بڑے بھائی صاحب کی لاٹھی، بگ برادر کا ڈنڈا


فلسفہ اقبال کے دور رس اور دیرپا نشے میں مخمور، اہل مغرب کو باقاعدہ اور باضابطہ نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔ ابھی ممولا ہی تھا کہ ہو نہار اور چکنے پا توں والی ملت کی پاسبانی اور نگہبانی کے لیے سر گرم عمل ہو گیا جو بہ امر الٰہی اور بہ فضل خدا، نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کا شغر سراٹھائے کھڑی تھی اور اپنی پوری تمکنت، طنطنے اور جاہ و جلال کے ساتھ مسلسل نمؤ پذیر تھی۔ دریاؤں اورسمندروں میں گھوڑے دوڑا دینے کی خواہش بالآ خر ستلج کے پل تک لے گئی مگر گھڑ سواری تو درکنار، چلو بھر پانی بھی نصیب نہ ہوا!

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کا نتیجہ، نظر کے چشمے کی صورت میں برامد ہوا تو شجاعت اورصداقت کا سبق رٹنا شروع کر دیا لیکن ”عدالت“ نے ایسی گت بنائی کہ طبیعت صاف ہوگئی۔ انتظار ہی کر تا ر ہا کہ کب مغربی تہذیب اپنا ازار بند، اپنے ہی گلے میں ڈال کر خود کشی جیسے قبیح اور مکروہ فعل کی مرتکب ہو۔ ٹریجڈی تاہم اسی اثناء میں یہ ہوئی کہ اپنی ہی کایاکلپ ہو گئی!

اب جو دنیا پہ نگاہ کی اور اہل دنیا پر نظر ڈالی تو اپنی پست نگاہی اورتنگ نظری کا شدت سے ادراک ہوا۔ اسلاف کا تابناک ماضی جو پہلے کوہ نور جیسا دکھائی دیتا تھا، معمولی سی تفتیش و تحقیق کے بعد کو ئلوں کا ڈھیر نکلا۔ دو عالم سے دلوں کو بے گانہ کرتی ”لذت“ لہو میں جنم لینے والے دھوکے کی داستان ہو ش ربا ثابت ہوئی، فائدہ جس کا بس اتنا ہی کہ اپنے من میں ڈوب جانے کی نادر سہولت محض چند غوطوں، مغالطوں اور خوش گمانیوں کی دوری پر میسر آ جائے!

لیجیے! پہلے جو رتبہ امت مسلمہ کے لیے مختص تھا اب وہ اہل مغرب کو تفویض کر دیا گیا۔ تاشقند، بخارا اور بغداد کی گلیوں کے ایمان افروز اور روح افزا قصے دل کی آنکھ سے یوں اتر گئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ اقبال کی مسند نطشے اور رسل نے سنبھال لی۔ تقدیر کا مقام تدبیر کے حوالے کر دیا گیا۔ منطق کی دھیمی آنچ، جذبے کی تیز لو سے معتبر ٹھہری۔ وہی وہانوی کی خالی جگہ بالآخرنینسی فرائیڈے نے پر کر لی!

ہر لحظہ مسلسل آگے بڑھنے اور تغیر کی راہ ہموار کرنے کا جتن اہل مغرب کو ایشیا اور افریقہ سے ممتاز کرتا تھا جو اپنی قبائلیت اور پسماندگی کو اپنی انفرادیت اور یکتائی قرار دیتے نہ تھکتے تھے۔ سائنسی افکار، جمہوری اقدار اور آزادیٔ اظہار کی صورت میں اہل مغرب نے ہمیں ایک ایسی روشن دنیا کی نوید سنائی جس میں مساوات، رواداری، انصاف، امن پسندی اور انسان دوستی جیسی بظاہر نا قابل حصول اور یو ٹو پین امنگوں کو ایک ابدی اور عالمگیر منشور کی حیثیت حاصل ہونے والی تھی۔ خوابوں اور گلاسوں کے ساتھ المیہ مگریہ ہے کہ چاہے جتنے بھی قیمتی ہوں، بالآخر ٹوٹ جاتے ہیں!

نوم چومسکی، جارج آر ویل، آلڈس ہکسلے، سارتر، البرٹ کا میو اور جان گلٹان کو پڑھا تو انکشاف ہو ا کہ مغرب کی فیاضی، کشادہ دلی اور امن پسندی ایک پرمغز مگر بے روح تقریر سے بڑھ کر کچھ نہ تھی۔ جنگ کو امن کے ریپر میں لپیٹ کر، آزادی کو غلامی کا چولا پہنا کر اور جہالت کو علم کے مرتبان میں ٹھونس کر ہم ایسوں کو دھوکے میں رکھا گیا۔ قیس مگر تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا!

اپنے آخری تجزیے میں سلیقہ شعار اور نکھرا سنور ا مغرب بھی اتنا ہی پابند سلاسل اور پابہ زنجیر جتنا جاہل، گنوار اور بیمار مشرق۔ یہاں بھی بڑے بھائی صاحب کی لاٹھی، وہاں بھی بگ برادرکا ڈنڈا۔ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments