تیمم والا الیکشن


ہر الیکشن کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ الیکشن سے قبل رائے دہندگان کی فہرست کی تجدید نو ہوتی ہے، یعنی ووٹر لسٹ اپ ڈیٹ ہوا کرتی ہے۔ یہ انتخابات کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے، کیونکہ 5 سال بعد ہر حلقے میں بڑی تعداد میں نئے نوجوان ووٹر بن چکے ہوتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہ پچھلے الیکشن میں جتنے تیرہ چودہ پندرہ سولہ اور سترہ سال کے لڑکے لڑکیاں نان ووٹرز تھے اب وہ رائے دہندگان بن چکے ہوتے ہیں۔

ان کو باقاعدہ ووٹر لسٹ میں لے آنا الیکشن کمیشن کا فرض عینی ہے۔ اسی طرح بہت سارے ووٹرز اپنے ووٹ ایک حلقے سے دوسرے حلقے میں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے الیکشن قوانین میں طریقہ کار وضع کیا ہوا ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ الیکشن شیڈول اعلان ہونے سے کئی ماہ قبل الیکشن کمیشن ووٹر لسٹیں اوپن کرتا ہے۔ اخباری اشتہارات، عوامی مقامات پر اشتہارات، ٹی وی، ریڈیو پہ اعلانات اور ایم ایس ایم وغیرہ کے ذریعے عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ نئے رائے دہندگان بطور ووٹر اپنا اندراج کرائیں۔

جو ووٹرز اپنا ووٹ کہیں اور شفٹ کرنا چاہیں تو کر لیں۔ یہ پورا عمل 2 سے 3 ماہ کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن ووٹرز لسٹیں دوبارہ منجمد کرتا ہے اور پھر الیکشن شیڈول جاری کرتا ہے۔ یہ سب پاکستان کے اس الیکشن ایکٹ میں بھی موجود ہے جس کو پچھلے ماہ ایک صدارتی آرڈر کے تحت گلگت بلتستان میں نافذ کیا گیا ہے۔ مگر یہاں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ الیکشن کمیشن گلگت بلتستان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے، 6 ماہ قبل اسے ووٹر لسٹ پہ کام کرنا چاہیے تھا مگر اب صدر پاکستان کی جانب سے پولنگ ڈے کا بھی اعلان ہو چکا، چند دنوں میں الیکشن کمیشن انتخابات کا پورا شیڈول جاری کرے گا، مگر ووٹر لسٹوں کا کیا بنے گا؟

الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد ووٹر لسٹیں مرتب کرنا انتخابی اخلاقیات و آداب کے برخلاف ہے۔ ہو سکتا ہے الیکشن کمیشن ایک دو ہفتوں میں ووٹر لسٹ کی تجدید کا دعوی کرے مگر یہ الیکشن قوانین کے منافی ہے، اس سے بہت سارے نئے ووٹرز کے نام رہ جانے اور بڑی تعداد میں ووٹرز کے ووٹ غلط پولنگ اسٹیشن پر چلے جانے کا احتمال پیدا ہو گیا ہے۔ مگر یہاں کون کس سے پوچھے؟ جس طرح اصول و ضوابط سے ہٹ کے نگراں وزیر اعلی اور اب کابینہ کی سلیکشن ہونے جا رہی ہے اسی طرح دھکا اسٹارٹ میں الیکشن بھی ہو جائے گا۔ کیا قوانین، کیا الیکشن رول اور کیا انتخابی روایات۔ یہاں وفاقی حکومت کی پارٹی کو طشتری میں رکھ کر حکومت دی جاتی ہے۔ یہ الیکشن صرف فراڈ ہے۔

چونکہ 20 اگست سے محرم الحرام شروع ہو رہا ہے۔ چہلم امام حسین 10 اکتوبر کے آس پاس ہے، اس دورانیے میں گلگت بلتستان میں الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں تھا۔ الیکشن میں جتنی تاخیر ہوتی، پی ٹی آئی کے اندرونی جھگڑے اتنے ہی بڑھتے جانے تھے اور وفاق میں عمران خان کی کرسی سرکتی جاتی۔ سو پی ٹی آئی نے گلگت بلتستان میں بغیر کسی تیاری اور الیکشن انتظامات کے الیکشن اناونس کر دیا ہے۔ صرف 50 دن بعد الیکشن ہو گا، نہ ووٹر لسٹیں تیار ہیں، نہ حلقہ بندی کا تقاضا پورا کیا گیا۔

اوپر سے دنیا کرونا سے برسرپیکار ہے مگر گلگت بلتستان میں چناؤ ہونے جا رہا ہے۔ یہ تیمم الیکشن ہو گا۔ وفاق کی برسراقتدار بیمار پارٹی وضو کرنے سے معذور ہے۔ اور ویسے بھی پاک صاف پانی تلاش کر وضو کرتے کرتے اسلام آباد میں سورج ڈھل سکتا ہے اور جب نماز قضا ہو رہی ہے تو ہنگامی حالت میں تیمم کیا جاتا ہے۔ سو گلگت بلتستان میں اس بار الیکشن تیمم سے ہو گا۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments