قاسم علی شاہ جیسے اسپیکرز اور ہمارے عوام



ہمارے سماج میں قاسم علی شاہ جیسے لوگ کیوں مقبول ہیں؟ اس کا تین چار لفظوں میں جواب تو یہی بنے گا ”مواقع کی عدم دستیابی“ ۔ ۔ ۔

قاسم علی شاہ کو کونسی کلاس کے لوگ زیادہ سنتے ہیں اگر غور کریں تو مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس سنتے نظر آتی ہیں، بالخصوص ثانی الذکر دو کلاس کے لوگ انہیں زیادہ سنتے ہیں۔ سوال تو یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہی دو تین کلاس کے لوگ ہی اسے کیوں سنتے ہیں؟ اپر مڈل کلاس، اپر کلاس اور ہائر کلاس اسے اس طرح سے کیوں نہیں سنتے اور متاثر بھی بالکل نہیں ہوتے؟ اس کا بالکل سادہ جواب تو یہی ہے کہ درج بالا تینوں کلاس کے لوگ ”مواقع کی عدم دستیابی“ کا شکار ہیں اور درج ذیل کلاس کے لوگوں کا مسئلہ بنیادی مواقع کی دستیابی نہیں ہے، اب وہ اس سے آگے نکل چکے ہیں اور ان کا مسئلہ قاسم علی شاہ جیسے لوگوں کو سماعت کرنا نہیں رہا۔

سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان درج بالا تین کلاس کے لوگوں کو قاسم علی شاہ جیسے لوگوں کو سننا چاہیے یا نہیں کیونکہ ان کلاس کے لوگوں کو مواقع کی عدم دستیابی کا بھی مسئلہ ہے، اس صورت حال میں سنجیدہ جواب تو یہ ہے کہ یہاں ذمہ داری تو ریاست کی بنتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو بنیادی و بہتر مواقع مہیا کرے اور عوام اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خود ہی آگے بڑھتے جائیں اور قاسم علی شاہ جیسے لوگوں کو پیدا ہی نہ ہونے دیں اور خود عوام ہی خاص ہو کر اپنے سے پیچھے آنے والے عوام کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں۔ ۔ ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ قاسم علی شاہ کو سننے والے لوگ ایسے لیکچرز سن کر اندر ہی اندر جذباتی طور پر متحرک ہو جاتے ہیں کہ پہلے انہیں شیخ چلی والے خواب سوجھتے ہیں اور پھر اسے عملی جامہ پہنانے کے خیالی منصوبے بناتے گزر جاتے ہیں۔

قاسم علی شاہ جیسے لوگوں کے لیکچرز اپر مڈل کلاس، اپر کلاس اور ہائر کلاس پر کیوں اثر انداز نہیں ہوتے؟ کیوں کہ اس کلاس کے لوگ تقریباً درجہ بہ درجہ اوپر گئے ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ترقی و خوشحالی محنت اور لگن سے بتدریج حاصل ہوتی ہے نا کہ شیخ چلی والے خواب دیکھنے سے، جبکہ قاسم علی شاہ جیسے لوگ جو منجن بیچتے ہیں وہ اسی وقت اپنے سامعین کو گدا سے شاہ بنا دیتے ہیں اور سامع کی اس وقت کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اس نے پتا نہیں کون سے پہاڑ کا سینہ چیر دینا ہے اور جوئے شیر بہا دینی ہے۔

جن تین کلاس کے لوگ قاسم علی شاہ جیسے لوگوں کو سماعت کرتے ہیں انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ ترقی محنت سے اور محنت کے مطابق بتدریج حاصل ہوتی ہے اور اسی کو ہی استحکام ہے۔

آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ قاسم علی شاہ جیسے لوگ اپنے سامعین کے اندر اس قدر خلا پیدا کر دیتے ہیں کہ سامعین بے چارے آگے بڑھنا، ترقی کرنا تو دور کی بات، ساری زندگی وہی خلا بھرتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments