انسانوں اور مارخوروں کا عاشق نہ رہا


دنیا بھر کی ایکشن کمرشل فلموں کی کہانیوں کا بالعموم ایک مخصوص ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اس میں ایک عدد ہیرو ہوتا ہے جو بیک وقت وجیہہ و شکیل، نرم دم گفتگو اور رزم حق و باطل میں فولاد ہوتا ہے۔ عشق مجازی کے معاملات میں سادگی کے باوجود سیانا ہوتا ہے، اور ان سب کے ساتھ اٹل اخلاقی معیارات پر بھی قائم ہوتا ہے۔ گویا فلم بین طبقے کی ان تمام تشنہ آرزووں کی تجسیم جو وہ خود میں پیدا کرنے کے شوقین لیکن انہیں حاصل کرنے سے لاچار ہوتے ہیں۔ فلم کی ابتدا ہی سے اسے غریب بڑھیا کی مدد کرتے اور ناکردہ گناہوں پر ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود خاموش دکھایا جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں ایک عدد ولن بھی ہوتا ہے جو بد وضع، بد اخلاق اور اخلاق کے مروجہ پیمانوں کی رو سے مجسم برائی ہوتا ہے۔ فلم میں اس کے داخلے کے ساتھ ہی اسے کوئی گھٹیا حرکت مثلاً راہ چلتے پھیری والے سے زبردستی پھل چھین کر کھاتے اور اگر کچھ نہ ہو تو کسی مسکین کتے کو بلاوجہ لاٹھی مارتے دکھایا جاتا ہے۔ سماجیات کی اصطلاح میں جہاں تک یہ خادم ترجمہ کر پایا ہے، ہیرو کو ”اپنا“ اور ولن کو ”غیر“ بنا کر پیش کرنا کہانی کو آگے چلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے تاکہ آخر میں جب ”اپنا“ ، اپنے نسبتاً دھان پان تن و توش کے باوجود ”غیر“ کی پٹائی کرتا ہے تو تماشائی اچھل اچھل کر اسے داد دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ بدیہی حقیقت بہ آسانی فراموش کروا دی جاتی ہے کہ کوئی بھی شخص یا طبقہ نہ تو سراپا خیر ہوتا ہے اور نہ ہی مجسم بدی۔

یہ تکنیک سیاست کے میدان میں بھی آزمائی جاتی ہے جہاں میڈیا کی مدد سے کسی چنیدہ کو ”اپنا“ بنا کر دنیا بھر کی اچھائیاں اس کی ذات میں مجتمع کردی جاتی ہیں بلکہ اس کی بشری کمزوریوں کو بھی زلف محبوب کی تیرگی بنا دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب جس شخص یا طبقے کو ”غیر“ کے طور پر پیش کرنا ہو، ہر قسم کی برائی اس کے سر منڈھ دی جاتی ہے۔ مثلا، احباب کو پہلی اور دوسری جنگ خلیج شاید یاد ہو۔ اس دور میں عراق کے حکم ران صدام حسین کے خلاف رائے عامہ کو بھڑکانے کے دیگر حربے جب ناکام رہے تو ”وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں“ کا ڈھکوسلا تراش کر اس کا ڈھول اس قدر بلند آہنگی سے پیٹا گیا کہ اس کہانی میں جھولوں کی نشان دہی کرنے والے نقار خانے میں طوطی کی سی حیثیت اختیار کر گئے۔ بعد میں سب پر ظاہر ہوگیا کہ یہ کہانی سرتاپا جھوٹ تھی۔

بوجوہ، ہمارے ملک کی اکثریت کی نگاہوں میں، وطن عزیز بلوچستان کے تناظر میں ”غیر“ کا یہ درجہ ایک طبقے کو دیا گیا ہے جسے ”سردار“ کہا جاتا ہے۔ جب بلوچستان کی پسماندگی کا ذکر ہوتا ہے تو مزمن نا انصافی، وسائل کی تقسیم کے من مانے فارمولے، ”قومی سلامتی“ کے نظریے پر استوار ریاستی بندوبست، عوامی آراء کی پے در پے پامالی وغیرہ جیسی پیچیدہ وجوہات سے توجہ ہٹانے کے لیے، سہل پسند طبیعتوں کو فکری، لفظی اور بسا اوقات مرئی مکے بازی کے لیے ”سردار“ نام کا بھس بھرا تھیلا پیش کر دیا جاتا ہے۔ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اس خادم کی رائے میں قبائلیت اور اس کی بنیاد پر کھڑا حفظ مراتب کا نظام ایک فرسودہ مظہر ہے جو جدید دور کے تقاضوں کا ساتھ دینے سے قاصر ہے۔ لیکن ضرورت اس نظام کو سہارا دینے والے سماجی اور سیاسی عوامل کو بدلنے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی ایک شخص یا طبقے کو بندر کی حیثیت دے کر اور مطعون کر کے طویلے کی بلا اس کے سر پر ڈالنے کے سطحی اقدامات کی۔ اسی طرح تعمیم، یعنی کسی کے نام کے ساتھ خان، چودھری، سردار، سنگھ وغیرہ لگا دیکھ کر اس کے پورے گروہ کو گردن زدنی ٹھہرانا بھی اس خادم کی نظر میں انصاف نہیں ہے۔

اس طویل تمہید کی معذرت کہ یہ موضوع بجائے خود ایک مکمل کتاب کا متقاضی ہے۔ لیکن اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ایک بزرگ، دوست، استاد اور روشن فکر سماجی کارکن کل راہی ملک عدم ہوئے جو پیدائش کے حادثہ کے سبب اسی مقہور طبقے یعنی سردار سے تعلق رکھتے تھے، اگرچہ ان کی بے لوث و بے ریا، خاکسارانہ زندگی میں سرداری کی روایتی خو بو کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس خادم نے نوے کی دہائی کے آخر میں سال بھر ایک بین الاقوامی ماحولیاتی ادارے میں ملازمت کی، جو وہاں کا ماحول طبیعت کے مطابق نہ ہونے کے سبب ترک کردی۔ اس دور کی واحد خوش کن نشانی سردار نصیر ترین سے تعارف ہے جو جلد ہی دوستی میں بدل گیا۔

سردار صاحب کا تعلق پشین سے تھا۔ ان کے والد سردار نذر محمد ترین اپنے ہم چشموں کی نسبت دور اندیش اور روشن فکر واقع ہوئے تھے چنانچہ سردار صاحب کو لڑکپن میں ہی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کروا دیا گیا۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو کسی نے سردار نذر محمد ترین کو مشورہ دیا کہ لڑکا لائق ہے، اسے سی ایس پی کروا دینا چاہیے۔ اس مقابلے کے امتحان کی اچھی طرح تیاری کے لیے کسی کے مشورے پر سردار نصیر صاحب کو امریکہ بھجوا دیا گیا۔ وہاں انہوں نے سیاسیات میں داخلے کے لیے کئی جامعات میں درخواست دی۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق، کسی پروفیسر نے پوچھا کہ وہ کیوں اس شعبے کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سردار صاحب نے سی ایس پی کے امتحان کا ذکر کیا۔ پروفیسر صاحب نے سردار صاحب، بلکہ ہمارے اہل وطن کے تخیل کی کوتاہی پر اظہار تاسف کرتے ہوئے پوچھا کہ اتنا پڑھ لکھ کر بیوروکریٹ بننا ہی کیا ان کے خوابوں کی معراج ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا سوال کسی نے اس سے قبل سردار صاحب سے نہیں پوچھا تھا۔ پروفیسر نے مشورہ دیا کہ وہ پڑھو جہاں تمہیں لگے کہ تمہاری روح کو سیرابی ملتی ہو۔

سوچ بچار کے بعد سردار صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ فلم سازی کے میدان میں قسمت آزمانا چاہیں گے۔ یاد رہے کہ یہ سن ستر کی دہائی تھی اور پشین جیسے کور دہ میں سردار صاحب کے اہل خانہ اور ہم چشموں نے اس ”میراثیوں“ سے منسوب فن کا انتخاب کرنے پر کیا کیا فیل نہ مچایا ہوگا۔ لیکن سردار صاحب اب قبائلی اور رواجی زنجیروں سے خود کو آزاد کرچکے تھے۔ پوچھ تاچھ کے بعد پتا چلا کہ فلم سازی کی تعلیم چند ہی اداروں میں دست یاب ہے سو ان میں سے کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا۔ فارغ التحصیل ہو کر واپس لوٹے تو کمرشل فلمی ماحول کو اپنی طبیعت کے مطابق نہ پایا۔ کچھ دن کسی اشتہاری کمپنی میں کام کیا لیکن جی نہ لگا۔ ایک روز من میں سمائی کہ بلوچستان کی جنگلی حیات کو دستاویزی فلم کا موضوع بنایا جائے۔ کسی نے بتایا کہ ضلع قلعہ سیف اللہ میں واقع تورغر یعنی کالے پہاڑ میں اب تک ”سلیمان مارخور“ کی کچھ تعداد باقی ہے لیکن وہ بے دریغ شکار اور ماحول کی تباہی کے سبب معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس پر انہوں نے، فلم سازی کے شوق کے ساتھ ساتھ، پاکستان کے قومی جانور کو بچانے کا تہیہ کر لیا۔

یہاں جنگلی حیات کی بودوباش اور افزائش نسل کے بارے میں کچھ روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ مارخور اور ان کی طرز کے گلوں میں رہنے والے تمام جانوروں میں بالعموم گلہ ماداؤں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی سربراہی ایک نر کے پاس ہوتی ہے۔ دوسرے نر آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں لیکن گلے کا سربراہ انہیں قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔ بسا اوقات یہ نر جسمانی طور پر تو اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ دوسرے نروں کو کھدیڑ کر بھگا دے، لیکن افزائش نسل کے باب میں اس کی کارکردگی ماند پڑ چکی ہوتی ہے۔ نادر جنگلی حیات کے تحفظ کے ماہرین کی رائے میں گلے کی تعداد کو بڑھانے کے لیے ایسے جسمانی طور پر طاقت ور لیکن جنسی طور پر کم فعال نر کو راستے سے ہٹانا ضروری ہوتا ہے۔

اسے امیروں کا چونچلا کہہ لیجیے یا رقم کا زیاں، لیکن دنیا میں ایسے شکاریوں کا ایک طبقہ پایا جاتا ہے جو لمبے سینگوں والے مارخوروں کو شکار کر کے ان کے سروں یا جسم کو بھس بھر کر اپنے گھروں میں سجانے کا شوقین ہوتا ہے اور اس کے لیے بھاری رقم خرچ کرنے کو تیار رہتا ہے۔ عالمی سطح پر خطرے سے دوچار جانوروں کی زندہ یا مردہ باقیات کو منضبط کرنے کا ایک معاہدہ موجود ہے جو ”سائی ٹیز“ کہلاتا ہے۔ اس کی رو سے ایسے شکار کو قانونی بنانے کے لیے ایک قانونی طریق کار ہے۔ اس معاہدے کے دستخط کنندہ ممالک باقاعدہ سائنس دانوں کی مدد سے سالانہ یہ حساب لگا کر، کہ کتنے جانوروں کے شکار کی اجازت دینا مناسب ہوگا، اس لائسنس کی نیلامی منعقد کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ایک قانون کے تحت اس نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کی، جو لاکھوں ڈالر تک ہو سکتی ہے، مقامی لوگوں اور حکومت کے درمیان تقسیم کا ایک فارمولا طے کر رکھا ہے۔

پاکستان کو اس عالمی کنونشن کا رکن بنوانے اور قومی سطح پر قانون بنوانے میں سردار صاحب کی ان تھک محنت کا اہم کردار رہا۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ نیلامی کی رقم کے ثمرات مقامی آبادی تک، شفاف طریقے سے پہنچانے کا جو انتظام سردار کی کاوشوں سے وضع ہوا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مقامی آبادی اب ان جانوروں کی اپنی مویشیوں سے زیادہ دل جمعی سے حفاظت کرتی ہے چونکہ وہ ان کی اپنے علاقے کے لیے قدر و قیمت سے واقف ہے۔ اس کی ایک نشانی مارخوروں کی تعداد کا سات سے بڑھ کر سینکڑوں تک پہنچ جانا ہے۔

اس خادم نے سردار صاحب سے اپنے دہائیوں پر محیط ربط ضبط کے دوران انہیں قریب سے دیکھا۔ ایک روز سائنس دانوں اور دوسرے صوبوں، مرکز اور بیرون ملک سے آئے ہوئے ماہرین جنگلی امور، سائنس دانوں اور افسران سے مذاکرات کرتے ہوئے ہوئے وہ تحفظ جنگلی حیات اور عالمی ماحولیاتی قوانین پر اپنے عبور کا مظاہرہ شاندار انگریزی اور مسکت قوت استدلال کی مدد سے کرتے پائے جاتے تھے۔ اور اگلے ہی روز کوئی انہیں ان پڑھ قبائلیوں کے درمیان قضیوں کو نمٹاتا اور اور ان میں اتفاق رائے پیدا کرتے دیکھتا تو یقین نہ کر پاتا کہ یہ شخص جدید تعلیم کے پاس سے بھی گزرا ہے۔ یوں لگتا کہ تمام عمر قبائلی نفسیات کا مطالعہ کرتے اور علاقائی امور نمٹاتے ہی گزری ہے۔ بزرگوں میں بزرگ اور جوانوں میں جوان نظر آتے۔

کل یہ اپنی سرزمین اور لوگوں کے عاشق، صحیح معنوں میں عالمی شہری اور جنگلی حیات کے تحفظ کے علم بردار اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ تمام عمر تجرد میں گزاری مگر سردار صاحب کو یاد کرنے اور ان کے کمالات کے معتقد بہت سے کثیر العیال احباب سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ان میں ہر قوم، ملک اور علاقے سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے علاوہ وہ مارخور بھی شامل ہیں جو ان کی مساعی کی بدولت معدومیت سے بچ کر تورغر کے کوہ و دمن کو رونق بخش رہے ہیں۔

ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد ز عشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments