پہاڑی پر جلتی آگ – افریقی لوک کہانی کا ترجمہ


لوگوں کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے میں ادیس ابابا کے شہر میں ارہا نامی ایک نوجوان رہا کرتا تھا۔ وہ لڑکپن میں گاؤں سے شہر چلا آیا تھا۔ اور ایک مالدار تاجر ہسپٹم ہسیائی کے ہاں ملازم ہو گیا تھا۔

ہسپٹم ہسیائی اتنا مالدار تھا کہ اس نے وہ تمام چیزیں خرید لی تھیں جو دولت خرید سکتی تھی۔ اس کا دل زندگی کی عیاشیوں سے بھر چکا تھا اسی لیے کبھی کبھار وہ اپنی زندگی میں بوریت محسوس کرنے لگتا۔

ایک سرد رات جب چاروں طرف ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے تھے ہسپٹم نے ارہا کو حکم دیا کہ وہ آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کر کے لائے۔ جب ارہا آگ جلا چکا تو ہسپٹم گویا ہوا، ایک انسان کتنی سردی برداشت کر سکتا ہے؟ ، وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان انٹوٹو کی پہاڑی کی چوٹی پر تمام رات بغیر کمبل، کپڑوں اور آگ کے گزارے اور نہ مرے؟ ،

مجھے خبر نہیں، ارہا بولا، لیکن کیا وہ بے وقوفی کی بات نہ ہوگی؟
شاید اگر انسان کو اس کا اجر نہ ملے۔ لیکن میں شرط لگانے کے لیے تیار ہوں

، مجھے یقین ہے کہ ایک ہمت والا انسان پہاڑی کی چوٹی پر رات بھر کھڑا رہ سکتا ہے لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میرے پاس شرط لگانے کو کچھ نہیں،

ہسپٹم بولا، اگر تمہیں یقین ہے کہ انسان ایسا کر سکتا ہے تو میں تمہارے ساتھ شرط لگانے کو تیار ہوں۔ اگر تم ساری رات انٹوٹو کی چوٹی پر بغیر کپڑوں اور آگ کے گزار دو تو میں تمہیں دس ایکڑ زمین، ایک گھر اور مویشی انعام کے طور پر دوں گا

کیا تم مذاق کر رہے ہو یا سنجیدہ ہو؟ ، ارہا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
میں جو وعدہ کرتا ہوں اسے پورا بھی کرتا ہوں، ہسپٹم بولا
اگر ایسا ہی ہے تو میں کل رات قسمت آزماؤں گا اور پھر ساری عمر آرام کرتا رہوں گا

ارہا وعدہ تو کر بیٹھا لیکن بہت پریشان تھا۔ اسے اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ پہاڑی کی چوٹی پر رات گزارنا بچوں کا کھیل نہ تھا اور اس سردی میں زندہ رہنا معجزے سے کم نہ تھا۔ ارہا اس شہر میں ایک مرد جہاندیدہ کو جانتا تھا جو بہت دانا تھا۔ وہ اس دانا مرد سے ملنے گیا۔ بوڑھے شخص نے ارہا کی باتیں اور شرط سنی اور کہنے لگا، میں تمہاری مدد کروں گا۔ انٹوٹو کی پہاڑی سے چند میل دور ایک اونچی چٹان ہے جو انٹوٹو کی پہاڑی کی چوٹی سے نظر آتی ہے۔ کل شام جب سورج غروب ہوگا تو میں اس چٹان پر آگ جلاؤں گا تا کہ تمہیں وہ انٹوٹو کی چوٹی سے نظر آئے۔ تم تمام رات اس آگ کو دیکھتے رہنا اور اس کی گرمی، حرارت اور میرے بارے میں، جو تمہارا دوست ہے، سوچتے رہنا۔ میں تمہاری خاطر آگ کے قریب ساری رات بیٹھا رہوں گا۔ اگر تم سردی اور تاریکی کے باوجود یہ کام کر سکے تو صبح بھی زندہ سلامت پائے جاؤ گے،

ارہا نے بڑی گرم جوشی سے اس بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور ہلکے دل سے گھر چلا گیا۔ اگلے دن ہسپٹم نے سہ پہر کو ارہا کو اپنے ملازموں کے ہمراہ انٹوٹو کی چوٹی پر بھیج دیا۔ جونہی رات آئی ارہا نے کپڑے اتار دیے اور پہاڑی کی چوٹی پر ٹھنڈی ہوا میں ننگا کھڑا ہو گیا۔ وادی کی دوسری طرف ارہا کو وہ آگ نظر آئی جو اس کے بزرگ دوست نے اس کے لیے جلا رکھی تھی۔ وہ آگ تاریکی میں ایک ستارے کی طرح جل رہی تھی۔

جوں جوں رات گہری ہوتی گئی ٹھنڈک ارہا کے گوشت پوست سے گزرتی ہوئی اس کی ہڈیوں تک پہنچ گئی۔ پہاڑ کی چوٹی برف کی طرح سرد ہو گئی۔ ہر گھنٹہ وہ بے حس ہوتا گیا۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ اسے ڈر لگنے لگا کہ وہ سردی سے مر جائے گا لیکن اس نے آگ سے اپنی توجہ نہ ہٹائی اور سوچتا رہا کہ اس کا بزرگ دوست اس کی ہمت بندھا رہا ہے۔

کبھی کبھار دھند چند لمحوں کے لیے آگ کے شعلے کے آگے آ جاتی لیکن وہ اس وقت تک گھورتا رہتا جب تک دھند چھٹ نہ جاتی اور اسے آگ دوبارہ نظر آنے لگتی۔ ساری رات وہ سردی سے کانپتا، کھانستا اور ٹھٹھرتا رہا لیکن اپنی جگہ پر ثابت قدم رہا۔ جب صبح طلوع ہوئی تو وہ کپڑے پہن کر پہاڑی کی چوٹی سے نیچے اترا۔

ہسپٹم ارہا کو زندہ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اس نے نوکروں سے سوال کیا
، کیا ارہا ساری رات کپڑوں اور آگ کے بغیر کھڑا رہا؟ ،
، ہاں، سب نوکروں نے مل کر جواب دیا
، تم بہت دلیر آدمی ہو، ہسپٹم نے ارہا کی عظمت کا اقرار کیا
، لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے یہ سب کچھ کیا کیسے؟ ،
، میں ساری رات ایک چٹان پر جلتی آگ پر اپنی توجہ مرکوز کیے رہا،

، کیا کہا تم نے۔ تم آگ کو دیکھتے رہے۔ تم شرط ہار گئے۔ تم اب میرے نوکر ہی رہو گے۔ تمہیں کوئی انعام نہ ملے گا،

، لیکن وہ آگ تو بہت دور تھی۔ وہ وادی کے دوسری طرف تھی۔ مجھ تک اس کی حرارت بالکل نہیں آئی،
، نہیں میں کچھ نہیں مانتا، تم شرط ہار گئے۔ تمہیں اس آگ نے زندہ رکھا،
ارہا بہت رنجیدہ ہوا۔ وہ اپنے بوڑھے دوست کے پاس گیا اور اسے ساری کہانی سنائی۔
، تم یہ معاملہ شہر کے قاضی کے پاس لے جاؤ، بوڑھے دوست نے مشورہ دیا۔

ارہا شہر کے قاضی کے پاس گیا اور شکایت کی۔ قاضی نے ہسپٹم اور اس کے نوکروں کو عدالت میں طلب کیا۔ جب ہسپٹم نے اپنی کہانی سنائی اور نوکروں نے کہا کہ ارہا دور چٹان پر جلتی آگ کو ساری رات دیکھتا رہا تو قاضی بولا
، ارہا تم شرط ہار گئے۔ ہسپٹم نے یہ شرط لگائی تھی کہ تم آگ کے بغیر رات گزارو گے،

ارہا ایک دفعہ پھر مایوس ہوا اور اپنے بوڑھے دوست کے پاس مشورہ کرنے گیا اور کہنے لگا کہ اس کی ساری محنت اکارت گئی۔ اس کی قسمت میں ہی نوکروں کی سی زندگی گزارنا ہے۔
، امید کا سہارا نہ چھوڑو، دانا دوست نے کہا، شہر کی عدالتوں سے زیادہ تو جنگلوں میں انصاف پایا جاتا ہے،

بوڑھا شخص اٹھا اور ہائلو نامی شخص کے پاس پہنچ گیا۔ یہ وہ آدمی تھا جس کے گھر میں وہ لڑکپن میں نوکروں کی طرح کام کیا کرتا تھا۔ اس نے ہائلو کو ارہا کی درد بھری کہانی سنائی اور مدد چاہی۔

ہائلو بھی ایک دانا انسان تھا اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا
، تم فکر نہ کرو میں اس مسئلے کا حل نکالوں گا،

چند دن کے بعد ہائلو نے ایک شاندار دعوت کا انتظام کیا اور شہر کے تمام رؤسا کو دعوت دی۔ اس دعوت میں ہسپٹم اور قاضی بھی مدعو تھے۔

دعوت کے دن سب امیر شاندار لباس میں ملبوس اپنے گھوڑوں اور خچروں پر سوار ہو کر آئے جبکہ ان کے نوکر ان کے پیچھے پیچھے پیدل چل رہے تھے۔ ہسپٹم بھی بیس ملازموں کے ساتھ آیا۔ انہوں نے ہسپٹم کے سر پر ریشمی چھتری تانی ہوئی تھی تا کہ اسے دھوپ کی شدت کا احساس نہ ہو۔ اس کی سواری کے آگے چار نوکر ڈھول بجا کر اس کی آمد کی خبر دے رہے تھے۔

سب مہمان ریشمی قالینوں پر بیٹھ کر گپیں لگانے لگے۔ باورچی خانے سے لذیذ کھانوں کی خوشبو آنے لگی۔ اس خوشبو نے مہمانوں کی بھوک کو اور تیز کر دیا۔ وقت گزرتا گیا لیکن کھانا نہ آنا تھا نہ آیا۔ صرف کھانے کی خوشبو آتی رہی۔ جب شام ہو گئی تو مہمانوں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ وہ حیران تھے کہ ان کا معزز میزبان اتنی دیر کیوں کر رہا ہے۔

آخر ایک مہمان نے سب کی طرف سے ہائلو سے پوچھا
، اے میزبان! تم ایسا کیوں کر رہے ہو۔ ہمیں گھر بلا کر بھوکا رکھ رہے ہو،
، کیا آپ لوگوں کو کھانے کی خوشبو نہیں آ رہی؟ ، ہائلو نے حیرانی سے پوچھا
، لیکن خوشبو کا کھانے سے کیا تعلق۔ خوشبو میں غذائیت تو نہیں ہوتی،

، تو کیا ایسی آگ میں تپش ہوتی ہے جو میلوں دور جل رہی ہو۔ اگر ارہا دور سے آگ کو دیکھ کر گرم رہ سکتا ہے تو آپ لوگ بھی باورچی خانے سے آنے والی خوشبو سے غذائیت حاصل کر سکتے ہیں،

لوگوں کو ہائلو کا اشارہ سمجھ میں آ گیا۔ قاضی کو اپنے فیصلے پر ندامت ہوئی اور ہسپٹم بھی اپنے کیے پر شرمسار ہوا۔ اس نے ہائلو کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ ارہا کو زمین، گھر اور مویشی مل جائیں گے۔
اس فیصلے کے بعد ہائلو نے نوکروں کو حکم دیا اور مہمانوں کے آگے لذیذ کھانے پیش کیے گئے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments