ڈینیئل پرل قتل کیس: سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ حکومت کی درخواست مسترد، سماعت ستمبر تک ملتوی


ڈینیئل پرل

امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا میں نمائندے ڈینیئل پرل 23 جنوری 2002 کو کراچی سے لاپتہ ہوئے تھے

پاکستان کی سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے سے متعلق سندھ حکومت کی استدعا کو مسترد کردیا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ فیصلے میں کوئی سقم موجود ہو تو پھر ہی اس فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا جاسکتا ہے اور یا اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیر کے روز سندھ حکومت کی طرف سے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

صوبائی حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اس اپیل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے اس اپیل کی روٹین میں سماعت کرنے سے پہلے جلد سماعت کرنے کی درخواست اس لیے دائر کی تھی کیونکہ سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے ملزمان کو رہا کرنے کے فیصلے کے بعد صوبائی حکومت نے اُنھیں خدشتہ نقص امن کے قانون کے تحت نظربند کیا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ڈینیئل پرل کیس: استغاثہ کی وہ کمزوریاں جو ملزمان کی رہائی کا باعث بنیں

’اغوا اور قتل کی سازش راولپنڈی میں تیار کی گئی، یہ ثابت کرنا ہوگا‘

سندھ کا ڈینیئل پرل کیس میں سزائے موت کے خاتمے پر اپیل کا فیصلہ

واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ڈینیئل پرل کے مقدمے سے متعلق ہونے والی تفتیش اور عدالتی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔

صوبائی حکومت نے مطلوبہ ریکارڈ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عدالت سے اس اپیل کی جلد از جلد سماعت کرنے کی بھی استدعا کی تھی۔

پاکستان

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس قانون کے تحت ملزمان کو نظربند کرنے کے مدت دو جولائی کو ختم ہو رہی ہے جس کے بعد حکومت کے پاس ملزمان کو رہا کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

صوبائی حکومت کے وکیل نے ڈینیئل پرل کے قتل کے مرکزی ملزمان کے بارے میں کہا کہ یہ ملزمان بین الاقوامی دہشت گرد ہیں جن میں سے ایک کا تعلق افغانستان میں کام کرنے والی ایک کالعدم تنظیم سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق انڈیا کی ایک شدت پسند تنظیم سے ہے۔

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اگر ملزمان آزاد ہوئے تو اس کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

بینچ میں موجود جسٹس یحٰیی آفریدی نے سندھ حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک عدالت کی طرف سے ان کی بریت کے بعد وہ کیسے ملزمان کو دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔

ملزمان کے وکیل محمد کامران نے کہا کہ ان کے موکل گزشتہ 18 سال سے جیل میں ہیں اور اُنھوں نے اس عرصے کے دوران سورج کو بھی نہیں دیکھا۔

اُنھوں نے کہا کہ شواہد کی عدم دستیابی کی بنا پر ہی سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس مقدمے میں گرفتار مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت کو سات سال میں تبدیل کیا جبکہ باقی ملزموں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔

ڈنینیل پرل

اغوا کے بعد اغواکاروں کی جانب سے ڈینیئل پرل کی جاری کردہ تصویر

واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سنہ 2002 میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے حوالے سے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے احمد عمر سعید شیخ کو سزائے موت جبکہ سلمان ثاقب، شیخ عادل اور فہد نسیم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف مجرمان کی اپیل پر فیصلہ سنتے ہوئے احمد عمر شعید شیخ کی سزائے موت کو 7سال قید میں تبدیل کردیا جبکہ باقی افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ملزمان کے وکیل نے کہا کہ عمر احمد شیخ پہلے ہی عمر قید جتنی سزا کاٹ چکے ہیں۔

سپریم کورٹ کے بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے سندھ حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر صوبائی حکومت چاہے تو خدشہ نقص امن کے قانون میں توسیع کرسکتی ہے۔

عدالت نے اس اپیل کی سماعت ستمبر تک ملتوی کردی ہے۔ اس مقدمے میں ڈینیئل پرل کے والدین نے بھی فریق بننے کی درخواست دے رکھی ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے اگلی سماعت پر اس درخواست کو بھی سننے کا امکان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp