لداخ اور گلگت کے موسموں کا حال


چلی اور ارجنٹینا کے درمیان کچھ علاقے متنازعہ تھے۔ بیسویں صدی کے وسط میں ایک وقت وہ بھی آیا کہ ایک دوسرے پر اپنی برتری کے اظہار کے لیے دونوں نے اپنے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر پرائم ٹائم خبرنامے پر موسم کے احوال میں ان جزائر کے موسم کے احوال بھی بتانا شروع کر دیے۔۔۔ ۔

کچھ سنا سنا لگا نہ۔۔۔ مجھے بھی لگا۔۔۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ میں خبریں بہت کم دیکھتی ہوں۔ میرے ابو تقریباً سب ابو لوگوں کی طرح باقاعدگی سے دن میں 3 بار تو خبریں ضرور دیکھتے ہیں تو جب میں گھر ہوں تو میرے کانوں میں بھی کوئی آواز پڑ ہی جاتی ہے۔ یہ پچھلے ماہ کی بات ہے کہ میں نے 12 بجے کا خبرنامہ دیکھ لیا۔ مجھے 9 بجے والا نہیں پسند، 12 بجے والا پسند ہے۔ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر میری دیگر عادات کو مدنظر رکھتے ہوئے میری امی کامل وثوق سے کہتی ہیں کہ میرا سردار جی کے خاندان سے تعلق لگتا ہے۔۔۔ ۔ ۔

خیر آگے بڑھتے ہیں۔ خبروں میں موسم کے احوال کی باری آئی تو کچھ آشنا مگر کم سنے ہوئے نام بھی سماعتوں سے ٹکرائے۔ سری نگر، لیہہ، لداخ۔۔۔ سری نگر کا موسم تو تب بھی بتاتے تھے جب میں بہت چھوٹی تھی مگر اب کافی عرصے بعد سنا۔۔۔ ہماری میڈیا پالیسی کا شکریہ۔۔۔ عرصے بعد ہی سہی سن کر اچھا لگا۔

اسکے بعد دماغ پروسس کر کے ایک اور نام لایا۔ لیہہ۔ ایک ٹیس سی اٹھی۔۔۔ مجھے لیہہ جانے کا بہت شوق ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ زندگی میں ہر خواہش پوری ہوئی ہے مگر یہ عشق ابھی ادھورا ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کے پورے ہونے کی کوئی امید نطر نہیں آتی لیکن کن ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے۔

اگلے نام کی وجہ کچھ لمحوں کے لیے دماغ پروسس نہیں کر پایا۔۔۔ لداخ۔۔۔ جب سمجھ آئی تو ہونٹوں اور دل پر ایسی ممسکراہٹ آئی جسے شیطانی کہا جا سکتا ہے۔۔۔ مانو دل جھوم گیا۔ مجھے ایسے بھائی چارے کے بے ضرر اظہار اچھے لگتے ہیں۔ ذرہ ریسرچ کرنے پر پتہ چلا میرا اندازہ غلط تھا۔ مگر چلو کوئی بات نہیں، اسے بے ضرر بدلہ کہہ لیتے ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ 3 مئی سے بھارتی سرکاری ٹی وی اور ریڈیو چینلز نے میر پور، مظفرآباد اور گلگت وغیرہ کے موسم کے احوال بتائے۔ بظاہر تو ایسا کرنے میں کوئی ممانعت نہیں مگر ہر وقت جنگ پر آمادہ رہنے والی دو ریاستوں کے لیے یہ نفسیاتی جنگ کا ایک حربہ ہے۔

بھارت کے اس اقدام کی بھارت کے اندر ہی مختلف وجاہات بتائی جا رہی ہیں جیسا کہ اپریل کے مہینے میں پاکستانی سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان کو حکم جاری کیا کہ وہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں ترمیم کر کے ستمبر تک جنرل الیکشنز کروایئں اور تب تک عبوری حکومت قائم کی جائے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس علاقے پر زبردستی قابض ہے، پاکستانی سپریم کورٹ کے پاس ایسا کوئی آرڈر پاس کرنے کا اختیار نہیں اور یہ کہ ہم دیکھ لیں گے۔۔۔ پھر یہاں کو موسموں کا حال دکھا کر دیکھ لیا۔۔۔

اسکے بعد پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی اسی نوعیت کا ردعمل آیا کہ بھارت جھوٹے نقشوں کی طرح ہمارے علاقوں کے موسم کا احوال بتا رہا یے۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی توہین ہے۔۔۔ ہم دیکھ لیں گے۔۔۔ پھر ہم نے بھی دیکھ لیا اور سری نگر، پلوامہ، لیہہ وغیرہ کا موسم دکھا کر بدلہ پورا کر لیا۔

باہمی دلچسپی کے امور پر خیر سگالی ور بھائی چارے کے اس اظہار سے بی بی سی، سی این این ٹائپ ادارے بھی گھبرانے لگے ہیں کہ کہیں یہ دونوں ملک ہم سے بھی بدلہ لینے پر آمادہ نہ ہو جائیں اور ہمارے علاقوں کے موسم دکھا کر ہمٰں ہی قابض قرار نہ دے دیں۔۔۔

انڈین میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل مہا پترا کے مطبق گزشتہ سال آرٹیکل 370 کے انوسار کیونکہ کشمیر اور لداخ کی خصوصی حیثیت ختم ہو گئی ہے اس لیے وہ کافی عرصے سے ان علاقوں کے موسم شمال مغربی ڈویژن سب ڈریژن، جموں کشمیر کے مطابق فور کاسٹ کرنا چاہ رہے تھے۔

” ہماری جمہ داری ہے کہ انڈین یونین ٹیریٹری میں جو علاقے آئیں ہم ان کے موسم کا احوال بتایئں۔ ہم نے سرکار کے سامنے درخواست رکھی انہوں نے مان لی۔۔۔ جیسے ہی انومتی ملی، ہم نے اپنا کام شروع کر دیا۔“

انکا کہنا یہ بھی تھا کہ ہم لداخ میں عنقریب اپنا موسمیاتی سٹیشن کھولیں گے۔ یاد رہے کہ بین الاقوامی موسمیاتی ادارے کی دی گئی ذمہ داری کے مطابق بھارتی موسمیاتی ادارہ پورے جنوبی ایشیا کے موسمی حالات اور تغیرات کا جائزہ لینے اور فور کاسٹ کرنے کا ذمہ دار ہے۔ مہا پتر مزید کہتے ہیں کہ خطے کا نمائندہ موسمیاتی سنٹر ہونے کی وجہ سے یہ ہماری ذمہ داری ہے اور کیا ہم آپ سب کو پہلے ہی طوفانوں، سیلابوں اور سمندری طوفانوں کا نہیں بتا دیتے تو اب بڑے دل کا مظاہرہ کرو اور یہ بھی برداشت کرو۔

ایک اور خبر کے مطابق یہ آئیڈیا اوائل فروری میں اجیت دیول نے دیا تھا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اس سارے قصے کا ایک رخ چین کو خبردار کرنا بھی ہو سکتا ہے کہ لداخ ہمارا ہے اور گلگت بلتستان سے گزرتی ون بیلٹ ون روڈ بھی۔ خیر وجوہات اور پیغامات تو بہت سے ہو سکتے ہیں مگرآج تک پاک بھارت چار جنگیں ہو چکیں ہیں۔ جو انہیں علاقوں پر ہوئیں۔ حاصل وصول کچھ نہیں۔ دفاعی بجٹ بڑھانا مجبوری بن جاتا ہے اور غریب ترستا رہ جاتا ہے۔

جنوبی ایشیا سمیت پوری دنیا کا میڈیا سیاست اور سکینڈلز کے لئے دیوانہ ہے۔ ایک دہائی سے ماہرموسمیات دہائی دے رہے ہیں کہ خدارا میڈیا پالیسی بنانے والے گلوبل وارمنگ اور جنگلات کے متعلقہ ایک خاص ٹائم سلاٹ مقرر کر لیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس سے میڈیا کو نہ تو ٹی آر پی ملنے کا امکان ہے اور نہ ہی اشتہارات۔

ایسے ہی انڈیا اور پاکستان کو بار بار کہا گیا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان پر جھگڑا نظرانداز کر کے پگھلتے گلیشیئرز کی وجوہات اور روک تھام کے متعلق آگاہی کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جائے مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔ اب دونوں ممالک موسم کا حال تو بتا رہے ہیں مگر یہ نہیں بتا رہے کہ گلیشیئز کس رفتار سے پگھل رہے ہیں۔ کونسل آف سٹریٹجک رسک کے مطابق اگر دونوں نے اس طرف توجہ نہ دی تو چند برسوں میں یہ دونوں ملک سیلاب کے ہاتھوں تباہ ہو جایئں گے۔

بھارت بنیادی طور پر ایک وسعت پسند ملک ہے۔ کشمیر، لداخ، نیپال اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر بھارت کی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں۔ ان کے ارادے بڑے ہیں۔ موسم کا احوال تو ایک چیک تھا۔ ماہرین اسے پاک بھارت موسمیاتی جنگ کا نام دے رہے ہیں۔ جو کچھ بھی ہو۔ یہ موسم کے احوال بانٹنا کسی کے لیے دکھ سکھ بانٹنے جیسا بھی ہو سکتا ہے اور کسی کے لیے محض جنگ کا پیغام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments