کون مظلوم مصنف؟ پبلشر؟ یا قاری۔ ؟


یقین کریں کچھ صحافیوں ادیبوں میں بلا کا مطالعہ ہو تا ہے۔ وہ کتاب سے محبت اور عشق کرنے میں انگریز کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ جو کہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ان سے بڑا کتب بین کوئی کیا ہوگا۔ پچھلے تین چار ماہ سے کرونا نے سب لکھنے پڑھنے والوں، آوارہ منش ادباء اور شعراء اور سفر نامہ نگار سیلانیوں کو گھر بٹھا دیا ہے۔

ان میں جو سیانے نکلے انہوں نے تخلیق کے کرب کو انجوائے اور قلم کاغذ سنبھالے پائپ لائنوں میں پڑے اپنے پروجیکٹس کو نئی زندگی عطا کر دی۔ اور کچھ لوگوں نے لکھنے پڑھنے کے نئے منصوبہ جات کا ڈول ڈال دیا۔

میرے حلقہ احباب کی معتبر انمول ہستیوں میں جبار مرزا، فرخ سہیل گوئندی، رانا محبوب اختر، محمد حفیظ خان، انجینئر عبدالحکیم ملک، رؤف کلاسرا، سلیمان باسط، محمد سجاد جہانیہ، شاکر حسین شاکر، نسیم شاہد، توصیف احمد خان، عامر شہزاد صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین، افضل چوہان، ناصر ملک اور دیگر لوگ جو کتاب کی ترویج و ترقی کے لیے باقاعدگی سے کتاب لکھتے ہیں پڑھتے ہیں اور دوسروں کو کتاب پڑھنے پر اکساتے ہیں۔

قبل از کرونا اور عہد کرونا میں بھی انہوں نے اس کار خیر کو جاری رکھا ہوا ہے۔ میں ایسے بہادر اور قابل فخر رائیٹروں اور مصنفوں کو دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تہنیت پیش کرتا ہوں۔

یقیناً ملک میں اور بھی سینکڑوں لوگ ہیں جنہوں نے اس دور میں نئی کتابیں لکھی ہیں۔ چونکہ ان کا کام بد قسمتی سے مجھ تک نہیں پہنچا۔ اس لیے وہ اس مختصر جائزہ میں نہیں آ سکیں گے۔ جو میرے حلقہ احباب ہیں ان کی کاوشیں پیش خدمت ہیں۔

جناب جبار مرزا نے ”پہل اس نے کی“ اور ”کشمیر کو بچا لو“ لکھیں، جناب فرخ سیہل گوئندی نے ”لوگ در لوگ“ ترکی ہی ترکی ”اور بطور پبلشر“ بے نظیر۔ ایک سوانحی ناول ”شائع کیا۔

جناب رانا محبوب اختر نے ”مونجھ سے مزاحمت تک“ ۔ جناب محمد حفیظ خان نے ”انواسی“ کرک ناتھ ”اور“ ادھ ادھورے لوک ”۔

جناب انجینئر عبدالحکیم ملک نے ”کلام اقبال میں عکس قرآن“ ۔ ( ملک صاحب نے جس حسن نزاکت اور دیدہ وری سے کلام اقبال سے اشعار کا انتخاب کرنے کے بعد انہیں قرآن آیات سے منطبق کیا ہے۔ یہ ان کی علمی بصیرت کا آئینہ دار ہے )

جناب رؤف کلاسرا نے ”سنہری آنکھوں والی لڑکی“ اور ”تاریک راہوں کے مسافر“ ۔ جناب سلیمان باسط نے ”ناسٹیلجیا“ لکھا۔ جناب محمد سجاد جہانیہ نے ”ادھوری کہانیاں“ ۔ جناب توصیف احمد خان نے ”قیامت کب آئے گی“ ا ور ”سچی پیش گوئیاں“ غزوہ ہند ”گریٹر اسرائیل“ خدا کا پہلا گھر، آخری پیغمبر ”۔ جناب نسیم شاہد نے ”تیری یاد کا سمندر“ ۔ جناب عامر شہزاد صدیقی نے ”اوراق زیست“ اور ”صاحب قرطاس“ ۔ جناب پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین نے ”علم بدیع اور ادبی مباحث“۔ جناب افضل چوہان نے ”پائل تیرے پاؤں کی“ اور ”آیات سخن“ جناب ناصر ملک نے ”کمال“ لاثان ”اور“ لایموت ”لکھیں۔

ادھر سوشل میڈیا پر بکس پبلی شروں نے قاری اور کتب بین کو کتاب خریداری پر آمادہ کرنے کے لیے آن لائن بکس کے اشتہارات اور پوسٹٰیں لگانی شروع کر دی ہیں کہ رعایت کے ساتھ گھر بیٹھے کتاب خریدیں۔

ادھر ممتاز کالم نگار رؤف کلاسرا، محمد سجاد جہانیہ اور شاکر حسین شاکر جو کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے بک ایمبسڈر بھی ہیں انہوں نے اپنی اپنی وال پر بکس خریدنے اور پڑھنے کی افادیت اور قومی ضرورت پر زور شور سے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ جو کہ ایک قابل تحسین دعوت ہے۔

خود میں نے ان ”مشاہیر کرام“ سے متاثر ہو کے جہلم والے برادران سے تین کتب منگوا لیں ہیں۔ اگر میرے وہ فاضل مشاہیر کرام او ر دوسرے کتاب دوست فروغ کتاب کے لیے اسی طرح اپنے فیس بک فرینڈز، دوست احباب اور اپنی فیملی کو موٹیویشنل کوئنٹینٹ اور ترغیب دیتے رہے تو غالب گمان ہے کہ جلد ”کتاب خریدو اور کتاب پڑھو“ کی تحریک شروع ہو جائے گئی۔ عوام ویسے ہی کسی نہ کسی تحریک کے آغاز ہونے کے انتظار میں رہتی ہے۔ او ر اسے ٹاپ ٹرینڈ بنا کے دم لیتی ہے۔

ایمان کی بات ہے کہ مطالعہ کرنے میں پاکستانی کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ حالات ایک جیسے رہیں گے۔

اب کرونا نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ ہماری عادات، سہل پسندی اور زندگی گزارنے کا طور طریقہ اب بدلنے جا رہا ہے۔ اب منفی ”سرگرمیوں“ کی گنجائش خاصی کم ہوگی۔ ( بالکل ختم نہیں ہو گی ) ۔ اب مثبت سوچ اور مثبت اقدار کو عروج ہوگا۔ تعلیم اور شعور میں خاصی بہتری کی امید کی جا رہی ہے۔ مستقبل کی آنکھ سے اور یقین کامل سے میں پاکستان میں کتاب اور مطالعہ کا فروغ اور رحجان دیکھ رہا ہوں۔ ( اللہ کریم میرے اس گمان اور یقین کی لاج رکھے گا۔ )

انشاء اللہ بہت جلد آپ کو پاکستان میں آن لائن خریداری میں کپڑوں کے بعد کتابوں کی خریداری کا حجم بڑھتا محسوس ہو گا۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ جو کتاب دوست ہرگز نہیں ہے۔ ان کی سوئی ابھی تک اس مفروضہ پر اٹکی ہوئی ہے کہ ہمارے ملک میں کتاب او ر اس کی صنعت کا ٹائی ٹینک ڈوبنے کو ہے۔

پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ایک انٹرویو میں ڈھارس باندھی ہے اور کہا کہ ”یہ صرف مفروضے ہیں کہ کتابی صنعت ڈوب رہی یا تباہ ہو رہی ہے۔ یہ بھی ایک مفروضہ ہی ہے کہ لوگوں نے ڈیجیٹل اور ای بک کے باعث روایتی کتابیں خریدنا اور پڑھنا چھوڑ دی ہیں۔ ایسی کوئی بات دراصل ہے ہی نہیں۔ بلکہ یہ صنعت ترقی کر رہی ہے، کیونکہ لوگ کتابیں لکھ رہے ہیں اور نہ صرف یہ کتابیں چھپ رہی ہیں بلکہ دھڑ ا دھڑ بک بھی رہی ہیں۔“

میں نے فروغ کتاب کے لیے مزید کھوج کاری کی اور اپنے پیارے مصنف مستنصر حسین تارڑ تک جا پہنچا، ان کی تجویز میں وزن اور ویژن نظر آتا ہے۔ و ہ کہتے ہیں کہ ”ملک میں فوڈ سٹریٹس کے ساتھ ساتھ اگر بک سٹریٹس بھی بنائی جائیں تو کتاب سے قاری کا رشتہ ایک بار پھر استوار کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ آج بھی اچھی کتابوں کے متلاشی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اتوار کے روز انار کلی کے ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے علاقے میں پرانی کتابوں کا جو بازار لگتا ہے اس میں خریداروں کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ ”

simone de bouvoir

فروغ کتب بارے ہمارے اداروں کی پالیسی پر بھی ایک نظر ڈالے چلتے ہیں کہ لاہو ر کا ایکسپو سینٹر جو کتابوں کی نمائش کے لیے بہت مقبول ہے۔ اور آج کل کرونا قرنطینہ سنٹر بنا ہوا ہے۔ اس نے بھی کبھی کسی کتاب میلہ پر ایک دھیلے کی رعایت نہیں کی۔

کتابوں کے میلے کے انعقاد کے لیے منتظمین سے دوسری تجارتی اشیاء کی طرح بارہ لاکھ روپے روزانہ کا معاوضہ لیتا رہا ہے۔ بلکہ کتب میلے کے لیے ایکسپو سینٹر کو ادا کی جانے والی رقم پر حکومت بھی اکیس فی صد ٹیکس لیتی رہی ہے۔ ادھر پنجاب ہار ٹی کلچر اتھارٹی کیوں پیچھے رہے وہ بھی کتاب میلے کی تشہیر کے وقت پچیس سو روپے فی کھمبا فی سٹیمر کے حساب سے فیس اینٹھ لیتی ہے۔

فروغ کتاب کے حوالہ سے ایک آرٹیکل پڑھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔

مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ”عہدہ و منصب کا اپنا ایک حسن بھی ہوتا ہے او ر رعب و داب بھی، اس کے دور رس نتائج بھی ہوتے ہیں اور گہرے اثرات بھی۔ زبان و قلم سے ادا ہونے والے الفاظ کی قبولیت بھی بلحاظ عہد ہ و منصب ہی تسلیم کی جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں صدر مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی نے بیان جاری کیا کہ انہوں نے سال 2019 ء میں 35 کتب پڑھی ہیں جن کی اوسط تین کتب ہر ماہ بنتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن بھر کی مصروفیت سے تھک ہار کر جب گھر آتے ہیں تو ذہنی سکون کے لیے کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ”

جناب صدر کے اس بیان اور عادت حسنہ کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کا یہ بیان معاشرے میں علم اور کتاب کے فروغ کا باعث بنے گا۔ اس قدر مصروف انسان کا مطالعہ کے لیے وقت نکالنے کا قوم کے نام یہ پیغام فروغ کتاب کے لیے یقیناً سنگ میل ثابت ہوگا۔ ان کی علم دوستی کتاب سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے استوار کرنے میں نہ صرف معاون ثابت ہوگی بلکہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بھی بنے گی۔

لہٰذا زیادہ نہ سہی ہر ماہ ایک کتاب ضرور پڑھیں۔ گھر میں رکھیں، اہل خانہ کو مطالعہ کی ترغیب دیں، جہاں بیٹھیں اپنی مجلسوں میں بہانے بہانے سے دوستوں کو توجہ دلائیں۔ اپنے ہر ماہ کے گھریلو بجٹ میں ایک کتاب بھی شامل کریں۔

ہم صدر پاکستان کے اس عمدہ عمل پر سر دھن رہے تھے کہ ایک خبر نے سار ا مزہ کر کرا کر دیا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہے گئیں۔ کہ یا اللہ! یہ کیا ماجرا ہے؟ کیا بڑے لوگ اس ملک میں کتاب کو فروغ دینے میں واقعی دلچسپی رکھتے ہیں یا اس عمل کو بھی سیاسی عینک سے پرکھتے ہیں۔ اور اپنی ترجیحات کو مقدم رکھتے ہیں۔

مضمون کے مطابق پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین اور لاہور انٹرنیشنل بک فیئر کے منتظم سلیم ملک کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک موقعہ پر صدر پاکستان جناب عارف علوی سے لاہور کے کتاب میلے کے افتتاح کی درخواست کی تھی لیکن انہوں نے تحریری طور پر ہمیں مطلع کر دیا کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ سلیم ملک کے بقول انہوں نے گزشتہ سال بھی صدر پاکستان عارف علوی کو کتاب میلے کے افتتاح کی دعوت دی تھی لیکن ان کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ یکم فروری کے روز ملک میں نہیں ہوں گے لیکن یکم فروری دو ہزار انیس کو اخبارات کے ذریعے انہیں معلوم ہوا کہ صدر مملکت مری میں موجود ہیں اور ان کا باہر کا کوئی شیڈول نہ تھا۔ ( کیا یہ کھلا تضاد نہیں )

سلیم ملک کے بقول ”اس سال ہم نے پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس سے کتاب میلے کے افتتاح کی درخواست کی لیکن انہوں نے بھی اپنی مصروفیات کی وجہ سے آنے سے انکار کر دیا۔

پچھلے سال وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو ذاتی طور پر ملاقات کر کے اور خطوط لکھ کر دعوت دی گئی لیکن مسلسل یاد دہانیوں کے باوجود وہ وعدہ کر کے بھی نہیں آئے۔ سلیم ملک کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور سابق گورنر پنجاب خالد مقبول اپنے اپنے ادوار میں تین تین مرتبہ اس کتاب میلے کے افتتاح کے لیے آئے تھے۔

اب آخر میں تحریر میں برکت اور تبرک کے طور پر جناب رضا علی عابدی کے ایک مضمون سے اقتباس پیش خدمت ہے۔ فروغ کتاب کے لیے آپ کی جو خدمات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ

” میرا تیسرا پسندیدہ دن کتاب کا عالمی دن ہے جو ابھی کچھ روز پہلے منایا گیا۔ مجھے یاد ہے پچھلے سال کتاب کے دن شمالی افریقہ کے ملک تیونس میں کالج یونیورسٹی کے سارے طالب علم سڑکو ں اور فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر کتابیں پڑھتے رہے۔ وہ عجب منظر تھا جب تا حد نگاہ، نوجوان ہی نوجوان بیٹھے کتابوں پر جھکے ہوئے تھے اور دنیا کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ اوراق سے نور بن کر پھوٹنے والا علم کسی دولت اور کسی نعمت سے کم نہیں۔

کتاب کا عالمی دن جس کسی کے ذہن کی اختراع ہے اس کو سلام کہ اس نے شعور کی شمع کی لو ذر ا سی اونچی کر کے فضا کو کیسا منور کر دیا۔ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ اس روز سارے نوجوان سڑکوں کے آس پاس بنے سبزہ زاروں میں بیٹھ کر کتاب پڑھیں اور مخیر حضرات اور ادارے لڑکوں لڑکیوں میں کتابیں تقسیم کریں، جگہ جگہ کتاب میلے لگائے جائیں اور نادر اور نایاب کتابوں کی نمائشیں سجائی جائیں۔ کتابیں لکھنے، چھاپنے، شائع کرنے اور فروخت کرنے والے افراد اور اداروں کو انعامات دیے جائیں، اعزازات دیے جائیں اور میڈیا کے ہونے کا اس روز خوب خوب فائدہ اٹھایا جائے اور کتب بینی اور کتب سازی کے بارے میں پروگرام پیش کیے جائیں۔

اس کے علاوہ پڑھے لکھے افراد کو مدعو کر کے ان ہی دنوں دنیا کے بازاروں میں دھوم مچانے والی کتابوں پر خوب خوب گفتگو کی جائے، کیوں نہ دانشور مشہور کتاب The Sapiens ا نسان کی تاریخ کے د لچسپ اقتباس پیش کریں یا اسی طرح ہندوستان کے بڑے اسکالر اور سابق فوجی افسر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کی کتاب ’سرکاری مسلمان‘ کو کھنگالا جائے۔

کچھ بات چلے، کچھ چھیڑ چھاڑ ہو، ذرا کتاب کی خوبیوں کو اجاگر کیا جائے، کبھی تحفظات کی بات ہو، کبھی اختلاف موضوع بنے۔ کیوں نہیں؟ اسی دھج سے مکالمے سنوارے جاتے ہیں۔

کتاب کا اور ہمارے بزرگوں کا صدیوں کا ساتھ رہا ہے۔ جب چھاپہ خانہ نہیں تھا، کتنے ہی لوگ گھروں میں بیٹھ کر قلمی کتابوں کی نقلیں تیار کرتے تھے اور بازاروں میں فروخت کرتے تھے۔

مجھے ایک کتاب یاد ہے ’حال جنگ کا بل‘ جو کسی نے افغانستان کے محاذ سے واپس آ کر لکھی تھی۔ اس کی نقل بازار میں بکنے آئی ہو گی۔ اس پر قیمت آٹھ آنہ درج تھی لیکن کسی یورپی خاتون نے خریدی تھی اور شاید خوش حال گاہک کو دیکھ کر وہ قیمت مٹا کر بارہ آنے بنا دی گئی تھی۔

اس زمانے میں کتب سازی کی دنیا میں دھوکہ اور فریب بھی ہوتا ہوگا۔ میں نے کتنی ہی قدیم کتابیں دیکھیں جن پر لکھا ہوتا تھا ”جس کتاب پر مصنف کے دستخط نہ ہوں اسے جعلی تصور کیا جائے۔“ اس زمانے میں بھی ہر کتاب کے ایک ایک ہزار نسخے چھپا کرتے تھے۔ (آج بھی تعداد اشاعت اتنی ہی ہوتی ہے ) ۔

اب سوچئے کہ غریب مصنف جس نے پہلے ہی راتوں کو جاگ جاگ کر کتاب لکھی ہوگی، اشاعت کے بعد بیٹھ کر ہزار بار اپنے دستخط کرتا رہا ہوگا۔ اور جب چھاپہ خانہ ایجاد ہو کر عام ہو گیا، کتابوں کی دنیا میں جعل سازی جاری رہی۔ اس کی بڑی مثال سر سید احمد خاں کی لا جواب کتاب ’آثار الصنادید‘ ہے جو 1874 ء میں شائع ہوئی۔ کچھ عرصے بعد کسی نے کسی فرضی نام سے اس کا چربہ شائع کر دیا، اور فرضی نام بھی کسی یورپین کا۔ اس ناشر نے بھی خوب پیسہ کما یا ہوگا۔

آج بھی کتابوں کی دنیا میں جعل سازی بہت عام ہے۔ کتاب بازار میں آتے ہی راتوں رات اس کا چربہ چھپ جاتا ہے اور آدھی قیمت پر دستیاب ہوتا ہے۔

اس دیوان غالب کا قصہ یاد ہوگا جو بظاہر خود غالب کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور کوئی صاحب بھوپال کے کسی کباڑی سے کوڑیوں کے دام خرید کر لائے تھے۔ اس کی بڑی دھوم مچی اور اس کا عکس بڑی شان و شوکت سے شائع ہوا۔ ابھی اس کے خریدار بھاری رقم ادا کر ہی رہے تھے کہ کسی نے اس عکس کا بھی عکس چھاپ کر چوتھائی قیمت پر بیچنا شروع کر دیا۔ ابھی معاملہ عدالتوں میں پہنچا ہی تھا کہ ایک بڑا انکشاف ہوا۔ دیوان غالب کے جس نسخے کے بارے میں خیال تھا کہ خو د مرزا صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے، پتا چلا کہ وہ جعلی تھا اور کسی خوش نویس نے عین غالب کے ہاتھ کی لکھائی کی ہو بہو نقل کی تھی۔

ایک جانب یہ دھندے ہو رہے ہیں، دوسری طرف یوں ہے کہ کسی کتاب کا مقبول ہونا غضب ہے۔ ناشر اس کے ایڈیشن پر ایڈیشن چھاپ کر بیچتا رہتا ہے اور مصنف کو یہی بتاتا ہے کہ یہ پہلا ایڈیشن فروخت ہو رہا ہے۔ مصنف کو رائلٹی نہیں ملتی اور پبلشر کی زبان پر ایک ہی رٹ لگی رہتی ہے ’لوگ کتاب نہیں پڑھتے‘ ۔

اس سارے قصے میں کون مظلوم ہے، کیا مصنف؟ پبلشر؟ یا قاری؟ جی نہیں۔ وہ ہے ہماری دکھیا کتاب۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments