کراچی میں پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملہ: ہلاک ہونے والے سکیورٹی گارڈ افتخار واحد جنھیں دو دن بعد ریٹائر ہونا تھا


60 سالہ افتخار واحد

60 سالہ افتخار واحد کو دو روز کے بعد ریٹائر ہو جانا تھا لیکن اس سے قبل وہ حملہ آوروں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ہلاک ہو گئے، افتخار واحد گذشتہ 10 برسوں سے پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سکیورٹی گارڈ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

پاکستان کے معاشی مرکز کراچی میں پیر کی صبح پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر مسلح افراد نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں چار حملہ آوروں سمیت سٹاک ایکچینج کے دو سکیورٹی اہلکار اور ایک پولیس سب انسپیکٹر ہلاک ہوئے ہیں۔

افتخار واحد پہلے داخلی دروازے پر واقع چوکی پر تعینات تھے، جہاں حملہ آوروں نے اپنی گاڑی سے اتر کر پہلا حملہ کیا۔ اس چوکی اور گاڑیوں کے بیریئر پر متعدد گولیوں کے نشانات موجود ہیں۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں حملہ آوروں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پولیس حکام کے مطابق ہونے والے مسلح مقابلے میں دو حملہ آور اور دو سکیورٹی گارڈز ہلاک ہوئے۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت میں سکیورٹی کے تین حصار ہیں، داخلی راستے کے بیریئر کے بعد دوسرا گیٹ ہے اس کے بعد استقبالیہ اور آخری سکیورٹی پوسٹ ہے، اس کے بعد اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کا احاطہ شروع ہو جاتا ہے جبکہ عمارت کے داخلی راستے کے ساتھ عمارت پر ایک سنائپر بھی موجود ہوتا ہے۔ اس عمارت کی سکیورٹی کا انتظام ایک نجی سکیورٹی کمپنی کے پاس ہے۔

نجی سکیورٹی کمپنی کے اپنے اہلکاروں کو کسی سے بات کرنے یا تفصیلات بتانے سے منع کیا گیا ہے، ایک باریش گارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ صبح سے غمزدہ ہیں کیونکہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے ساتھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ بار بار پانی پی رہے ہیں تاکہ شدت غم سے بیہوش نہ ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان لبریشن آرمی کب اور کیسے وجود میں آئی

بی ایل اے ’عالمی دہشت گرد‘ قرار، پاکستان کا خیرمقدم

کراچی: پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملہ، چار حملہ آوروں سمیت سات ہلاک، بی ایل اے نے ذمہ داری قبول کر لی

ہلاک ہونے ایک سکیورٹی گارڈ افتخار واحد کا گھر سٹاک ایکسچینج کی عمارت کے عقب میں موجود ریلوے کالونی میں واقع ہے، جہاں اس وقت تعزیت کرنے والے افراد آ رہے ہیں۔ واحد کے بڑے بیٹے عزاج واحد تعزیت وصول کر رہے ہیں۔ عزاج جسمانی طور پر معذور ہیں اور کوئی کام کاج کرنے سے قاصر ہیں۔

عزاج نے بتایا کہ صبح کو انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی تھی بعد میں لوگوں نے بتایا کہ سٹاک ایکسچینج پر حملہ ہوا ہے اور کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں، وہ جب وہاں پہنچے تو سکیورٹی گارڈز نے بتایا کہ ان کے والد بھی زخمی تھے جنھیں سول ہسپتال پہنچایا گیا ہے، وہاں جا کر عزاج کو پتا چلا کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

واحد کے بڑے بیٹے عزاج واحد

عزاج نے بی بی سی کو بتایا کہ ’والد گذشتہ دس سال سے سٹاک ایکسچینج میں ملازمت کر رہے تھے، انھوں نے 12 ہزار روپے ماہانہ سے اس ملازمت کا آغاز کیا تھا اور اب ان کی تنخواہ 18 ہزار روپے تھی، وہ صبح سات بجے سے شام سات بجے تک ڈیوٹی کرتے تھے۔‘

افتخار واحد کے چار بچے ہیں جن میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، بڑے بیٹے عزاج نے بتایا کہ والد ہی گھر کے واحد کفیل تھے کیونکہ وہ معذوری کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے جبکہ دوسرے بہن بھائی ابھی چھوٹے ہیں۔

’کمپنی نے 55 سے 60 سال کی عمر کے لوگوں کو فارغ کرنے کا لیٹر جاری کر دیا تھا، یکم جولائی سے والد کو فارغ ہونا تھا اور وہ سوچ رہے تھے کہ خیبر پختونخوا کے علاقے دیر میں واقع اپنے آبائی گاؤں چلے جائیں اور وہاں روزگار تلاش کریں لیکن اس سے قبل یہ حادثہ ہوگیا۔‘

افتخار واحد خاندان کے دیگر رشتے داروں کے ساتھ مشترکہ گھر میں رہتے ہیں، جو ریلوے کی زمین پر بنایا گیا ہے، عزاج کے مطابق ‘کسی بھی وقت ریلوے یہ گھر خالی کروا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی دو بہنیں ہیں جن کی شادی کا انتظام کرنا ہے جبکہ بھائی بھی زیر تعلیم ہے اور مدد کے بغیر یہ سب ممکن نہیں ہو سکے گا، کیونکہ کمپنی سے تو کچھ ملنا نہیں تھا، وہاں تو نوکری ختم تعلق بھی ختم۔‘

افتخار واحد نے ملازمت کی ابتدا 2 کے بس میں کنڈیکٹر کے طور پر کی تھی اور اس کے ساتھ وہ الیکٹریشن کا بھی کام جانتے تھے، لیکن یہ ملازمت انھیں چھوڑنا پڑی۔ افتخار کے چچا محمد واحد کا کہنا ہے کہ 2 کے بس کی لائن بند ہوگئی کیونکہ شہر میں چنگچی رکشہ آ گئے، اس کے بعد افتخار نے کرائے پر رکشہ چلانا شروع کیا لیکن اس سے بھی گزر بسر نہیں ہوتا تھا۔

بہت تگ و دو کے بعد بالاآخر افتخار کو گھر سے چند فرلانگ دور سٹاک ایکسچینج میں سکیورٹی گارڈ کی ملازمت مل گئی، ان کے کزن عجب گل کے مطابق یہ چونکہ ملازمت کی جگہ قریب تھی اور کرائے کے پیسے بچ جاتے تھے اس لیے انھوں نے یہ ملازمت اختیار کر لی۔

سٹاک ایکسچینج میں سکیورٹی پر مامور نجی کمپنی کے محافظ اداس اور خاموش ہیں۔

نمائندہ بی بی سی نے ایک سپروائیزر سے معلوم کیا کہ جو گارڈ زخمی ہیں یا ہلاک ہوئے ہیں انھیں کمپنی کی طرف سے کیا معاوضہ ملے گا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘نہ پہلے کبھی دیکھا ہے اور نہ سنا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہو۔’

اس سکیورٹی کمپنی کی گاڑی پر تعینات ایک انچارج نے بتایا کہ ان کے سپروائیزر سابق کمانڈو ہے ، انھوں نے اپنے کندھے پر تحریر دکھاتے ہوئے بتایا کہ وہ آرمی سے ریٹائر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘ کمپنی ہرممکن مدد کرتی ہے، لاش بھی پہنچاتی ہے اور معاوضہ بھی دے گی۔’

پاکستان سٹاک بورڈ کے چیئرمین سلیمان مہدی کا کہنا ہے کہ ان کے سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے یہ حملہ ناکام ہوا ہے، جس میں فورسز کے ساتھ ان کی محافظوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے مرکزی سیکریٹری جنرل ناصر منصور کا کہنا ہے کہ نجی سکیورٹی کمپنیوں کے مالکان ملازمین کا استحصال کرتے ہیں یہ ریٹائر افسران اپنے سابق اداروں کا نام استعمال کر رہے ہیں۔

‘سکیورٹی کمپنیاں ورکرز کیٹگری میں شامل ہیں، ان کے ملازم ‘سکلڈ ورکر’ ہیں اس لیے ان کی آٹھ گھنٹے کی کم از کم تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار سے زائد ہونی چاہیے، انھیں سوشل سکیورٹی کے ادارے، ای او بی آئی کے پاس رجسٹرڈ ہونا چاہیے اور جو سالانہ منافع ہوتا ہے اس کا پانچ فیصد انھیں ملنا چاہیے۔

افتخار واحد منگل کی صبح جب گھر سے نکلے تھے تو عزاج و دیگر بھائی بہن سو رہے تھے اس لیے وہ انھیں دیکھ نہیں سکے تھے، تین بجے ان کی گلی میں ایمبولینس والد کی میت لے کر آئی تھی، ان چند گھنٹوں میں اس گھرانے کی دنیا ہی بدل چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp