 856 ہو گئی ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں میں دنیا بھر میں 867 نئے کورونا کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 12 ہزار 419 مزید ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

پاکستان میں بھی کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایک لاکھ 95 ہزارسے زائد کیسز رپورٹ ہونے کے بعد پاکستان مریضوں کے لحاظ سے دنیا بھر میں 12 ویں نمبرپرآ گیا ہے جبکہ چار ہزار کے قریب اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان کے مطابق اب تک بلوچستان میں 45 ہزار سے زائد کورونا ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں دوسرے صوبوں کی نسبت بلوچستان میں کورونا کی پھیلاؤ کی شرح زیادہ ہے، انہوں نے کہا گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 8 سو 19 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، بلوچستان کے 3 اضلاع میں پہلے کوئی کیس نہیں تھا مگر ان 3 اضلاع میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ لیاقت شاہوانی نے کہا کہ رواں مہینے کے دوران کیسز میں 25 فے صد اضافہ ہوا تھا موجودہ ہفتے کے دوران اس میں کمی آئی ہے، ہر گزرتے ہفتے میں کیسز کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔ لیاقت شاہوانی کے مطابق کورونا وائرس کے 85 مریض سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہیں جن میں سے 18 کی حالت تشویشناک ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد 9946 جبکہ اموات 109 ہوئی ہیں جبکہ 3 ہزار 737 صحت یاب ہوئے ہیں۔

صوبائی حکومت کے ترجمان تو خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہاں کورونا وائر س سے متاثر ہ افراد کی تعداد میں کمی آ رہی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ جس صوبے کے دور دراز علاقوں کے عوام کو سردرد کی گولیاں میسر نہیں تو وہ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کہاں سے کرائیں گے۔ سینکڑوں کلومیٹر دور کے اضلاع کے لوگ ٹیسٹ کے لئے کوئٹہ نہیں آسکتے تو کیسز کیسے سامنے آئیں گے۔ حکومتی اعداد وشمار کو ایک طرف رکھ کے صوبے میں اموات کی شرح کو دیکھا جائے تو صورتحال انتہائی خراب ہے۔

پہلے اخبارات میں انتقال اور فاتحہ خوانی کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک کالم مختص کیا جاتا تھا اب صورتحا ل اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اخبارات کا آدھا آدھا پیچ انتقال کی خبروں کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔ قبرستانوں میں قبروں کے لئے جگہ کم پڑرہی ہے۔ کوئٹہ کے مشرقی بائی پر قائم قبرستان میں قبریں کھود کر خالی چھوڑی جاتی تھیں تاکہ کسی بھی وقت آنے والی میت کے لئے قبر تیار ہو لیکن اب وہاں قبر نہیں مل رہی۔ قبرستان کے قریب رہنے والے لوگوں سے صورتحال کا پوچھا جائے تو وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفار کرتے ہیں لیکن کوئی اس بیماری کو سنجیدگی سے لینے کے لئے تیار نہیں۔

کسی بھی شخص کو حفاظتی تدابیر کا مشورہ دیا جائے تو وہ پہلے آپ کو بزدل کہے گا، بعد میں کہے گا کہ کورونا وائرس مسلمانوں کو نہیں لگتا۔ جب پاکستان کے حالات میں آگاہ کریں تو آگے سے جواب دیتے ہیں کہ لوگ تو مختلف بیماریوں سے مررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک جنازے میں شرکت کے لئے قبرستان جانا پڑا تو ایک ساتھ تین میتوں کو دفنایا جا رہا تھا اور جنازے میں شریک لوگ غلطی سے اپنی میت کی بجائے دوسری میت کے جنازے میں شریک ہو جاتے تھے

یہاں لوگوں کی ایک اور رائے بن گئی ہے جو بے احتیاطی کا سبب بن رہی ہے۔ اگر کسی شخص کو گلے کی بیماری زکام ہو جائے جب وہ صحت یاب ہوجاتا ہے تووہ بغیر ٹیسٹ کیے کہتا ہے کہ میں تو کورونا وائرس کوشکست دے چکا ہوں۔ ایک بار کسی دوست کو احتیاط کامشورہ دیا تو وہ کہنے لگا کہ اگر جان اتنی پیاری ہے تو ہم سے مت ملو۔ انسان شرمندہ ہوکر خود بھی بے احتیاطی شروع کرتا ہے۔ ایسی باتیں کوئٹہ میں عام ہوگئی ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ڈان نیو ز کوئٹہ کے بیورو چیف سید علی شاہ نے ٹویٹ کیا تھا کہ ضلع پشین کی تحصیل حرمزئی اور کاریزات میں 15 روز کے دوران 70 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں لیکن لوگ کورونا نام سننے کے لئے تیار نہیں۔ ضلع پشین تو صوبائی دارالحکومت سے نزدیک ترین ضلع ہے جب وہاں حالات ایسے ہوں تو دوردراز علاقوں کے حالات کیسے ہوں گے؟ یہ سوچتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ میرے آبائی علاقہ ضلع زیارت کی آبادی بہت کم ہے۔

یہاں سارے لوگ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شامل ہوتے ہیں، ایک گاؤں کے لوگ دوسرے گاؤں کے لوگ ایسے جانتے ہیں جیسے اپنے گاؤں کے لوگ ہوں۔ وہاں کے رہنے والے دوست فضل کاکڑ نے بتایا کہ عید کے بعد 24 سے زائد افراد فوت ہوئے ہیں۔ ہم ایک جنازے میں شرکت کرتے ہیں تو دوسرے کی فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں۔ علاقے میں لوگ فاتحہ خوانی میں بیٹھے ہوتے ہیں وہی سے کسی اور کے جنازے میں شرکت کے لئے جاتے ہیں۔ ایک اور دوست محمودترین نے بھی فون پر لگ بھگ ایسی ہی صورتحال بتائی۔ ضلع زیارت پاکستان کا وہ علاقہ تھا جہاں پہلے پچاس سال میں ایک بھی شخص دوسرے شخص کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا لیکن آج لوگ تیزی سے موت کی وادی میں جا رہے ہیں۔ ہم آج بزرگ، جوان اور بچوں سے محروم

ہم احتیاطی تدابیر کو اپنا ہتھیار بنا کر اس قاتل کو شکست دے سکتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں احتیاطی تدابیر اپنانے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے ہورہے ہیں لیکن ہم سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ ہمارا قاتل کون ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments