ذاتی صفحہ: خود اپنا جلوہ دیکھا (شکیل عادل زادہ)۔


\"shakeelاب میرے چہرہ دکھانے کا وقت آیا ہے۔

ہر ماہ کتنے لوگوں کے چہرے آپ دیکھتے ہیں، قریب سے، دور سے، کسی کو محسوس کرتے ہیں، کوئ یونھی، ایک جھلک دکھا کر گزرجاتا ہے۔ کوئی آپ کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے، کسی کو آپ اس حد تک متاثر کرتے ہیں کہ اُس کی راتیں، اُس کے دن، اپنے نہیں رہتے، چہرے ایک دوسرے پر کتنے اثر انداز ہوتے ہیں، چہرے جو سپاٹ ہوتے ہیں، جن میں تپاک ہوتا ہے، جن میں ایک فرد چھپا ہوتا ہے، اُس کے احساسات، جذبات۔۔۔ اُن میں ایک میرا چہرہ بھی ہے جو سامنے نہیں رہتا، لیکن سامنے آنے سے کیا ہوتا ہے؟ میرا چہرہ سب رنگ ہے، جو میرے ہونے کا اثبات ہے، وہی میرا بدن، وہی میرا وجود ہے، میرا کام میرا چہرہ ہے، جو ہر ماہ میں آپ کو دکھاتا ہوں، اور آپ کو دیکھتا ہوں، جسے آپ محسوس کرتے ہیں، اور جو آپ پر رنگ جمانے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی کو چہرہ دکھانا آسان بات نہیں ہے۔ چہرے پر ایک جلال، ایک کیفیت، ایک جذب ایک گریز رقم ہوتا ہے۔ جسے پہچاننے والی نظریں، پہچان لیتی ہیں اور جسے محسوس کرنے والے، محسوس کرلیتے ہیں، اور یہیں سے یہ بات طے ہوتی ہے کہ دوستی اور ربط کس شدت، کس درجے پر قائم ہے۔ ہمارے چہرے ایک دوسرے کے سامنے نہیں ہیں، میرا ہاتھ آپ کی نبض پر ہے اور میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوں۔

فیض صاحب نے، پطرس بخاری کے انتقال پر، ایک تقریر میں‌کہا تھا۔ دوستی، باہمی محنت، ریاضت اور مشقت کا ثمر ہوتی ہے۔ دوستی کے لیے ایثار، بار بار اظہار، اور تکرار و تجدید کی ضروت پڑتی ہے۔ یہ کام محنت کا ہے، اور اِس میں وقت صرف ہوتا ہے، عمل کے بہ غیر یہ ممکن نہیں، میری آپ کی دوستی یونھی نہیں ہوگئی۔ یہ تپاک جو آپ کے ہاں میرے لیے، اور میرے ہاں آپ کے لیے ہے، یہی ہماری دوستی کی بنیاد ہے، اور یہ یوں ہے کہ میں، آپ کے لیے، اور آپ میرے لیے وقت صرف کرتے ہیں، آپ میرے لیے اور میں آپ کے لیے سوچتا ہوں، آپ مجھے اور میں آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہوں، آپ نے مجھ پر اعتماد یوں کیا کہ میں دوستی میں ثابت قدم رہا ہوں، اور میرے قدم یوں جمے ہیں، کہ آپ نے میری جسارت کے جواب میں مجھے مایوس نہیں کیا۔ میں نے آپ کے لیے سوچنا چھوڑدیا، تو میرا چہرہ بے رنگ ہوجاے گا اور آپ کی آنکھیں بدل جائیں گی۔۔۔ اور آپ کی آنکھیں بدل جائیں گی تو میرے اعصاب جواب دے جائیں گے، میں‌ معدوم ہوجاوں گا، مگر یہ کیوں ہوگا؟ میں ‌اپنا عہد نِبھا رہا ہوں، آپ اہلِ نظر اور اہلِ دل ہیں۔

اس بار بہت سے خطوط آے ہیں، جن میں‌ سب رنگ کے فدائیوں نے میرے لباس اور چہرے کو اور خوب صورت اور پرتپاک بنانے کے لیے، مشورے دئیے ہیں، لیکن تکنیکی اور عملی دشواریاں حائل ہیں، میرا جواب اُن بہت سے خطوط کے کے سلسلے میں‌ یہ ہے، کہ ایک ذرا سانس لینے دیجیے۔ اس مختصر مدت میں سب رنگ یہاں تک پہنچا ہے، آگے راستے بند نہیں ہیں۔ میں منزلیں سر کروں گا۔ اس لیے کہ ابھی تک میں اپنی گرفت میں ہوں، کچھ پروگرام زیر غور ہیں، جن کا اگر پہلے سے اظہار کردیا گیا، تو بات میں مزہ نہیں رہے گا۔

مئی کے شروع کی بات ہے، کچھ کام اور کچھ یونھی ہنگامہ گرم کرنے کے لیے، اقبال مہدی اور میں نے پھر پنڈی اور مری کا رخ کیا۔ گورڈن کالج کے پرنسپل، ہمارے مربّی جناب خواجہ مسعود حسین نے ہمارے سکون کے لیے مری سے کچھ دور اونچے پہاڑوں اور نظر فریب سبزہ زاروں سے گِھری ہوئی، ایک خوب صورت بستی، باڑیاں میں ہمارے لیے ایک چھوٹی سی جنت کا انتظام کردیا تھا۔ بہت دنوں بعد سلیم شوالوی، اقبال مہدی اور میں نے ایک مختلف شام، رات اور صبح گزاری۔ کاش! کچھ اور وقت ہم وہاں گزار سکتے۔ یہ کراچی تو بڑا مردم آزار شہر ہے۔ اس بار میں اپنے اِس مختصر سے سفر کا ذکر نہیں کرتا، کیوں کہ رحیم یار خاں کے چودھری بشیر اور منیر، ملتان کے ڈاکٹر حامِد، اور لائل پور کے، تجمل صاحب کو معلوم ہوگا، تو وہ قطعاً ناراض ہوجائیں گے، مگر سفر کا ذِکر، ایک وعدے کی وجہ سے ضروری ہے، کہ ہم نے باڑیاں میں‌ ایک چھوٹا سا اسکول دیکھا۔

وہاں کے ایک استاد نے ہم شہر کے لوگوں کو اسکول کی پختہ عمارت کے مختلف کمرے دکھائے۔ آہ، وہاں کے لوگ اتنے غریب اور سِتم رسیدہ ہیں کہ اُن کے بچوں کے پاس کتابوں کے لیے، بستے تک نہیں ہیں۔ ٹین کے ڈبے گھر کے چھوٹے بڑے صندوق اور پالش کے بکسے بستے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ عمارت خاصی مضبوط ہے۔ بچے کھردری زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہم سے اُن کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی اور میں نے وعدہ کیا کہ کراچی جاکر اپنی طرف سے اپنی بساط کے مطابق اور اپنے دوستوں سے ان کی حیثیت کے مطابق رُپے لے کر، اسکول کے فرنیچر کے لیے بھجواوں گا۔ کسی کے دل پر میری بات اثر کرتی ہے تو وہ میرے ساتھ تعاون کرے۔ نہ جانے ہمارے ملک میں کتنے اسکول ایسے ہوں گے۔ اگر ہم حکومت کو توجہ دلانے کے بہ جائے اپنی مدد آپ کرو اور باہمی تعاون کے اصول پر گاہے گاہے کچھ کرتے رہیں تو بہت سی تاریکیاں ختم ہوجائیں گی۔

اس سفر میں، ہم نے سب رنگ کے لیے بھی خوب کام کیا۔ لوگوں سے ملے، اُن کی رائے پوچھی، سامان کھویا، بیمار پڑے، انتہا درجے کی گرمی، سردی برداشت کی، مظفر آباد کے دریائے جہلم اور دریاے نیلم کی سیر کی، نِیم کشمیر دیکھا۔ وہاں کے پھول دیکھے، وہاں کی خوش بوؤں میں نہائے، اور اسٹالوں پر سب رنگ دیکھا۔ خود اپنا جلوہ دیکھا، ہم نے خود کو دیکھا۔

اِس ماہ میں نے جو کچھ جمع کیا ہے، وہ آپ کے سامنے ہے۔ یہ چند کہانیاں آپ کے مطالعے کے لیے پیش ہیں۔ اِنھیں اُن لوگوں نے لکھا ہے، جو آپ کے قریب رہتے ہیں۔ آپ کے دل کی دھڑکنیں سنتے ہیں، اور اِنھیں اُس شخص نے منتخب کیا ہے، جو آپ میں شامل ہے، جو صرف اِسی کام کے لیے وقف ہے۔

جون 1973
شمارہ چھہ — جلد چار
فی پرچا — دو رُپے پچیس پیسے
زر سالانہ پچیس رُپے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments