پشاور ریڈیو سٹیشن کی یادیں اور باتیں: کیا انگریز نے حجروں میں ریڈیو سیٹ جاسوسی کے لیے نصب کیے تھے؟


ریڈیو

اس وقت ریڈیو ایک بڑی ایجاد تھی اور لوگ اس بات پر حیران تھے کہ کوئی آدمی نہیں ہے لیکن آواز آ رہی ہے

پشاور میں پہلا ریڈیو ٹرانسمیٹر دوسری عالمی جنگ سے پہلے ریڈیو کے موجد کوئلمو مارکونی نے نصب کرایا تھا اور اس کے ساتھ 30ریڈیو سیٹس بھی تحفے میں دیے تھے۔ لیکن کیا یہ ریڈیو سٹیشن اور ریڈیو سیٹ لوگوں کو اطلاعات و معلومات فراہم کرنے اور انٹرٹینمنٹ کے لیے تھے یا اس کے پیچھے جاسوسی جیسے کوئی اور بھی مقاصد تھے؟

ریڈیو سٹیشن لندن سے پشاور کیسے پہنچا؟

کہانی شروع ہوتی ہے سنہ 1931 سے جب برصغیر کے شمال مغربی سرحدی صوبے سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے معروف سیاستدان عبد القیوم خان گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ کے دورے پر گئے اور وہاں ان کی ملاقات ریڈیو کے موجد کوئلمو مارکونی سے ہوئی۔

کہا جاتا ہے کہ عبدالقیوم خان نے مارکونی سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایک ریڈیو سٹیشن ان کے علاقے میں نصب کیا جائے، جسے مارکونی نے خوشی خوشی تسلیم کر لیا۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ ٹرانسمیٹر نصب کرنے کے لیے مارکونی خود پشاور آئے تھے تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔دوسری جانب کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مارکونی کی کمپنی نے یہ ٹرانسمیٹر یہاں پشاور میں لا کر نصب کیا تھا۔

مارکونی کا تعلق اٹلی سے تھا لیکن انھوں نے برطانیہ میں بھی ریڈیو ٹرانسمیٹر نصب کیے تھے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پشاور میں نصب ٹرانسمیٹر مارکونی نے خود بنایا تھا۔

ریڈیو

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ ٹرانسمیٹر نصب کرنے کے لیے مارکونی خود پشاور آئے تھے تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی

ریڈیو پاکستان کے سینئیر عہدیدار عبدالرؤف درانی نے ریڈیو کی تاریخ پر کافی کام کیا ہے۔ وہ ریڈیو پاکستان سے کنٹرولر آپریشن اینڈ مینٹیننس ریٹائر ہوئے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مارکونی خود نہیں آئے تھے بلکہ ان کی کمپنی کے اہلکار آئے تھے جنھوں نے تنصیب کا کام کیا تھا اور یہ سٹیشن 1935 میں پشاور سیکرٹیریٹ کی عمارت میں قائم کیا گیا تھا۔‘

محمد ابراھیم ضیا مصنف اور تحقیق کار ہیں۔ انھوں نے پشاور کے فنکار کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے کپور خاندان کے سربراہ پرتھوی راج اور دلیپ کمارسے لے کر اب تک کے فنکاروں میں خان فیملی کے علاوہ کھنہ خاندان اور دیگر کا ذکر کیا ہے جو پشاور سے نقل مکانی کرکے بالی ووڈ سٹار بن گئے تھے۔

انھوں نے اپنی کتاب میں ریڈیو پشاور کا ذکر کرتےہوئے لکھا ہے ’سنہ 1931 میں خان قیوم نے لندن کا دورہ کیا جہاں ریڈیو پشاور کے قیام کے لیے ریڈیو کے موجد مارکونی سے ان کی بات ہوئی تھی۔‘

ابراھیم ضیا کے مطابق یکم جنوری 1935 کو دہلی میں ریڈیو کے قیام سے پہلے پانچ کلو واٹ کا ایک ٹرانسمیٹر پشاور میں نصب کیا گیا تھا۔ لہذا اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ریڈیو پشاور برصغیر پاک و ہند میں قائم ہونے والا پہلا ریڈیو سٹیشن تھا۔

اس کے بعد ایک سٹیشن ان دنوں ہائی کورٹ کی عمارت کے ساتھ جہاں اب سپریم کورٹ کی رجسٹری قائم ہے، وہاں قائم کیا گیا تھا۔

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے یہ زمین انڈین آرمی کی ملکیت تھی جو اس وقت کے آرمی چیف نے ریڈیو سٹیشن کے لیے آل انڈیا ریڈیو کو دی تھی جو بعد میں ریڈیو پاکستان بنا تھا۔

ریڈیو

جس بحری جہاز میں ٹرانسمیٹر تھا وہ تو پاکستان پہنچ گیا تھا لیکن جس بحری جہاز میں کنٹرول پینل تھا اس پر جرمنی نے حملہ کر دیا

یہاں سے چار کلومیٹر دور ایک ٹرانسمیٹر لگایا گیا جو 10 کلو واٹ کا تھا۔ اس کے بعد موجودہ براڈ کاسٹنگ ہاؤس صوبائی اسمبلی کے سامنے 1985 میں قائم ہوا تھا۔

عبدالرؤف درانی کے مطابق ریڈیو پشاور سے پہلی اناؤنسمنٹ انگریزی زبان میں یونس سیٹھی نے کی اور پھر دوسری آواز آفتاب احمد کی تھی۔ یونس سیٹھی ریڈیو پشاور میں رہے اور بعد میں وفاقی سیکرٹری کے عہدے پر بھی تعینات رہے تھے۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بالی ووڈ کے ادارکار پرتھوی راج نے پہلی اناؤنسٹمنٹ کی تھی لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

ریڈیو پشاور کے کنٹرول پینل پر جرمنی کا حملہ

عبدالرؤوف درانی کہتے ہیں ’سنہ 1942 میں جب دوسری عالمی جنگ جاری تھی تو ان دنوں باقاعدہ دس کلو واٹ کا ایک مکمل ریڈیو سٹیشن قائم کرنے کے لیے سامان امریکہ سے بحری جہازوں پر آ رہا تھا۔ ایک بحری جہاز میں ٹرانسمیٹر تھا اور دوسرے بحری جہاز میں کنٹرول پینل تھا۔‘

’جس بحری جہاز میں ٹرانسمیٹر تھا وہ تو پاکستان پہنچ گیا تھا لیکن جس بحری جہاز میں کنٹرول پینل تھا اس پر جرمنی نے حملہ کر دیا اور وہ بحری جہاز تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد پھر برطانیہ سے دوسرا کنٹرول پینل منگوایا گیا تھا۔‘

پشاور

کئی مقامی افراد کا ماننا تھا کہ ان ریڈیو سیٹس میں ایسے آلات نصب تھے جو وہاں حجروں میں موجود لوگوں کی باتیں ریکارڈ کر لیتے تھے اور بعد میں انھیں سنا جاتا تھا (فائل فوٹو)

مارکونی کے ریڈیو سیٹ کہاں لگے؟

پشاور میں ریڈیو ٹرانسمیٹر اور سٹیشن قائم کرنے کے بعد بڑا مسئلہ ریڈیو سیٹس کا تھا کیونکہ پاکستان میں ریڈیو سیٹس دستیاب نہیں تھے۔ مارکونی نے اس وقت 30 ریڈیو سیٹس پشاور سٹیشن کو تحفے میں دیے۔

اب یہاں مسئلہ یہ تھا کہ یہ ریڈیو سیٹس کسے دیے جائیں اور انھیں کہاں نصب کیا جائے؟ اس وقت ان ریڈیو سیٹس کو حجروں میں نصب کرنے کا فیصلہ ہوا۔

کیا انگریز حکومت نے حجروں میں ریڈیو سیٹ جاسوسی کے لیے لگائے تھے؟

ماضی میں پشاور اور پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں حجروں کا رواج تھا اور خان خوانین کے حجرے بہت مقبول تھے۔ صرف پشاور میں ارباب خاندان کے حجروں کی تعداد 100 کے قریب تھی اور یہ حجرے پشاور چھاؤنی کے علاقے سے لے کر جمرود تک قائم تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ارباب خاندان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما ارباب خضر حیات کا کہنا تھا کہ انگریزوں کے دور میں ارباب خاندان کے حجروں میں کچہری بھی لگتی تھی جہاں اکثر اوقات انگریز افسر آ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔

چونکہ صوبے میں پشاور ایک بڑا مرکز تھا اور سیاسی اعتبار سے بھی یہاں زیادہ سرگرمیاں ہوتی تھیں، اس لیے دور دراز علاقوں میں رہنے والے جب پشاور آتے تو ان حجروں میں حاضری ضرور دیتے تھے۔

ارباب خضر حیات کہتے ہیں کہ 1935 کے برطانوی دور میں جب ریڈیو پشاور آیا تو یہاں ارباب خاندان اور علاقے کے کئی اہم لوگوں کے حجروں میں بھی اسے نصب کیا گیا تھا۔

اس وقت ریڈیو ایک بڑی ایجاد تھی اور لوگ اس بات پر حیران تھے کہ کوئی آدمی نہیں ہے لیکن آواز آ رہی ہے۔ ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضی سولنگی کے مطابق جب ریڈیو پشاور آیا تو اس وقت مذہبی رہنماؤں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ شیطانی آواز ہے۔‘

اپنے بزرگوں سے سنی ہوئی باتیں یاد کرتے ہوئے ارباب خضر حیات کہتے ہیں ’لوگ ریڈیو سے آواز سن کر حیران ہو جاتے تھے لیکن پھر انھیں ایسا مزہ آیا کہ روزانہ مقررہ وقت پر ریڈیو پروگرام سننے پہنچ جایا کرتے۔‘

لیکن کئی مقامی افراد کا ماننا تھا کہ ان ریڈیو سیٹس میں ایسے آلات نصب تھے جو وہاں حجروں میں موجود لوگوں کی باتیں ریکارڈ کر لیتے تھے اور بعد میں انھیں سنا جاتا تھا۔

اس بارے میں عبدالرؤوف درانی کہتے ہیں ’یہ ریڈیو سیٹس سائز میں بڑے ہوتے تھے اور ان سے مختلف پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق ان ریڈیو سیٹس میں ریکارڈنگ ڈیوائس لگی ہوتی تھی اور اس دوران نشریات سننے والے افراد کی باتیں اس میں ریکارڈ ہو جایا کرتی تھیں۔‘

’مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ یہ ریکارڈنگ جاسوسی کے لیے استعمال کی جاتی تھی یا نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ لوگوں کی باتوں کی بنیاد پر پھر ریڈیو کے پروگرام ترتیب دیے جاتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا ’چونکہ اس وقت سامعین کی فیڈ بیک یا رائے لینے سے متعلق کوئی نظام موجود نہیں تھا، اس لیے ہو سکتا ہے اس طرح انھیں سامعین کی رائے معلوم ہو جاتی ہو جس پر پھر نئے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہوں۔‘

مرتضی سولنگی کے مطابق ’پشاور میں ریڈیو سٹیشن فوجی حکمت عملی یعنی سٹریٹجک بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا اور اس کا مقصد اس وقت لوگوں تک حکومت کی آواز پہنچانا تھا۔ برطانوی دور میں ڈیورنڈ لائن کے اس پار افغانستان اور روس اس وقت بڑا خطرہ تھا اور اس سے نمٹنے کے لیے ریڈیو کا استعمال جنگی ضرورتوں میں سے ایک تھا۔‘

اس دور میں کسانوں کے پروگرام نشر کیے جاتے تھے جن میں ایک مقبول پروگرام حجرہ ہوا کرتا تھا جس میں چار افراد روز مرہ معاملات پر بات چیت کیا کرتے تھے۔ اس پروگرام کا سکرپٹ لکھنے والوں میں معروف سیاستدان اور شاعر اجمل خٹک بھی شامل تھے۔

حجرہ پروگرام کے فنکاروں میں گل محمد ، توکل خان، رحیم شاہ نسیم، شاہ پسند خان، عبداللہ جان مغموم، پائندہ خان اور دیگر شامل رہے۔ یہ کردار اتنے مقبول ہوئے کہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے پھر انھیں کراچی میں مختلف کانفرنسز میں بھی مدعو کیا گیا تھا۔

مارکونی کا وہ یادگار ٹرانسمیٹر اور ریڈیو سیٹس اب کہاں ہیں؟

ریڈیو پاکستان کے ذرائع کے مطابق وہ یادگار ٹرانسمیٹر اب پشاور کے مضافات میں ایک سٹور میں پڑا ہے جہاں اس کے ساتھ ریڈیو پاکستان کا دیگر ناکارہ سامان بھی رکھا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ تاریخی ٹرانسمیٹر اور اس کے علاوہ دیگر سامان 2009 میں ناکارہ قرار دے دیا گیا تھا اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس سامان کی نیلامی کے احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن اب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

عبدالرؤف درانی بتاتے ہیں کہ جب تک وہ ریڈیو پاکستان میں تعینات تھے اس وقت ایسی کئی درخواستیں سامنے آئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ یہ ٹرانسمیٹر اور دیگر سامان ریڈیو پاکستان کا اثاثہ ہے اور اسے محفوظ کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا ’ادارے کے پاس بہت سارا تاریخی سامان جیسے ریڈیو سیٹس، ٹرانسمیٹرز اور کنٹرول پینلز کے علاوہ تاریخی پروگرام اور دیگر سامان پڑا ہے، جنھیں محفوظ کرکے اس کا ایک چھوٹا سا میوزیم بنایا جا سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp