جینے کا ہمیں شوق نہ مرنے کا ذرا غم


انسان ہمیشہ سے جدت پسند واقع ہوا ہے۔ ماضی میں جہاں تک جھانکنا ممکن ہو جھانک کر دیکھیں تو ہر موڑ انسانی جدت پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صرف جدت پسندی ہی نہیں بلکہ خطرات سے کھیلنا بھی۔ کیونکہ ان دونوں جذبوں کے بغیر کسی بھی طرح کی ترقی ممکن نہیں۔ ان دونوں جذبات کو انسانی تاریخ بلکہ انسان میں سے نکال دیجیے باقی بچنے والی چیز صفر ہوگی۔ انسان اندھیرے غاروں اور جنگلوں میں ہوووو ہووووو کی آوازوں کے ساتھ زندگی کے شب و روز گزارتا نظر آئے گا۔ نہ کہیں تشکیل معاشرہ و تمدن ملے گا نہ ہی کہیں تسخیر کائنات کے حیران کن مظاہر۔

اتنا کچھ کرلینے کے بعد بھی اس مشت خاک کو نہ تو سکون ہے نہ قرار۔ بلکہ یہ بے چینی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ زمین کی گود سے نکل کر اب یہ گنبد فلک کی پنہائیوں میں خود کو گم کر رہا ہے۔ نت نئی ایجادات، طرفہ دریافتیں، یہ تو انسان کا معمول بن چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خود کو عجیب و غریب طرح سے بپیش کرنا، دم بخود کردینے والے کرتب دکھانا، خود کو منفرد کرنے کی کوششیں ایک جہان ہے جو ہر سال گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بنتا ہے۔ آئے روز میڈیا پر نت نئی ویڈیوز انسانی طبع کی جدت طرازیوں کی نئی نئی صورتیں ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر فی الواقع انسان حیرت سے آئینہ بن جاتا ہے۔

سوچیئے! کیا یہ سب کچھ بیکار ہے؟
کیا ان کا کوئی مقصد نہیں؟

اگر ایک انسان سینکڑوں فٹ بلند رسی پر سائیکل چلا رہا ہے یا پیدل چل کر دکھا رہا ہے تو کیا یہ بے وجہ ہے؟ کیا وہ حفاظتی انتظامات کیے بغیر یہ سب کچھ کر رہا ہے؟ اگر کوئی انسان تیر کی طرح سیدھی چٹان پر چڑھنے کا مظاہرہ کر رہا ہے تو بلامقصد اور بغیر حفاظت کے کر رہا ہے؟

آپ کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا اور ہونا بھی چاہیے کہ عقل سلیم کا تقاضا بھی یہی ہے۔

لیکن اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ ایک انسان ایسا بھی ہے جو بغیر کسی مقصد اور حفاظتی انتظامات کے پل کے عین درمیان میں کھڑے ہوکر دریا کی بپھری لہروں میں چھلانگ لگا دیتا ہے تو آپ کیا کہیں گے۔ یا اگر آپ سے کہاجائے کہ ایک انسان جانتے ہوئے کہ یہ زہر ہے اسے پھانک لیتا ہے تو آپ کیا کہیں گے؟

میرا خیال ہے آپ کا جواب بھی وہی ہوگا جو میرا ہے۔ جی ہاں! ایسا شخص سوائے دیوانے کے اور کیا کہلا سکتا ہے۔ ایک ایسا دیوانہ جو خودکشی کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ذرا اپنے اردگرد کا اور اپنا جائزہ لیجیے، کیا ہم سب اسی کیفیت میں مبتلا نہیں؟

روزمرہ معمولات کا جائزہ لیجیے۔ اپنے بازاروں کو دیکھئیے۔ اپنی سڑکوں کو دیکھیے، اپنی پبلک ٹرانسپورٹ کو دیکھیے۔ ٹرین کا جائزہ لیجیے۔ کون سی جگہ نہیں ہے جہاں ہم بے سوچے کرتب دکھانے میں مصروف نہیں ہیں؟

کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کو لے لیں، دودھ لینے جاتے ہیں، دکاندار ہمارے سامنے ایک کھلے ٹب میں دودھ کی سبیل لگائے بیٹھا ہے، جہاں سے ہمارے ساتھ ساتھ مکھیاں بھی مستفید ہو رہی ہوتی ہیں لیکن ہم صاف ستھرے شاپنگ بیگ میں دودھ ڈلواتے ہیں اور خوشی خوشی گھر کی راہ لیتے ہیں۔ یہی منظر گوشت کی دکان پر بھی نظر آتا ہے۔ خاص طور پر چکن کی دکان پر جو مناظر دیکھتے کو ملتے ہیں کیا وہ ہماری عقل پر سوال نہیں اٹھاتے؟ ہماری آنکھوں کے سامنے گندے پانی میں سبزی صاف کرکے ہمیں بیچی جاتی ہے اور آنکھیں بند کیے خرید رہے ہوتے ہیں۔ یہی حال پھلوں کا بھی ہے۔ صرف انہیں چیزوں کا ہی نہیں ایک لمبی فہرست ہے جو ہماری فہم پر ایک سوالیہ نشان لگاتی ہے۔

سر راہ والد مرحوم کی ایک بات یاد آ گئی۔ اباجان حکیم بھی تھے اور میں لڑکپن ہی سے ادویہ سازی اور علاج میں ان کا ہاتھ بھی بٹاتا تھا اور اس خاندانی فن کو سیکھتا بھی تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ وہ مختلف دواؤں میں ایسے اجزاء بھی شامل کرتے تھے جو سائنسی نکتہ نظر سے زہریلے اثرات بھی رکھتے تھے۔ میں نے ایک روز ان سے استفسار کیا کہ یہ اجزا کیا انسان کے لیے نقصان دہ نہیں؟ انہوں نے ہنس کر مزاحاکہا کہ ہم لوگ اپنی روزمرہ خوراک میں جتنا زہر پھانکتے ہیں وہاں یہ آدھی رتی زہر کیا کہے گا۔

آج یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔

خیر یہ تو وہ چیزیں ہیں جن کا نقصان غیر محسوس طریقے سے سامنے آتا ہے اوراکثر تو اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا لیکن ان باتوں کا کیا کریں جن کا کوئی عقلی جواز بھی نہیں بنتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہماری سڑکیں۔ ہماری ٹریفک۔

سمجھ نہیں آ رہا کہ بات کہاں سے شروع کروں اور کہاں تک لے کر جاؤں۔ تبرکا چند مناظر پیش کرتا ہوں۔

کسی بھی آبادی کا مین بازار یا اس سے ملحقہ کوئی شاہراہ لے لیں۔ آپ کو دن میں ایک دو بار نہیں متعدد بار ایسے جانباز موٹر سائیکل سوار ضرور ملیں گے جن کی عمریں بمشکل گیارہ بارہ سال ہوں گی جو اپنے تین چار چھوٹے بہن بھائیوں کو ہمراہ سوار کروائے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتے نظر آئیں گے۔

ایک محترمہ بہت دیدہ زیب قسم کا عبایا زیب تن کیے موٹرسائیکل کی پچھلی سیٹ پر یوں براجمان نظر آئیں گی کہ کسی بھی لمحے ان کا لٹکتا ہوا عبایا بائیک کی چین میں پھنسنے کی تیاریاں کر رہا ہوتا ہے اور تین چار بائیکیے اپنی بائیک کو تیز رفتاری سے بھگا کر ان محترمہ کو متنبہ کرنے کی کوشش میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اردگرد دوسری ٹریفک بھی رواں دواں ہے۔ اور یوں ایک ہڑبونگ کی سی جان لیوا کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

آپ بہت اطمینان سے اپنے ہاتھ پر چل رہے ہوتے ہیں کہ اچانک کسی بغلی گلی یا سڑک سے ایک تیز رفتا بائیک یا گاڑئی سمت مخالف میں آپ کے روبرو نمودار ہوجاتی ہے اور پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چلیں یہ تو کوئی خاص بات نہ ہوئی۔ یہ منظر دیکھیے۔

آپ کسی چوراہے پر کھڑے اپنی سمت کا اشارہ کھلنے کے منتظر ہیں۔ اشارہ کھلنے میں چند سیکنڈ باقی ہیں۔ آپ سمیت سب نے چلنے کی تیاری کرلی، اشارہ کھل گیا، ٹریفک نے چلنا شروع کر دیا، عین اسی لمحے ایک، دو یا تین خواتین نے نہایت خود اعتمادی سے سڑک پار کرنا شروع کردی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کر لیں بات۔

چلیں یہاں تو ابھی ٹریفک کی رفتار کنٹرولیبل تھی بچت کا امکان موجود ہے لیکن سگنل فری سڑک پر اور وہ بھی جہاں ایک اوور ہیڈ برج سڑک پر اتر رہا ہے ٹریفک کی رفتار کو قابو میں لانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے آپ برج سے نیچے اتررہے ہوتے ہیں اور کچھ احباب بہت سکون سے سڑک پار کر رہے ہوتے ہیں۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ہم واقعی بہادر ہیں یا پھر ہمیں خودکشی کا شوق ہے۔
ہاں یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہم بحیثیت قوم نفسیاتی مریض بن چکے ہوں۔
جینے کا ہمیں شوق نہ مرنے کا ذرا غم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments