بیوہ بھٹیارن کی آسیب زدہ بیٹی ۔۔۔۔ خفیف مخفی کی خواب بیتی


 

(خفیف مخفی کی اہلیہ کی ممکنہ تشریف آوری سے محکم دین صاحب اس قدر خائف ہوئے کہ بوکھلا کر چائے، پھول نگر کی بادامی برفی اور میز پہ رکھے دیگر نوادرات سمیت زمین بوس ہو گئے تھے۔ اب چائے میں سنی قمیص بدلنے کے لئے اپنے مشہور زمانہ گتھلے سے بنڈی برآمد کر رہے ہیں….)

یک دم کمرے میں صدیوں پرانے کپڑوں کی بو پھیل جاتی ہے۔ دیکھتا ہوں تو بنڈی اس کے ہاتھ میں ہے ۔

پہلی نظر میں یہ ایک انتہائی تڑا مڑا اور قطعاًناقابلِ شناخت پارچہ ہے۔ محکم اسے دونوں ہاتھوں سے دو مقامات سے دبوچ کر زور زور سے جھاڑتا ہے۔ اگر یہ اس کی کپڑے کے بل نکالنے کی کوشش ہے تو بری طرح ناکام رہتی ہے۔ ہاں شناخت میں کچھ مدد ضرور ملتی ہے۔ یہ بنیانوں کے ولایتی دور سے پہلے کا ہمارا روایتی زیر جامہ ہے لیکن صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اِس کے خالق کسی قصباتی درزی کا تخلیقی ذہن ٹی شرٹ جیسی مغربی پوشاک سے بھی متاثر ہو چکا تھا چناچہ کسی بڑے تولیے کی لمبائی جتنا چوڑا وہ زیر جامہ بنڈی اور ٹی شرٹ کے درمیان کسی نامعلوم نقطے پر ہمیشہ کے لیے سِل چکا ہے۔ میں ٹھنڈی سانس لیتا ہوں اور صوفے پر بکھرے اس کے دوسرے الا بلا کو ایک بار پھر دیکھتا ہوں جن کی کسی بیگ میںبیک وقت موجودگی ایک عجوبے سے کم نہیں۔

”یہ تو کیا کچھ ساتھ اٹھائے پھرتا ہے؟“ میں تعجب سے پوچھتا ہوں۔

”ضروری چیزیں ہیں۔ “ وہ مختصر جواب دیتا ہے۔

وہ غسل خانے کا رخ کرتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ ایک نامعلوم عرصے تک وہاں قیام کرے گا۔ مجھے اپنے اوپر غصہ آتا ہے کہ خواہ مخواہ میری اِس احمقانہ حرکت کی وجہ سے وقت کی بربادی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اصل معاملہ ابھی جوں کا توں ہے یعنی محکم دین کا وہ لغو فقرہ جسے وہ میری یاداشتوںکے پہلے فقرے کے طور پر لکھوانا چاہتا ہے۔

”حقیقی اور تقریباً حقیقی“ میں بڑبڑاتا ہوں۔

اچانک ایک انتہائی ناقابلِ شناخت آواز میرے کانوں میں پڑتی ہے،میں چونکتا ہوں ،خدایا یہ کیا آواز ہے اور کہاں سے آ رہی ہے۔ میں پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں آواز نہ صرف یہ کہ عجیب و غریب ہے بلکہ پراسرار بھی ہے،خاص طور پر کسی موٹے کالے بھنورے کی جیسی غصیلی وہ گھوں گھوں جس کے ساتھ کسی کڑک مرغی کی کلک کلک تھوڑا بلند ہوتی ہے اور پھر شاں کی تیز آواز جیسے کسی سائیکل کے پہیے کی ہوا نکل گئی ہو اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے گھوں گھوں پھر شروع ہو جاتی ہے۔ اچانک مجھے احساس ہوتا ہے کہ کوئی ہستی اپنی آواز کے تمام تر بے ہنگم پن کے باوجود آہنگ اور ردہم کو ابھارنے کی شدید کوشش کر رہی ہے،اور پھر میری ہنسی نکل جاتی ہے میں سر پکڑ لیتا ہوںمحکم دین غسل خانے میں گنگنا رہا ہے۔ اور پھر میں پچیس سال پرانا وہ رومانی گانا بھی پہچان لیتا ہوں جسے محکم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فوری طور پر دو باتیں میرے ذہن میں آتی ہیں،ایک تو آسیبی واقعات کا وہ ایک سلسلہ جس کے نتیجے میں محکم چند ہفتے کے لےے ایک بیوہ بھٹیارن کے عشق میں گرفتار ہو کر وہ گانا گنگناتا پھرتا رہا تھا۔ بھٹیارن کی بیٹی پر آسیب آتا تھا۔ جنات نکالنے والے دو ماہرین بری طرح نا کام ہو چکے تھے۔ مجھے بلایا گیاتھا کیونکہ میں جنات نہیں بلکہ جنات نکالنے والوں کو نکالنے کی شہرت رکھتا تھا۔ لیکن وہ میرے بلکہ محکم کے پہنچنے سے پہلے ہی بھاگ گئے تھے کیونکہ’ لڑکی جن‘ نے ایک کا سر پھاڑ دیا تھا اور دوسرے پر ابلتی ہوئی کھیر پھنکی تھی۔ دوسری بات البتہ پریشان کن ہے اور وہ یہ کہ مجھے کچھ یاد نہیں آ تا کہ وہ واقعات کتنا عرصہ کتنے سال پہلے پیش آئے تھے اور میں چلا ہوں آپ بیتی لکھنے ۔

غسل خانے سے گھوں ۔ کلک۔ شاں کی موسیقی بدستور سنائی دے رہی ہے،میں تیزی سے میز پر رکھے کاغذوں کا دستہ سامنے لاتا ہوں اور تیزی سے لکھتا ہوںبھٹیارن کی بیٹی کا آسیباور قلم رکھ دیتا ہوںمیں اور محکم جب جیپ میں اس گاوئں پہنچے تھے تو شام ہو چکی تھی۔ مجھے یاد آتا ہے اور میں یہ بات بھی لکھ لیتا ہوں۔ مجھے اطمنان سا ہوتا ہے کہ اسی طرح باتوں سے باتیں یاد آتی جائیں گی۔ لیکن ایک پریشان کن بے چینی ساتھ ہے کہ آخر یہ سب کیسے ہو گا۔ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ کیا مختلف ادوار بناوں؟دو تو صاف بنتے ہیں یعنی محکم کے شریک کار بننے سے پہلے اور بعد کے ادوار۔ مگر اس سے کیا ہو گا سوائے اس کے کہ  ورائے طبعی(paranormal) اور سری علوم (occult sciences (کے میرے مطالعے اور تحقیق کے انتہائی مخفی میدان میں ایک بالکل غیر مخفی کردار گھس آئے گا اور جہاں کسی ایک مسلے میں میری مدد کرے گا وہاں درجنوں مسائل میرے لیے اور پیدا کرئے گا۔ لیکن اس خدشے کے باوجود محکم دین تو رہے گا بالکل رہے گا اس کے بغیر تو میری ان یاداشتوں کا تصور بھی محال ہے۔ تو پھر کیا ورائے طبعی مظاہر کی مختلف اقسام کے حوالے سے اپنے تجربات کو ترتیب دی جائے،مثلاً ٹیلی پیتھی،آسیب زدگی،،مستقبل بینی،علم نجوم،ESP،کالا جادو،علم العداد،وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس اپروچ میں قباحت یہ نظر آتی ہے کہ اس طرح کی ترتیب یاداشتوں کی سوانحی حیثیت قائم رکھنے کی بجائے مخفی علوم پر ایک درسی کتاب بن جائے گی اور اس طرح کے کام کولن ولسن اور اس قماش کے کئی دوسرئے لوگوں نے بہت کئے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ انتہائی اہم بات، ایک طرف موسیو لافاں پیرا سائیکالوجی کے مانے ہوئے فرانسیسی محقق سے میری عمر کی رفاقت اور مشترکہ تحقیقی پراجیکٹس پر کام کی اپنی پوری تاریخ ہے دوسری طرف نجف جبلی مجلہ ’اسرار‘ کے میرے دوست ایڈیٹر کی اپنی شخصی پیچیدگیاں۔ تو پھر کیا کیا جائے؟

اور میں صرف یہ کرتا ہوں کہ کمرے کے بائیں طرف کی لمبی کھڑکی کے سامنے چلا جاتا ہوںاور ذہن میں آنے والی ایک دوسری بات پر غور کرتا ہوںکہ آخرغسل خانے کے ماحول اور انسان کی پوشیدہ غنائی صلاحیتوں میں کیا تعلق ہے؟ اس سے ایک تیسری کافی لغو بات ذہن میں آتی ہے کہ محکم سے یہ سوال پوچھنا چاہیے جس کی یہ صلاحیتیں اس وقت کافی بیدار ہیںاور وہ پوری دل جمعی سے برسوں پہلے بھٹیارن کے عشق میں گایا دردناک نغمہ گنگنا رہا ہے لیکن محکم بھلا خاک بتائے گا زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کتنے برسوں پہلے یہ واقعات رونما ہوئے؟آپ بیتی میں وقت کی ترتیب اور حساب کتاب خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اور حالت یہ ہے کہ ماضی میں جیسے کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہا۔ اپنی ہی زندگی کی تفصیلات کو ذہن میں واپس لانا اتنا کٹھن ہو گا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یاداشت پر زور ڈالنے سے بس اتنا ہوتا ہے کہ خواب جیسے واقعات شعور کی دھند میں ہیولوں کی طرح ظاہر ہونے لگتے ہیں اور بس لیکن میں نے آپ بیتی لکھنی ہے نہ کہ خوابخواب بیتی؟

میرے خدا میرے ذہن میں چھپاکا سا ہوتا ہے اور جیسے زندگی بھر کے پراسرار تجربات کو کسی ڈھب سے بیان کرنے کے الجھے ہوئے مسائل ایک ہی لمحے میں حل ہو جاتے ہیںخوا ب بیتی بلکہ ’خفیف مخفی کی خواب بیتی‘۔ یہ باتخواب میں سب معافی ہے۔ خواب سب مسلے حل کر دیتے ہیں ۔ کوئی ضرورت نہیں سال بہ سال واقعات یاد کرنے کی، سن تاریخوں میں جھک مارنے کی۔ جو کچھ جیسے یاد آتا جائے اس کو خواب کی طرح پھر دیکھو اور خواب کی طرح سنا دو۔ یوں بھی ورائے طبیعی دنیا موسیو لافاں کے خیال کے مطابق ایک انوکھے خواب کی دنیا ہے جس کا حقیقت سے ازلی بیر ہے۔ تو محکم کے ساتھ بیٹھوں گا۔ محکم کو ساتھ بٹھانا ہی پڑئے گا۔ تو نشست ہو گی لیکن صرف بٹھانا کافی نہیں اسے خواب بیتی کا طریقہ کار بھی سمجھانا پڑئے گامحکم کو سمجھانا میرے خدا ! میں تصور سے ہی لرزجاتا ہوںلیکن خواب بیتی کے علاوہ اور کوئی حل بھی تو نہیںتخلیقی حلمیں اپنے آپ کو داد دیتا ہوں اور اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے اِس الہامی مظاہرے پر خود حیران ہوتا ہوں۔ اچانک ذہن تخلیقیت کے پیچیدہ مسلے کی طرف بھی لپکنا چاہتا ہے کہ لگے ہاتھوں اسے بھی حل کر ڈالولیکن پھر میں سختی سے اپنے آپ کو باز رکھتا ہوں کیونکہ یہ بھی میں نے دیکھا ہے کہ حد سے بڑھی ہوئی تخلیقیت بسا اوقات اپنے ہی کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے اور پھر خالی ہو کر اپنا ہی منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ خواب بیتی ۔ خواب بیتی۔ خفیف مخفی کی خواب بیتیمیں اپنے اندر دو تین بار یہ آوازیں نکال کر سنتا ہوں،انہیں وہیں روک دیتا ہوں اور پھر کھڑکی کی راہ سے اوراب باقاعدہ پھول نگر کے قصبے کا سہ پہر کے ڈھلتے سورج میں نظارہ کرنے لگتا ہوں۔   (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments