پی ایم ہاؤس کے سرسبز لان میں عشائیہ، حکومتی مدت سے لے کر کھانے تک پر بحث


اتوار کی شام وزیراعظم ہاؤس کے سرسبز لان میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں دیے گئے اعشائیہ پیر کو بھی سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا رہا۔

جہاں بہت سے صارفین وزیراعظم کی تقریری صلاحتیوں کے مزید معترف ہوئے وہیں یہ خطاب ان پر گزشتہ دنوں سے جاری حزب اختلاف کی تنقید میں شدت کا باعث بھی بنا۔

یوں تو ہر حکومت ہی کو اپوزیشن کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا رہتا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت پر ہونے والی تنقید تو جیسے ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اسامہ بن لادن کے لیے شہید کے لفط کے استعمال سے شروع ہونے والی تنقید مزید سخت ہوگئی جب حکومت کی جانب سے پیڑولیم مصنوعات پر یک دم پچیس روپے کا آضافہ کر دیا گیا اور اس کی قلت سے پیدا ہونے والے بحران نے تحریک انصاف کی حکومت کے بہت سے حامیوں کو بھی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا۔

پاکستان مسلم لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے تو اتوار کو کی جانے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک قدم آگے جاتے ہوئے حکومت کی جلد گھر جانے کی پیش گوئی بھی کر ڈالی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کے ہمراہ کی جانے والی پریس کانفرنس میں اپوزیشن رہنماؤں نے نہ صرف تحریک انصاف کے بجٹ کو مسترد کر دیا بلکہ خواجہ آصف نے عمران خان کو قوم پر بوجھ قرار دیتے ہوئے ان سے جلد چھٹکارا حاصل کرنے کا منصوبہ بھی سامنے رکھ دیا۔

اپوزیشن کی جانب سے کی جانے والی تنقید اور حکومت کے گھر جانے سے متعلق ہونے والی باتوں کا جواب وزیر اعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کے رکن قومی اسمبلی کو دیے جانے والے عشائیے میں دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کہیں نہیں جا رہی۔ جبکہ چند چینلز کی جانب سے یہ بھی رپورٹ کیا گیا کہ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہماری حکومت کے سوا ان کی پاس کوئی ‘چوائس’ نہیں ہے‘۔

تاہم اس بیان کی تصدیق کرنے کے لیے جب بی بی سی نے تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی ملکہ بخاری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی اتوار کی گفتگو رکن قومی اسمبلی اور ان کے درمیان تھی اور یہ کہ وہ اس پر مزید بات نہیں کر سکتیں۔

وزیراعظم کی تقریر پر سوشل میڈیا پر ردعمل

لیکن جہاں حکومتی ارکان وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تقریر پر مزید بات کرنے سے کتراتے نظر آئے وہیں نہ صرف وزیر اعظم کی تقریر بلکہ اس تقریب کے شرکا، کھانے کا منیو اور اس پر ہونے والے اخراجات تک سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنے رہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گِل نے تقریب کے منیو اور اخراجات کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا کہ‏ ’وزیراعظم کے سادگی کہ شعار کہ مطابق ون ڈِش (قورمہ- مٹر چاول اور نان) سے معزز مہمانوں کی تواضع کی جائے گی اور ماضی کہ برعکس، آج کے عشائیہ کے اخراجات وزیراعظم اپنی جیب سے ادا کریں گے!‘

منیو اور کھانے کے اخراجات کے علاوہ اس تقریب کے مقام اور اس کی تاریخی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی گئی اور ایک صارف عبد اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم عمران خان نے آج جس لان میں کھڑے ہو کر خطاب کیا یہ وہی جگہ ہے جہاں آج سے 28 سال قبل انھیں ورلڈ کپ جیتنے پر مدعو کر کے عزت بخشی گئی تھی۔ اور آج بھی وہ اسی بہادری سے کھڑے لڑ رہے ہیں‘۔

وزیراعظم ہاؤس کے لان کو لے کر ایک سوال سابق گورنر سند محمد زبیر بھی پوچھتے نظر آئے۔ محمد زبیر نے وزیراعظم ہاؤس کے لان میں منعقدہ تقریب کی تصویر شیئر کرتے ہوئے پوچھا کہ ’آخر وہ یونیورسٹی کے طالب علم کہاں ہیں؟ کیا وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی نہیں بننا تھا؟‘

وزیر اعظم عمران خان کے اپنی حکومت کی مدت پورا کرنے سے متعلق بیان پر جہاں کچھ سوشل میڈیا صارفین اس بات پر پرامید دکھائی دیے کہ عمران خان اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گے، وہیں چند نے وزیر اعظم کی اپنی حکومت کو لے کر خود اعتمادی کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا۔

ایک صارف نے وزیر اعظم کو تاریخ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے بھی مستعفی ہونے سے ایک روز قبل کہا تھا کہ وہ کہیں نہیں جا رہے۔

وہیں ایک صارف نے وزیر اعظم کی جانب سے اپنے آپ کو واحد چوائس قرار دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’خود فریبی اور خود ستائشی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی، ویسے (عمران خان نیازی) سے جو ناراض ہو گئے ہیں ان کو سمجھانے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں۔‘

تاہم انھوں نے یہ نہیں واضح کیا کہ وزیر اعظم سے ناراض ہونے والے عوام ہے یا کوئی اور۔۔۔

جبکہ حکومت کی اتحادی مسلم لیگ ق کی رہنما مونس الہی نے جن کی جماعت نے اتوار کے عشائیے میں شرکت بھی نہیں کی، وزیراعظم سے سوال کیا کہ ’کیا صرف مدت پوری کرنا زیادہ ضروری ہے یا عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنا؟‘

https://twitter.com/mooniselahi6/status/1277523301179568128?s=21

پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی وزیراعظم نے پانچ سال کے مدت پوری نہیں کی شاید اسی لیے عدنان چوھدری کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں عمران خان کہیں نہیں جا رہے لیکن اگر ایسی نوبت آئے تو ان کی خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ مل کر عمران خان کو بچائیں اور بطور وزیراعظم عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیں۔

وزیراعظم عمران خان اپنی مدت پوری کرتے ہیں یا نہیں اور ان کے علاوہ کون سی چوئس عوام کے پاس ہے اس پر بحث سوشل میڈیا اور نجی محفلوں میں ابھی بھی جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp