جج فیصلے کن حالات میں دیتے ہیں؟


سچ کے سفر میں بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سفر میں پھولوں کی مالا نہیں پہنائی جاتی بلکہ راستے میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں تاکہ راہی اپنا راستہ بدل لے۔ مگر جو لوگ سچ کے راستے پر چلنے کے عادی ہوں ہزاروں رکاوٹوں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور بالآخر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

گزشتہ سے پیوستہ ہفتے سپریم کورٹ کے نیک نام جج فائز عیسٰی کی اہلیہ نے اسلام آباد کے ایک تھانے میں رپٹ درج کروائی کہ ان کے خاوند کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ پاکستان عدلیہ کی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی جج کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہوں۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو یہ ضرور پڑھنے کو ملے گا کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جس نے بھی سچائی کے راستے پر چلنے کی کوشش کی اسے دھمکیاں دی گئی۔ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال اپنی کتاب ”اپنا گریباں چاک“ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار جنرل ضیا الحق نے انھیں ایک کانفرنس میں تقریر کے لیے بلایا پہلے تو انھوں نے معذرت کی کہ سپریم کورٹ میں بیٹھے ایک جج کی حیثیت سے اس کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتا۔

بہرحال جنرل کے مجبور کرنے پر میں نے تقریر کی اور اپنی تقریر میں فرمایا کہ وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے قائد اعظم کے نظریات سے انحراف کیا ہے۔ جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ بانی پاکستان کے نظریات کی طرف ازسر نو رجوع کیا جائے۔ اپنی تقریر کے دوران جنرل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور خصوصاً حدود آرڈیننس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس کے تحت ثبوت کے مشکل معیار کی بنا پر کسی مجرم کو سزا دے سکنا ممکن نہیں لہذا یہ قانون نمائشی ہے۔ ہمارے ضابطوں پر محض سرخی پاوڈر لگانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے قانون کو نافذ کر کے احکام الہی کا مذاق اڑایا گیا ہے۔

تقریر کے اختتام پر علمائے کرام نے شوروغل کیا۔ کہ گزشتہ چودہ سو سالوں میں کسی کو یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ احکام الہی کو کالعدم قرار دیا جائے۔ میں نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کب کہا کہ احکام الہیٰ کو کالعدم قرار دیا جائے جب علمائے کرام کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو وہ جذباتیت کا اظہار کر کے آپ کے پاؤں کے نیچے سے دری کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد میرے نام گمنام خطوط آنا شروع ہو گئے کہ تم نے اللہ کے قوانین کو کالعدم قرار دیا ہے۔ لہذا اس کی عدالت میں تمھیں موت کی سزا مل چکی ہے۔ پس تم فلاں دن کا سورج چڑھتے نہ دیکھ سکو گے وغیرہ۔ متعلقہ احکام کو اس بابت اگاہ کیا تو انھوں نے میری سیکیورٹی بڑھا دی۔

جسٹس ایس اے رحمان ستر کی دہائی میں پاکستانی عدلیہ کے چیف جسٹس رہے الطاف حسین قریشی اپنی کتاب ”ملاقاتیں کیا کیا“ میں لکھتے ہیں کہ جسٹس ایس اے رحمان کو اگرتلہ سازش کی سماعت کے لیے سربراہ بنایا گیا۔ جسٹس ایس اے رحمان نے ٹھوس دلائل دیے کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے ضروری ہے کہ جج صاحبان ڈھاکہ ہائی کورٹ سے لیے جائیں۔ مگر اس وقت کے وزیر قانون ایس ایم ظفر نے دلیل دی کہ اگر آپ اس ٹریبونل کے سربراہ ہوں گے تو اس کے وقار میں اضافہ ہو گا۔

جسٹس صاحب نے اس دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے ٹریبونل کی سربراہی قبول کر لی۔ جسٹس ایس اے رحمان مقدمے کی سماعت کے لیے ڈھاکہ جاتے اور کئی روز قیام کرتے ہیں۔ اکتوبر 1968 میں ایوب خان نے اپنی دس سالہ ترقی کا جشن منایا جس پر عوام کے اندر شدید ردعمل پیدا ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے راولپنڈی سمیت پورے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ سترہ فروری 1969 کو اگرتلہ سازش کے مرکزی ملزم سارجنٹ ظہور الحق کو گولی مار دی گئی۔ یہ خبر ڈھاکے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور مشتعل ہجوم نے جلاؤ گھیراؤ کا خوں آشام کھیل شروع کر دیا۔

وفاقی وزیراطلاعات خواجہ شہاب الدین کا گھر جلا ڈالا اور جلوس ایوب خان کے خلاف نعرے لگاتا ہوا اس ریسٹ ہاؤس تک پہنچا جہاں جسٹس ایس اے رحمان ٹھہرے ہوئے تھے۔ جلوس نے ریسٹ ہاؤس پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ جسٹس ایس اے رحمان کو قمیض، پاجامے اور چپل میں جان بچانے کے لیے ملازمین کے کوارٹر پناہ لینی پڑی۔ جسٹس ایس اے رحمان کے خیر خواہوں نے انھیں کہا کہ آپ ٹریبونل کی سربراہی چھوڑ دیں۔ وہ اپنی منصب ذمہ داری کے پابند تھے انھوں نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

جسٹس حمود الرحمن سقوط ڈھاکہ کی تحقیقات کر رہے تھے ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں 1958 وقار عدلیہ کے غروب کی داستان شروع ہوتی ہے۔ عدلیہ دراصل آئین کی مخلوقات میں سے ہے۔ اگر آئین ہی معطل کر دیا جائے تو پھر عدلیہ کی بالادستی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ 1958 میں آئین کی فاتحہ پڑھی گئی اس کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور عدلیہ کی بالادستی کا خواب چکنا چور ہوتا گیا۔ انتظامیہ کا عدلیہ پر تسلط بدستور قائم ہے۔

انتظامیہ چاہتی ہے کہ عدلیہ ان کی منشا کے مطابق فیصلے دے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ججوں کی اکثریت اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرتی ہے، ان کا جواب ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال اپنی کتاب ”اپنا گریباں چاک“ میں یوں دیا وہ لکھتے ہیں کہ جسٹس کرم الہی مجھے کبھی کبھار ”ٹرکس آف دی ٹریڈ“ یعنی ججی کے کاروبار میں جو کھیل کھیلے جاتے ہیں سے سبق دیا کرتے تھے۔ میرے پوچھنے پر فرمایا ”دستور سے متعلق فیصلے جج کے ضمیر کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ وقتی مصلحت کے تحت کیے جاتے ہیں۔ ایسے کیسوں میں، میں تو ہمیشہ دو فیصلے تیار کر کے رکھتا ہوں، ایک حکومت کے حق میں اور دوسرا خلاف، جو وقتی مصلحت ہو اس کے مطابق مثبت یا منفی فیصلہ سنا دیتا ہوں۔“

تلاش کرنا پڑے گا کہ فائز عیسیٰ کے قاضی رہنے میں کسے تکلیف ہے، جواب سادہ سا ہے کہ تکلیف ان لوگوں کو ہے جو نہیں چاہتے کہ اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہو۔ انھیں پتہ ہے کہ اگر عدالتیں آئین کے مطابق فیصلے دینا شروع ہو گئی تو ان کی روزی روٹی بند ہو جائے گی اس لیے وہ معاملات جوں کے توں چلائے رکھنے کے لیے دھمکیاں دیتے ہیں۔ یاد رکھیں تاریخ میں وہی لوگ امر ہوتے ہیں جو دھمکیوں کے باوجود سچ کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ ایک عدالت وہ بھی تھی جس نے سقراط کو زہر کا پیالہ پلانے کا فیصلہ سنایا تھا ان ججوں نے مصلحت کے تحت فیصلہ سنایا تھا صدیاں بیت گئی سقراط آج بھی زندہ ہے اور فیصلہ سنانے والے گمنام ہیں۔ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی سچ کو اپنے جیون کا حصہ بنا لیں کامیابی و نیک نامی ملے گی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments