زاہد کاظمی کا وجاہت مسعود پر بہتان در بہتان اور میری تابڑ توڑ حیرانی


”وجاہت بھائی کہتے ہیں، تم سیدھے لفظوں کو مشکل بنا دیتے ہو“ ۔
”یہ وجاہت مسعود صاحب نے کہا؟“
”ہاں! انھوں نے فرمایا، تم ’خوش‘ اور ’بو‘ کو توڑ کے لکھتے ہو تو ایسا پڑھا جاتا ہے، جیسے ’خوش ہو‘ لکھا ہے۔ زاہد بھائی میں نے اب سابق املا سے رجوع کر لیا ہے۔ میں نیک پرویز بن چکا ہوں۔ آئندہ تمام الفاظ جوڑ کے لکھا کروں گا۔ ’خوشبو‘ بھی نہیں، بلکہ خ کے بعد کا واؤ حذف کر کے ’خشبو‘ لکھوں گا۔
”ایسے لکھنا بھی ٹھیک ہے۔ لیکن وجاہت صاحب آپ کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ آپ دو لفظوں کو توڑ کے لکھتے ہیں، تو اس سے معنی واضح ہوتے ہیں“ ۔
”میں غلط ہوں۔ بس میں تسلیم کر چکا“ ۔

ہمارے دوست زاہد کاظمی ہری پور میں ہوتے ہیں۔ کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں تیس ہزار سے زائد کتب ہیں۔ یہ تعداد سننے میں بہت نہیں لگتی، لیکن حقیقت میں ایک فرد کے لیے اتنی کتابیں اکٹھی کرنا معنی رکھتا ہے۔ گزشتہ دو سال سے انھوں نے ”سنگی اشاعت گھر“ کے نام سے ادارہ بنایا ہے۔ اس پلیٹ فارم سے وہ معروف و غیر معروف شخصیات کی آپ بیتیوں کو شایع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ زاہد کاظمی نے مجھے ایک کتاب دی کہ آپ اس کی پروف ریڈنگ کر دیں۔

میں نے اغلاط کی نشان دہی کر کے پلندا لوٹایا تو زاہد کاظمی کی ٹیلی فون کال آ گئی۔ شکوہ کرنے لگے کہ میں نے آپ کو اس کام کے لیے یوں ‌منتخب کیا تھا کیوں کہ قبلہ عثمان قاضی کی سفارش تھی، ایک تو آپ درست املا لکھنے کے قائل ہیں، دوجا آپ دو لفظوں کو توڑ کے لکھتے ہیں، تو درست سمت رہ نمائی کریں گے۔ الٹا آپ نے گم راہی میں ڈال دیا۔

”وہ کیسے بھائی زاہد؟“
”آپ نے ’دل‘ اور ’چسپ‘ کو جوڑ کے ’دلچسپ‘ کر دیا؟ ’دل‘ اور ’بر‘ کو جوڑ کے ’دلبر‘ کر دیا؟ حالاں کہ ’دل‘ اور ’بر‘ میں اسپیس ہونی چاہیے۔
”ہاں زاہد بھائی میں مانتا ہوں کہ دلبر میں اسپیس ضروری ہے، ورنہ کئی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں، لیکن کیا کیجیے کہ وجاہت مسعود کئی بار دلبر کو اسپیس دینے پر، مجھے ڈانٹ چکے ہیں کہ تمھیں کسی مستند سے علاج کی ضرورت ہے“ ۔

اوپر کے جملے میں ابہام در آنے کی وجہ سے میں نے سانس لیے بغیر وضاحت پیش کی، ”میں وجاہت بھائی کے اعتراضات سے قائل ہو چکا کہ قاری لفظوں کے تصویر سے آشنا ہوتا ہے، وہ تحریر پڑھتے لفظ کی تصویر سے مفہوم اخذ کرتا ہے۔ لفظوں کی تصویر میں تبدیلی یعنی اجنبی املا قرات میں رکاوٹ بنتی ہے“ ۔
”کمال ہے یار! یہ دلیل کیسے مان لی، آپ نے؟“ ! زاہد چڑ کے بولے۔
”میرے بزرگ ہیں، عمر میں بھی پندرہ بیس سال بڑے ہیں، مانتے ہی بنی“ ۔

”آپ تو مذاق پر اتر آئے ہیں۔ خیر! املا کی تو ایک رہی، وہ خود ایسے ایسے اجنبی لفظ لکھتے ہیں۔ ایسے ایسے، ایسے ویسے الفاظ جنھیں کسی شریف قاری نے، کبھی، کہیں لکھا نہ دیکھا ہو گا“ ۔
”ایسا بھی نہ کہیں زاہد بھائی“ ۔
”ایمان سے۔ آپ کے سر کی قسم۔ ان کی تحریر میں لاتعداد غیر معروف الفاظ ہوتے ہیں۔ ان سے ذرا پوچھنا تھا، ان لفظوں کے بابت وہ کیا فرماتے ہیں؟“ زاہد کی آواز میں جھنجھلاہٹ تھی۔

”وجاہت مسعود جو جو الفاظ لکھتے ہیں، وہ لغت میں تو ہوتے ہی ہیں نا“ ! ایک لمحہ سوچ کے میں نے وکالت کی۔
”یہ کس نے کہا آپ سے؟ ان کی تحریر پڑھنے سے پہلے میں تین چار لغات پہلو میں رکھتا ہوں“ ۔
”مثلاً؟ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

”عربی، فارسی، سنس کرت، پراکرت، حتا کہ پرتگالی لغت بھی انھی کے مضامین پڑھنے کی وجہ سے خرید رکھی ہے“ ۔
”اچھا؟“ میری حیرانی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔

”اچھا کیا؟ آپ نے ان کے کالم نہیں دیکھے؟“ زاہد کے لہجے سے عیاں تھا کہ میں سامنے ہوتا تو حیرانی کا اظہار کرنے پر، شاید جھانپڑ ہی رسید کر دیتے۔ میں نے عذر پیش کیا۔
”وسی بابا کو پڑھنے کے بعد مجھے کسی اور کو پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی“ ۔

اس سے پہلے کہ زاہد کچھ اور کہتے، میں نے فوراً سوال داغ دیا۔
”اچھا یہ بتائیے، اگر ایسا ہی ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا، وجاہت مسعود کی تحریر پڑھتے آپ ڈکشنری پاس رکھتے ہیں، تو آپ نت نئے شبد سیکھتے ہوں گے؟“

”ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ایک پیرا گراف پڑھتے تین بار عربی، دو بار فارسی لغت دیکھنا پڑتی ہے۔ یوں بہت سے عربی فارسی لفظ سیکھ جاتا ہوں“ ۔
”اچھا! اگر وہ عربی فارسی کا لفظ نہ ہو تو؟“ بے خیالی میں میں نے پھر سے حیرانی کا اظہار کر دیا۔
”وہ عربی فارسی لفظ ہوتا بھی نہیں“ ۔
”تو پھر؟“
تو پھر سنس کرت لغت میں تلاشتا ہوں ”۔ زاہد نے بیزاری سے جواب دیا۔
”وہاں نہ ملے تو؟“

”پراکرت“ ۔
”پراکرت میں بھی نہ ہو تو؟“ میری حیرت بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔
”پرتگالی“ ۔ زاہد نے سوچا سمجھا جواب دیا۔
”پرتگالی لغت میں مل جاتا ہے؟“ مجھے یقین تھا، اب ہاں میں جواب ملے گا۔
”نہیں“ ۔
”نہیں؟“
”نہیں“ ۔ زاہد نے تیقن سے کہا۔

”تو پھر؟“ میری حیرت سوا تھی۔
”تو پھر یہ کہ اس ایک لفظ کو تلاشتے میں کئی نئے الفاظ سیکھ جاتا ہوں“ ۔
”لیکن اس لفظ کا کیا، جسے تلاش کرنے لغات کھنگالتے ہیں؟“
”میرے پاس ایک اور لغت ہے، اس میں دیکھتا ہوں“ ۔ زاہد کی آواز میں دکھ کا عنصر نمایاں تھا۔
”وہ کس زبان کی ہے؟“

لغات سے تھوڑی بہت دل چسپی مجھے بھی ہے، تو فطرتاً میرا یہی پوچھنا بنتا تھا۔
”وہ لغت ہر زبان کی ہے۔ الف لسانی لغت“ ۔ زاہد نے ان ہونی کہی۔
”الف لسانی لغت؟ میں نہیں مان سکتا۔ ایسی کوئی لغت نہیں“ ۔
”نہ مانیے۔ الف لسانی لغت میں ایسے ایسے، ایسے ویسے الفاظ ہیں، جو وجاہت مسعود اپنی تحریر میں استعمال کرتے ہیں“ ۔
”اللہ کی قسم“ ؟ میری حیرت دو چند تھی۔ ”اس لغت کا تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔ بتائیے یہ لغت کہاں سے خریدوں؟“

”مت خریدیے۔ ویسے بھی آپ نے وسی بابا ہی کو پڑھنا ہوتا ہے اور پھر میں نے بھی خرید کے رقم ہی ضائع کی“ ۔ روہانسو آواز میں سمجھایا گیا۔
”میں سمجھا نہیں“ ؟
”اس لغت میں ہر ایسے اریب و غریب لفظ۔ ۔ ۔“ ۔
”اریب و غریب؟“ میں نے انھیں ٹوکا۔
”ٹوکیے مت! سنیے!“ ۔ خبردار کیا گیا۔
”جی بہتر“ ۔ میرا یہ ہے کہ بلند آواز میں بے غم بھی بولیں تو میں لرز جاتا ہوں۔ ”سنائیے۔ ۔ ۔“

”ہر وہ اریب و غریب لفظ جو وجاہت مسعود نے اپنے کالم میں برتا ہے، اس کا مفہوم تلاش کرنے الف لسانی لغت کھولوں، تو لفظ کے سامنے لکھا ہوتا ہے۔ ۔ ۔“
زاہد میرا اشتیاق بڑھانے کے لیے خاموش ہو گئے۔
”بتائیے بھی تو۔ کیا لکھا ہوتا ہے؟“
”اس کا مطلب وجاہت مسعود سے پوچھیے“ ۔
”کس کا مطلب؟“
”بھئی اس لغت میں ایسے ایسے، ایسے ویسے الفاظ کے سامنے درج ہے، اس لفظ کا مطلب، وجاہت مسعود ہی سے پوچھیے۔ ہم بتانے سے قاصر ہیں“ ۔

”یہ لکھا ہوتا ہے؟“
”تو اور کیا! کیا میں فارسی بول رہا ہوں؟“ زاہد نے گرج کے کہا۔
”نہیں نہیں“ ۔ میں سہم گیا۔
”تو آپ کو یہ لغت خریدنے کی ضرورت نہیں، وجاہت مسعود ہی سے پوچھ لیا کیجیے“ ۔

”زاہد بھائی، آپ مذاق کر رہے ہیں، نا؟“ میں نے ڈرتے ڈرتے تصدیق چاہی۔
”مذاق نہیں کر رہا۔ اب تو اردو، عربی، فارسی، سنس کرت، پراکرت، پرتگالی لغات کے نئے اڈیشنوں میں بھی کئی الفاظ کے سامنے لکھا ہوتا ہے“ ۔
”کیا؟“
”اس لفظ کا مطلب، وجاہت مسعود سے پوچھیے“ ۔

یقین کیجیے یہ مکالمہ میں نے خود سے گھڑ کے نہیں پیش کیا۔ مجھے جھوٹ کہنے کی، بہتان باندھنے کی عادت نہیں۔ اس دعوے یا الزام یا بہتان کا ثواب گناہ زاہد کاظمی کے سر۔ بہ ہر حال یہ تو طے ہے، مجھے الف لسانی لغت نہیں خریدنا۔ زاہد کاظمی کے پاس عربی، فارسی، سنس کرت، پراکرت، پرتگالی لغت ہے تو کیا ہوا! میرے پاس میرے پیارے بھائی وجاہت مسعود ہیں۔ میں کال کر کے انھی سے پوچھ لوں گا، ”وجاہت بھائی، اس لفظ کا مطلب بتائیے؟“
لیکن فی الحال اس کی ضرورت بھی نہ پیش آئے گی، کیوں کہ مجھے وسی بابا ہی کو تو پڑھنا ہوتا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments