آگے راستہ بند ہے



بی اے کے کلاس فیلو اور دوست یاسر آفتاب کے والد محترم دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔ میں اعلان نہیں کر رہا بلکہ آپ کو سیاق و سباق بتا رہا ہوں۔ اطلاع ملنے کے بعد میں نے اسد اور کاشف سے رابطہ کیا۔ یہ بھی خیر سے ہمارے کلاس فیلو ہی ہیں۔ ان سے پوچھا یار کیا ارادہ ہے کب جانا ہے یاسر کے پاس۔ تو اس سوال کا بھی وہی حال ہوا جو اسمبلی میں پیش کیے جانے والے بل کا ہوتا ہے۔ ہمارا کوئی اتفاق نہ ہو سکا۔ کبھی اسد نے کہا کہ وہ مصروف ہے۔ کبھی کاشف نے معاملے کو پشاور میٹرو کی طرح طول دے دیا۔

بالآخر مجھے اکیلے ہی ہمت کرنی پڑی کہ دوسرے آئیں یا نہ آئیں مجھے جانا ہی ہو گا۔ میں نے ایسی ہمت دکھائی جیسی راحیل شریف نے فوجی عدالتوں کا قانون پاس کروانے کے لیے دکھائی تھی۔ خیر میں نے اسد سے کہا کہ میں کل یاسر کی طرف جا رہا ہوں اس نے کہا ٹھیک ہے میں بھی کل جاؤں گا۔ اسد نے اپنی طرف سے ایسے جواب دیا جیسے آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا تھا کہ ہم تو پہلے سے ہی تیاری میں تھے۔

اتوار کو میں نے اپنے کزن تنویر کو ساتھ لیا اور رخت سفر باندھا۔ بھلوال کے ایک دوست علی حسان نے کہا تھا کہ جب بھی بھلوال آؤ تو خدمت کا موقع ضرور دینا۔ علی حسان نے سیاستدانوں کی طرح دعوی اور وعدہ تو کر لیا تھا مگر جب میں بھلوال پہنچا تو میں نے اسے کال اور میسج کیے تو آگے سے حسان صاحب ایسے چپ جیسے سیاست دان الیکشن جیتنے کے بعد چپ ہو جاتے ہیں۔ جب ہم یاسر کے پاس تعزیت کر کے گھر لوٹ رہے تھے تو حسان صاحب کا یوں پیغام آیا جیسے نئے الیکشن سے پہلے پرانے سیاستدانوں کا آتا ہے۔ وہ قائم علی شاہ کی طرح سوتا رہا۔ اور ہم واپس بھی آ گئے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں جو سوتے ہیں وہ کھوتے ہیں۔

پروین شاکر نے کہا تھا
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر ہی نہ ہوئی
وہ شخص میرے شہر میں آ کر چلا بھی گیا
اور یہ شعر حسان کے لئے ایسے ہوگا
میں سوتا رہا اور مجھے خبر ہی نہ ہوئی
وہ شخص میرے شہر میں آ کر چلا بھی گیا
اور میں غلام علی کی طرح یہ گنگناتا رہا
ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مسافر کی طرح
صرف ایک بار ملاقات کا موقع دے دے
مگر ہمیں یہ موقع نہ ملا بلکہ ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہوا
ان کی طرف سے ترک ملاقات ہو گئی
ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی

خیر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں چپ چاپ بھلوال پہنچ گیا تو وہ راستہ بند ہونے والی بات کہاں گئی۔ تو عرض ہے کہ وہ بات مذاق تھی بالکل ویسا ہی مذاق جیسا جسٹس (ر) ثاقب نثار نے کیا تھا کہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی شروع ہو جائے گی۔ بعد میں کہا کہ سالی ایسی تو کوئی بات ہی نہیں۔ گھر سے بھلوال تک کے سفر میں دو باتیں دلچسپ تھیں۔ پہلی یہ کہ راستے میں چک بہت تھے۔ چک نمبر فلاں، چک نمبر فلاں میں تو ان کے بورڈز پڑھ پڑھ کے تھک گیا۔

بالآخر ہم نے ان چکوں میں سے بھلوال ایسے دریافت کیا جیسے کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ یا جیسے واسکوڈے گاما نے ہندوستان دریافت کیا تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ مجھے راستے کا بالکل پتہ نہیں تھا۔ کوئی چھ جگہ پہ رک کے میں نے لوگوں سے راستہ پوچھا۔ اور اللہ کا شکر ہے ان میں سے کوئی بھی لاہوری نہیں تھا۔ میرا مطلب ہے کسی نے بھی مجھے غلط راستہ نہ بتایا۔ جب خود کا ارادہ سیدھا چلنے کا ہو تو کوئی آپ کو غلط راستے پر نہیں لگا سکتا۔ میں نے جس سے بھی راستہ پوچھا اس نے تسلی سے راستہ سمجھا دیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ آگے راستہ بند ہے۔ کیوں کہ میرا بھلوال جانے کا پکا ارادہ تھا اس لئے میرے لئے سب راستے کھلے تھے۔ بس آپ بھی اپنی منزل پہ پہنچنے کا پختہ ارادہ کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments