سعادت حسن منٹو؛ وہ جو تھا اک مسیحا


اردو ادب میں اگر کسی ایسے لکھنے والے کا نام پوچھا جائے جو انسانی نفسیات کے سپید و سیاہ رنگ روپ اپنے قلم کی سیاہی سے کاغذ پر منعکس کرتا رہا ہے تو میں سعادت حسن منٹو کا نام لوں گا۔ سعادت حسن منٹو کا ادب شاید آج تک متنازع نگاہوں سے پڑھا جاتا رہا ہے اور اس کی وجہ ان کی بے باکی اور صاف بیانی ہے۔ ایک ایسا افسانہ نویس جس نے انسانی شخصیت اور انسانی نفسیات کے ایک ایک پہلو پر کچھ اس طرح قلم کھینچا کہ عقل ششدر رہ جاتی ہے۔ افسانوی ادب میں بے باک لہجہ اپنانے، اور حقیقت بیان کرنے میں منٹو سی کوئی مثال نہیں۔

سعادت حسن کا جنم متحدہ ہندوستان کے ضلع لودھیانہ میں 9 مئی سنہ 1912 کو ہوا جب برصغیر میں انگریزوں کی غلامی سے نجات واسطے مختلف تحاریک سرگرم تھیں۔ منٹو نے اپنے قلمی سفر کا آغاز ایک مترجم کی حیثیت سے کیا اور بعد ازاں اعلی تعلیم کے حصول واسطے علی گڑھ سے منسلک ہوئے اور افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ سنہ 1934 میں بمبئی چلے گئے اور مختلف اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہ کر اپنے قلم کی دھار تیز کرتے رہے۔ مزید برآں ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لئے بیشتر فلمیں بھی لکھیں۔ اپنی زندگی بارے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”میری زندگی میں تین بڑے حادثے ہیں، پہلا میری پیدائش کا جس کی تفصیلات کا مجھے کوئی علم نہیں، دوسرا میری شادی کا، اور تیسرا میرے افسانہ نگار بن جانے کا۔ آخری حادثہ چونکہ ابھی تک چلا آ رہا ہے اس لئے اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا“ ۔

شاید حضرت منٹو کی زندگی ہی ایک حادثہ تھی جو تادم مرگ ان کی روح کو اس طرح تڑپاتی رہی کہ یہ انسان ساری عمر اپنا قلم اٹھائے ظلم و بربریت کے خلاف برسر پیکار رہا۔ وہ وقت کہ جب سعادت حسن پیدا ہوئے سے لے کر موت کی آغوش میں جانے تک، منٹو نے انسانیت کو وحشت و درندگی کی گھٹاٹوپ وادیوں میں دم توڑتے ہی دیکھا۔ ابھی عمر صرف سات سال رہی ہو گی کہ ”سانحہ جلیانوالہ باغ“ پیش آیا جہاں ایک انگریز جنرل ڈائر نے اپنی ضد اور انا کی تسکین خاطر جلیانوالہ باغ میں اکٹھے ہوئے حریت پسندوں کے قتل عام کا حکم صادر کیا اور سینکڑوں معصوم انسانوں کا خون بہایا۔ ابھی اس سانحہ کے نقوش دماغ پر ثبت تھے کہ تقسیم ہند کا دکھ جھیلنا پڑا۔ بمبئی کہ جس سے منٹو کو دیوانگی کی حد تک محبت تھی سے رخصت ہونا پڑا۔ منٹو کا قلم معاشرے کے اس دھتکارے ہوئے طبقے کی آواز بنا کہ جسے انسانیت کی صفوں سے ہی خارج کیا جا چکا تھا۔

طوائفوں سے حضرت منٹو کو خاص دلچسپی رہی۔ انتہائے معصومیت یہ کہ انہیں عورت ذات کا درجہ بھی دیتے رہے۔ دلچسپی ہو بھی کیوں نہ کہ منٹو نے ایک عورت کو اپنا جسم بیچتے نہیں دیکھا بلکہ جسم بیچنے پر مجبور کرنے والے معاشرے کو دیکھا جو ”نیتی“ جیسی بیوہ عورت کو اپنے محروم میاں کا تانگا چلانے کا لائسنس دینا توہین آمیز سمجھتا ہے اور جسم فروشی پر مجبور کرتا ہے۔ منٹو نے جسم خریدنے والے ان سفید پوش مردوں کو دیکھا جو اپنی سفید پوشی کی آڑ میں چھپے بیٹھے تھے۔

ان سفید پوشوں کی انسانیت کی دوہائی کچھ اس انداز سے دیتے ہیں، ”انسانیت کے بازار میں صرف تم لوگ باقی رہ گئے ہو جو کھوکھلے قہقہوں اور پھیکے تبسموں کے خریدار ہو۔ ایک زمانے سے تمہارے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی فلک شگاف چیخیں تمہارے کانوں سے ٹکرا رہی ہیں مگر تمہاری خوابیدہ سماعت میں ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ آو، اپنی روح کو میری آہوں سے آنچ دو۔ یہ انہیں حساس بنا دے گی“ ۔

تقسیم کی سفاکیت کو ”ٹھنڈا گوشت“ ، ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ اور ”کھول دو“ جیسے افسانوں میں کچھ اس طرز بیان کیا کہ پڑھنے والے کی روح جھنجھلا اٹھے۔ اپنے افسانوں کے بارے میں قلم کشائی کرتے فرماتے ہیں، ”اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ میری تحریروں میں کوئی نقص نہیں جس کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، وہ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے“ ۔ منٹو کی بہیمانہ صاف گوئی، حقیقت پرستی اور قلم کی صداقت کو احمد فراز کے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے

”میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جان سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے ”

اسی بے باکی اور حقیقت پرستی کی بنا پر صاحب کو تقسیم ہند سے قبل اور بعد ازاں تین تین مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس میں روح اور نفس کی تمام تر ہتک اور تذلیل کے بعد باعزت بری کر دیے جاتے۔ افسانہ ”ٹھنڈا گوشت“ پر چلائے جانے والے مقدمہ کی جرح کے دوران بیان صفائی دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ ایک سچی تصویر ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں۔ بڑی بہیمانہ صاف گوئی سے اس میں ایک نفسیاتی حقیقت کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔

اگر اس میں کہیں گندگی اور غلاظت ہے تو اسے مصنف کے ساتھ نہیں بلکہ افسانے کے کرداروں کی ذہنی سطح کے ساتھ منسوب کرنا چاہیے“ ۔ اپنی بہیمانہ حقیقت گوئی کی وجہ سے ظاہراً یاسیت پھیلانے والا شخص ایک آشا وادی اور رجائیت پسند تھا جسے انسانیت میں اس حد تک یقین تھا کہ حیوانیت کی مثال قائم کرنے والا ”ایشر سنگھ“ جو ”ٹھنڈا گوشت“ کا مرکزی کردار ہے تمام تر حیوانیت کے باوجود اپنی شہوانیت کھو بیٹھا مگر انسانیت نہ کھو سکا۔

بہیمانہ حد تک حقیقت کہنے لکھنے والا یہ شخص اپنی ذاتی زندگی میں اس قدر نرم گو تھا کہ ساری عمر کبھی بیگم کو اونچی آواز میں مخاطب نہ کیا۔ منٹو صاحب کو اپنی بیگم صفیہ سے عقیدت و احترام کی حد تک محبت تھی۔ چاہتے تھے کہ بیگم انہیں ان کے نام ”سعادت“ سے پکارے جو منٹو کی والدہ کو گوارا نہ تھا۔ میاں کی خواہش کے احترام واسطے صفیہ انہیں ”سا صاحب“ کہ کر مخاطب کرتی رہیں۔ خدا نے ایک بیٹا عطا کیا جو پہلی سالگرہ سے چند روز قبل جہان فانی سے چل بسا۔ بیٹے سے جدائی کی تڑپ منٹو اپنے افسانہ ”خالد میاں“ میں بیان کرتے ہیں۔ تین بیٹیاں تھیں جن کی پرورش بڑے ناز و نعم سے کی گئی۔

حضرت منٹو کو ”انسانیت پرست“ کے علاوہ کسی اور لیبل سے نوازنا شاید ان کی ذات سے نا انصافی ہو گی۔ انسانیت پرستی کو ہی مذہب سمجھتے رہے۔ منٹو صاحب انسانوں میں فرق رکھنے کے روادار نہ تھے۔ ان کے لئے ہر مسلمان خواہ کسی مکتب فکر سے ہو، ہر ہندو خواہ کسی ذات سے ہو، مرد خواہ شریف النفس ہو یا سفید پوشی کی آڑ میں چھپا بھیڑیا، اور عورت خواہ کوٹھے کی رنڈی ہو یا گھر کی مالکن؛ منٹو کی چشم گستاخ کے مطابق ہر کوئی اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ سب سے پہلے ایک انسان تھا۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب سے پاک صاف تحریریں لکھتے رہے۔ تقسیم کی قتل و غارت گری بارے فرماتے ہیں، ”یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں“ ۔

اسلوب اور انداز بیاں نہایت سادہ اور منفرد رہا۔ گویا بات سیدھی دل سے نکلی، اور ایک زہر آلود نشتر کی مانند پڑھنے والے کے جگر میں کچھ اس طرز پیوست ہوئی کہ درد کی ایک دائمی ٹیس چھوڑ گئی۔ چرب زبانی ان کی تحریروں کا مستقل خاصہ رہی۔

جہان ایک طرف ”نیا قانون“ جیسے افسانوں کے ذریعہ معاشرے کو آئینہ دکھاتے رہے وہیں دوسری جانب ایک نئے معاشرے کا تصور بھی پیش کر دیا۔ افسانہ ”پھولوں کی سازش“ اور ”چچا سام کے نام خطوط“ پڑھنے سے منٹو صاحب کی سیاسی اور معاشرتی و اقتصادی سوجھ بوجھ کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل کام نہیں۔ سرمایہ داریت کا بت معاشرتی عدم استحکام کی وجہ ہے اس بات سے بخوبی واقف تھے۔ افسانہ ”کالی شلوار“ اس بات کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح سرمایہ داریت نے مذہب کو ایک کموڈیٹی کی طرح استعمال کیا۔

اردو کے مضمون میں فیل ہونے والا یہ لکھاری جس نے اردو ادب کو زندگی سے قریب تر کرتے ہوئے نئی وسعتوں سے روشناس کرایا، کثرت شراب نوشی باعث جگر کے عارضہ میں مبتلا ہوا اور 18 جنوری سنہ 1955 کو سعادت حسن موت سے روبرو ہوا مگر منٹو نے مقام ابدیت پا لیا۔ اپنے سینے میں افسانہ نگاری کے اسرار و رموز دفن کیے منوں مٹی نیچے یہ سوچنے والا انسان کہ ”وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا“ شاید یہ شعر گنگناتا ہوگا کہ

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments