ہندوستانی مسلمان: اپنے دیس میں اجنبی


کیا میں آپ کو جانتا ہوں؟

۔ شاید نہیں جانتا۔ کون ہیں آپ لوگ؟ دیکھئے، میں اس ملک کے لئے اجنبی ہوں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ سچ ہوگا کہ اجنبی بنا دیا گیا ہوں۔

یہ میرا ہندوستان نہیں ہو سکتا۔ یہاں ہر قدم، ہر موڑ پر کچھ وحشی درندے کھڑے ہیں۔ اور میں نے ایسے مناظر ہندوستان میں پہلے کبھی نہیں دیکھ۔ پہلے کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ کچھ لوگ ہمیں اجنبی بنانے کے لئے ہمیں اس خاک سے جدا کرنے کی کوشش کریں گے، جس کی محبت نے ہم آشفتہ سروں کو جان دینے کے لئے تو مجبور کیا مگر یہ مٹی کی محبت تھی کہ ہم نے ہجرت قبول نہیں کی۔ اور ہجرت قبول نہ کرنے کے باوجود حال یہ ہے کہ، وہ قرض چکاہے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔

آزادی کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ فسادات کی موجودگی اور فسادات کے بعد بھی کبھی ہمارے کالر آلودہ نہیں ہوئے۔ کبھی ہم دوسرے تیسرے بلکہ چوتھے درجے کے مسافر نہیں بنے۔ کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ کچھ ابن الوقت خداؤں نے ہمیں جلا وطن کرنے کا فرمان سنا دیا ہے۔ کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں میں اور زندگی کے ہر شعبہ حیات میں یہ دیکھنے کی کوشش ہوگی کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان؟

کبھی کسی اسپتال کے دروازے محض اس لئے بند نہیں ہوں گے کہ یہاں مسلمانوں کا علاج نہیں ہوتا۔ لاک ڈاؤن کے خوفناک دنوں میں اور پچھلے 6 برسوں میں ان آنکھوں نے کیا کیا نہیں دیکھا؟ اور یہ آنکھیں اب بھی دیکھ رہی ہیں اور دم بخورد ہیں کہ الہی، وطن نثاروں کی زندگی پر ملک کو زعفران بنانے والے، موت کا سیاہ پردہ کیوں ڈال دیتے ہیں؟ ایک مسلمان سڑک پر گرا ہوا ہے۔ کچھ لوگ اسے گھیرے ہوئے ہیں اور وہ کلمہ ادا کرنے والی زبان سے وحشیوں کے جوتوں کی خاک چاٹ رہا ہے۔

ایک سبزی والے کو مسلمان ہونے کی نسبت سے مارا جا رہا ہے اور اسے اسلام اور حضرت محمد کے نام پر گالیوں سے نوازا جا رہا ہے۔ مسلم عورتوں کو گھروں میں داخل ہو کر مارا پیٹا جا رہا ہے۔ یو پی سے بہار اور بیشتر ریاستوں میں جنونی وحشیوں نے مسلم لڑکیوں کی عصمت بھی تار تار کر دی۔ کوئی غریب مسلمان ٹرک سے گھر لوٹ رہا ہے، کوئی ٹوپی پہن کر کہیں جا رہا ہے مگر اسے خبر نہیں کہ اب وہ گھر نہیں پہنچے گا۔ وحشی ہجوم اسے ہلاک کرنے کے لئے گھات لگاہے بیٹھا ہے۔

مسجد کے مینارے شہید کیے گئے۔ ایک بزرگ کی داڑھی پکڑ کے سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ کتنے اخلاق، کتنے پہلو خان، کتنے نجیب۔ وحشی ہلاکو دن کے چوبیس گھنٹے گھات لگاہے بیٹھے ہیں اور میڈیا سوشل میڈیا پر سر عام اتنے ظلم کے باوجود مظلوم مسلمان کی ہلاکت کے منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبے تیار کرنا ہی ہے کہ ہندو مسلمانوں کو دو الگ خانوں میں ڈال دیا گیا۔ مسلمانوں کے لئے میڈیا نے نفرت کی فصلیں تیار کیں اور یہ فصلیں پک گیں تو موب لنچنگ کے دروازے مسلمانوں کے لئے کھول دے گئے۔ خاموشی۔ خاموشی۔ اور خاموشی۔ ہم ہندوستان کی سیاست میں کنارے لگا دیے گئے اور سیاسی پارٹیوں کے لئے مسلمانوں کا نام لینا بھی جرم بن گیا۔

خاموشی۔ خاموشی۔ نا ختم ہونے والی خاموشی۔

ہم اسی ا جڑے قافلے کے مسافر ہیں جہاں گرم ریت اور دھوپ کی تپش کے عذاب کو بھیجا گیا ہے۔ ہم زندہ تاریخ کے مجرم ہیں اور آج بھی ماضی کی داستانیں ہمارا اثاثہ ہیں۔ ۔ ۔ آہ غرناتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1492 کا سال جب غرناتا کو زوال آیا تھا۔ آہ اندلس۔

۔ ساڑھے سات سو سال حکومت کرنے کے بعد، پورے اندلس میں صرف غرناتا وہ شہر تھا جہاں مسلمانوں کی حکومت باقی بچی رہی تھی۔ پھر ایک ایک کر کے مسیحی برادران مسلمانوں کے ایک ایک علاقے پر قابض ہوتے گئے۔ ۔ ۔ اسلام توقائم رہا، زوال تو مسلمانوں کو آیا۔ ۔ ۔ سقوط غرناتا کے بعد مسلمانوں سے کہا گیا کہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اپنا مذہب بھول جائیں۔ خیر کا واحد راستہ یہ ہے کہ مسیحیت کو قبول کریں کہ مسیح ان کے پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔

مسلمان جب اس کے لئے تیار نہیں ہوئے تو نئے مسیحی فرمان اور قانون لائے گئے۔ انہیں شہریت سے بے دخل کیا گیا، انہیں اذیت دی گئی۔ بے شمار نفوس کو اسی صحرا کے حوالہ کیا گیا، جہا ں اس وقت ہم اورآپ ہیں۔ ۔ ۔ اور اس طرح اسپین سے مسلمانوں کو نکال کر انتقام کے ڈراؤنے خواب کی تکمیل کی گئی۔

مسلمان شمالی افریقہ کی طرف ہجرت کو محبور ہوئے۔ بھوکے پیاسے۔ ۔ ۔ کربلا کا منظر۔ ۔ ۔ بچے، عورتیں۔ بھوک سے تڑپتے۔ اور پھر رہزنوں کا قافلہ۔ قتل عام۔ بیماریاں۔ تعفن۔ غلاظت۔ اور قریب آتی ہوئی موت۔ جو مر جاتے، ان کے سگے رشتے دار جشن مناتے کہ اذیتوں کے لامتناہی سلسلے سے اس شخص کو نجات مل گئی۔ اسپین سے مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی بے دخل کیا گیا۔ یہودیوں کا متمول طبقہ ہجرت کر کے یوروپی ممالک کی طرف نکل گیا۔

سلطنت عثمانیہ کی اجازت سے مسلمان ترکی اور مشرقی یوروپ میں پناہ گزیں ہوئے۔ اس کے بعد غرناتا میں مذہبی عدالتوں کا وجود ہوا۔ جو مسلمان مسیحی مذہب کو قبول کر لیتے وہ عذاب سے بچ جاتے جو نہیں قبول کرتے انھیں سلگتے الاؤ میں پھینک دیا جاتا۔ عربی زبان پر پابندی عاید کی گئی۔ مسلمان بچوں کے گلے میں صلیبوں کا طوق ڈالا گیا۔ عربی زبان و ادب کی، ہزاروں برسوں کی کتابیں نذر آتش کر دی گئیں۔ ۔ ۔ اور اس کے بعد اسپین مسلمانوں سے خالی ہو گیا۔

ہم تاریخوں کو مرتے ہوئے اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ اب خوف زدہ نہیں۔ مگر ہمارے بچے۔ العطش۔ العطش۔

کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ جو منظر سامنے ہیں، وہ خوفزدہ کرنے والے ہیں۔ اس وقت بھی جب کورونا کا عذاب نازل ہوا ہے، مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ میں الف لیلیٰ کے پیتل کے شہر میں ہوں اور موسیٰ بن نصیر کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے آدھے لشکر کو لے کر پیتل کے شہر میں داخل ہوتا ہے اور اسے چاروں طرف موت نظر آتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں بچھی ہیں۔ ان میں بچے بھی ہیں، عورتیں بھی، اس کے ساتھی بھی۔

اس کے بعد وہ بازار میں نکلا۔ عالیشان عمارتیں، بڑی بڑی دکانیں، پیتل کے سامان، مگر سوداگروں کا ہجوم مرا پڑا تھا۔ چاروں طرف مردے اور ایسے مردے کہ ان کی کھالوں سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ پھر موسیٰ ریشم کے بازار میں گیا۔ ریشم وکمخواب کے ڈھیر مگر یہاں بھی اس کا واسطہ مردہ سوداگروں سے پڑا، جو فرش پر گرے ہوئے تھے اور ان کی موت کو برسوں گزر چکے تھے۔ وہ جواہرات، موتیوں، یاقوت کے بازار میں گیا اور وہاں بھی لاشیں دیکھیں۔

صرافوں کا بازار لٹا ہوا تھا۔ دکانوں میں سامان تھے مگر کسی مسافر کا پتہ نہیں۔ پھر وہ عطاروں کے بازار میں گیا۔ مشک، عنبر، عود، کافور کی بوریاں رکھی دیکھیں۔ مگر یہاں بھی اس نے آنے سے قبل موت شب خون مار چکی تھی۔ بازار، چو رستے، دکانیں، فرش ہر جگہ لہو کے فوارے اور ان کے مالکان گہری نیند میں سوئے ہوئے۔ ۔ ۔ اور موسیٰ خیال کرتا ہے کہ جب سب اسباب رہ جائیں گے یہیں دھرے ہوئے تو پھر زندگی کیا ہے اور سفر کیا ہے۔ حکومت کیا ہے، بادشاہوں کے واہمہ کیا ہیں اور غرور کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟

ایک دن آنکھیں بند، اور سب کچھ ختم۔ کیا نئی نسل اسی مردہ بازار میں پیدا ہوگی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments